Friday, June 26, 2009

پنجاب کا بدلتا ہوا دیہاتی کلچر


حسین

پنجاب کے دیہات نے گزشتہ دوعشروں کے دوران بہت زیادہ تیزی کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کیا اور ایسے خدوخال کو اپنایا ہے جو اِس کے ماضی کے ساتھ بالکل میل نہیں کھاتے۔ ایک خاص ٹھہراؤ اور دوستانہ روایات کے حامل دیہاتی کلچرجس کے نمایاں ترین پہلوؤں میں سیکولر رویے شامل تھے، افسوس کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اب نہیں رہا۔ پرانی تمام خوبصورت روایات کو اُٹھا کر پھینک دیا گیا ہے اور اُن کی جگہ ایک خاص قسم کی شدت نے لے لی ہے۔ یہ سب کچھ سماجی ارتقا کے کسی نامیاتی اصول کے تحت نہیں ہوا بلکہ زبردستی اس تبدیلی کو لاگو کیا گیا ہے اور ریاست نے اس تبدیلی میں بڑی حد تک معاون کا کردار ادا کیا ہے۔ راسخ العقیدگی کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی اِس مخصوص تبدیلی نے اپنا پہلا قدم اگرچہ شہری سماج میں رکھا تھا لیکن اِسے جو قبولیت دیہاتی سماج سے حاصل ہوئی ہے وہ ابھی تک اِسے شہری سماج فراہم نہیں کرسکا۔ پاکستان کے ماہرین سماجیات خصوصاً ایسے علمائے سماجیات جن کی تحقیق کا دائرہ کار پنجاب کو اپنے احاطے میں لاتا ہے اِن کی اکثریت ابھی تک اس تیز تر اور بالکل نئی قسم کی تبدیلی کو پوری سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہی اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں پنجاب میں گزشتہ دوعشروں کے دوران نئی جنم لینے والی ثقافت اور کلچر کے بارے میں تجزیاتی تحریریں بہت ہی کم ملتی ہیں۔

ہمارے بہت سے دانشور پنجاب میں مذہبی انتہا پسندی اور جہادی کلچر کی نمود کو تو زیر بحث لاتے ہیں لیکن ان جزئیات کو چھوڑ دیتے ہیں جو اس نئے کلچر کی موجودگی کا شدت کے ساتھ احساس دلاتی ہیں اور جہادی کلچر کے پھیلاؤ کا موجب بنی ہیں۔ جب ہم تحقیق کاروں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو عموماًوہ ایک نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں افغانستان کی صورتحال نے ایک بالکل نئے کلچر اور ثقافت کو فروغ دیا ہے لیکن جو کچھ پنجاب میں ہو رہا ہے اور تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے اس کو معروضی انداز میں نہ تو پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی دیکھا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ دانشوروں اور محققین کا اپنا رجحان طبع ہے جو فطری طور پر اپنی توجہ شہروں کی طرف مبذول رکھتے ہیں اور دیہات کو مکمل طور پر نظرانداز کردیتے ہیں۔

میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو پنجاب ہمیں استاد اللہ بخش کی تصاویر اور 70ء کی دہائی میں تیار ہونے والی پنجابی فلموں میں دیکھنے کو ملتا ہے حقیقت میں اب اِس کا کوئی وجود نہیں۔ یہ ایک پرانی بات ہے جس نے تیزی کے ساتھ اپنے آپ کو لپیٹ لیا ہے اور نئے کلچر نے پوری طرح اس کی جگہ لے لی ہے۔ دیہات کے تصوراتی خاکے میں داخل ہونے والوں کو اب کہیں دور بانسری کی مدھر آواز نہیں سنائی دیتی بلکہ اس کی جگہ کلاشنکوف کی گولی کی سنسناہٹ یا پھر تیزی کے ساتھ تعمیر ہونے والی مساجد اور مدارس کے جدید لاؤڈ سپیکرز سے نکلنے والی فرقہ وارانہ اور جہادی گونج نے لے لی ہے۔ کوئی اس طرف توجہ نہ دے تو یہ اور بات ہے لیکن دیہاتی منظر نامہ ایک ایسے شدید خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے اور اُس عفریت کی آمد آمد کا بگل بجا رہا ہے جس نے ہمارے قبائلی علاقوں میں اپنا کام شروع کردیا ہے اور ریاست اِس کے سامنے پوری طرح سرنگوں نظر آتی ہے۔

میں نے مثال کے لیے پنجاب کا ایک گاؤں چنا ہے اور وہاں گزشتہ دس سے پندرہ سال کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہمیں پنجاب کے دیہات میں نمایاں طور پر دو مختلف کیفیات سے واسطہ پڑتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جن دیہات میں غیر مسلم خاندان آباد ہیں یا تھے وہاں پر تبدیلی کی نوعیت مختلف ہے اور جہاں غیر مسلم اقلیتوں کی کوئی نمایندگی نہیں وہاں نوعیت تھوڑی مختلف ہے۔

موضع رتووال ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں واقع ہے۔ رتووال ایک نیم پسماندہ اور اپنی آبادی اور مزاج کے حوالے سے ایک بالکل سیکولر گاؤں سمجھا جاتا تھا۔ قدیم روایت کے مطابق دو ہندو بھائیوں رتا اور پال نے اس گاؤں کو آباد کیا۔ تقریباً تین سو سال پرانے اس گاوٴں کو شروع میں رتا اور پال والا ڈیرہ کہا جاتا تھا جو آہستہ آہستہ رتووال بن گیا۔ تقسیم کے بعد (LOC)لائن آف کنٹرول اس گاوٴں کو تقریباً چھوتی ہوئی گزری اور اس وقت یہ لائن آف کنٹرول گاوٴں سے دوسو گز کے فاصلے پر ہے۔

1990ء تک اس گاوٴں میں 109خاندان آبادتھے جن میں 77مسلمان، 23ہندو، 8عیسائی اور ایک احمدی خاندان تھا۔ 77مسلمان گھرانوں میں 17اہل تشیع اور 60اہلسنت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ بالکل پر امن اور روایتی گاوٴں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا مکمل نمونہ تھا۔ ہندوؤں کا ایک گھرانہ زرعی زمین کا مالک تھا جبکہ 22بے زمین خاندان مسلمان زمینداروں کی زمینوں پر کام کرتے۔ اِن کی عورتیں مسلمانوں کے گھروں میں کام کرتیں جبکہ کچھ نوجوان لڑکے سیالکوٹ میں سپورٹس کا سامان تیار کرنے والے کارخانے میں کام کرتے اور اچھی مزدوری پاتے۔

رتووال کا کوئی بھی باشندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ گاوٴں کی تین سو سالہ تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا ہو جس کا تعلق کسی مذہبی تعصب پر ہو حتیٰ کہ تقسیم کے وقت جب مسلمان اور ہندو مہاجروں پر حملے ہو رہے تھے تو گاوٴں کے مسلمان باسیوں نے یہاں کے رہائشی ہندوؤں کی مکمل حفاظت کی بلکہ بیرونی بلوائیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں اپنے گھر وں میں پناہ دیدی۔ یہی وجہ تھی کہ ایک بھی ہندوخاندان اس گاوٴں کو چھوڑ کر بھارت نہ گیا اور اُنہوں نے یہیں پر رہنے کو ترجیح دی۔

1992ء میں پہلی مرتبہ ان خاندانوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ اب رتووال جہاں وہ صدیوں سے مسلمانوں کے شانہ بشانہ رہتے چلے آرہے ہیں ان کے لیے محفوظ جگہ نہیں رہا۔ 5فروری1992ء کو ”یوم یک جہتی کشمیر“ منانے والے تقریباً200افراد نے سیالکوٹ شہر جو اس گاوٴں سے 17کلو میٹر دور ہے بسیں اور ویگنیں کرائے پر لیں اور ان کے گھروں پر حملہ کر دیا۔ بلوائیوں کی سر براہی جماعت اسلامی سیالکوٹ کے رہنما کر رہے تھے جو ڈنڈوں اور ہاکیوں سے مسلح تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ یہ ہندوہیں انہیں زبردستی ہندوستان بھیجا جائے۔

گاوٴں کے باسی جو بلوائیوں سے متفق نہیں تھے انہوں نے مقابلے کی ٹھانی اور بلوائیوں کو مار بھگایا۔ بلوائیوں کو بتایا گیا کہ یہ ہندو ضرور ہیں لیکن صدیوں سے یہاں آباد ہیں اور ان کا بھارت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ان پر حملہ کرے یا انہیں ہراساں کرے۔ واضح رہے کہ رتووال کے ہندو اور عیسائیوں کی کوئی عبادت گاہ اس گاوٴں میں نہیں تھی نہ ہی کبھی ان لوگوں نے اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ گاؤں میں صرف ایک مسجد تھی جہاں جمعہ اور عیدین کے علاوہ اوسطاً چار سے پانچ نمازی باقاعدگی سے عبادت کرتے البتہ سار اگاؤں، بیساکھی، دیوالی، دسہرہ اور کرسمس کے مواقع پر انہیں اناج یا نقدی کی صورت میں تحائف وغیرہ ضرور دیتا۔ ہندو اور عیسائی خاندانوں میں شادی بیاہ وغیرہ پر تمام مسلمان گھرانے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالتے اور یہ شادی کسی ہندو لڑکی کی نہیں بلکہ گاؤں کی ایک بیٹی کی شادی تصور کی جاتی۔

1992ء کا سال ختم ہونے تک اس گاؤں کے ہندو سہم چکے تھے کیونکہ دو مرتبہ انہیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلی مرتبہ پانچ فروری کو دوسری مرتبہ بابری مسجد کے واقعے کے بعد لیکن مسلمانوں نے انہیں بھر پور تحفظ فراہم کیا۔ جو ہندو لڑکے سیالکوٹ شہر میں ملازمت وغیرہ کرتے اور روزانہ گاؤں سے شہر جاتے تھے انہوں نے شہر جانا چھوڑ دیا اور گھروں پر چھوٹا موٹا کام کرنے لگے۔ رتووال کے ہندو باسی کرشن داس نے مجھے بتایا کہ کام پر انہیں عدم تحفظ کا شدید احساس ہوتا اوریہ خدشہ لاحق رہتا کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔

آج اس گاوٴں میں 5ہندو خاندان آباد ہیں جو معاشی مجبوریوں کے باعث بھارت نقل مکانی نہیں کر سکتے۔ 18ہندو خاندان گزشتہ برسوں میں بھارت جا چکے ہیں اور وہاں ان کا کوئی پر سان حال نہیں۔ وہ گاوٴں کے ہر مسلمان خاندان کو خط لکھتے ہیں اور بھارت جانے کے فیصلے کو سب سے خوفناک فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ ان 18خاندانوں کے 12افرادبھارت میں انتقال کر چکے ہیں۔ آخری خط گاوٴں کے ہر دلعزیز سنت رام کا جنوری 2008ء میں موصول ہوا جو اس نے جالندھر کے کسی ہسپتال سے لکھا تھا جس میں اس نے رتووال میں مرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ بھارت میں انہیں کوئی نہیں جانتا اور ان کے معاشی حالات بہت برے ہیں اور وہ سب چاہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اگر وہ رتو وال واپس

آجائیں تو اگر کوئی جہادی گروپ وہاں قتل بھی کر دے تو کوئی ہرج نہیں وہ رتووال میں آنے والی موت کو خوشی سے قبول کرلیں گے۔ مارچ میں سنت رام کی موت کی اطلاع اس کے بیٹے ہریش چندنے رتو وال والوں کو دی۔

رتووال کے ہندو کسی بیرونی حملہ آور کے خوف سے شاید کبھی بھی بھارت نہ جاتے لیکن ان کی نقل مکانی کا سبب وہ مقامی نوجوان جہادی تھے جنہوں نے کشمیر اور افغانستان کے ٹریننگ کیمپوں سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ہرپال، آنولہ، سیلم، بینی سلہریاں، جودھے والی، کرشنا والی، باجبڑہ گڑھی، میندروال، راموچک، اکھنور، بھلور، چوبارہ اور ضلع سیالکوٹ کے دیگر دیہات کے ہندو باسیوں کو مذہب تبدیل کرنے یا بھارت چلے جانے کا حکم دیا۔

جہادیوں کی خصوصی توجہ رتووال پر مرکوز رہی اور ایک رات کو تین نوجوان ہندو لڑکیوں کملیش ونتی، لاجونتی اور گنگا کو اغوا کر لیا گیا۔ مقامی تھانہ سبز پیر نے ہندو خاندانوں کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا اور اغوا کاروں کو پیغام پہنچایا گیا کہ وہ مغویوں کو لے کر کسی دوسرے شہر چلے جائیں۔ تین دن بعد خبر ملی کہ تینوں لڑکیوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ایک جہادی گروپ کے مسلح افراد نے گاوٴں میں مٹھائی تقسیم کی اور ہوائی فائرنگ کی۔ دو ہفتے کے بعد معلوم ہوا کہ لاجونتی اور گنگا نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی ہے جبکہ کملیش ونتی اپنے شوہر کے ساتھ پشاور چلی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق دونوں لڑکیوں کو قتل کیا گیا کیونکہ ان کا اصرار تھا کہ وہ مذہب تبدیل نہیں کریں گی اور انہیں اپنے گھروں کو جانے کی اجازت دی جائے۔ اس بار مقتول لڑکیوں کے لواحقین نے تھانے سے رجوع نہیں کیا اور اپنے گھروں کا سامان اور مویشی بیچنے لگے۔

ایک دن رتو وال کے باسیوں نے دیکھا کہ 18ہندو خاندان اپنے مکانات چھوڑ کر وہاں سے جاچکے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد گاوٴں والوں کو خط موصول ہوئے جن میں لکھا تھا کہ یہ خاندان بھارت کے شہر جالندھر پہنچ چکے ہیں۔ ان کے چھوڑے ہوئے مکانات پر حسب طاقت مقامی لوگوں نے قبضہ کر لیا اور امی چند خاندان جو پانچ ایکڑ زرعی اراضی کا مالک تھا اس کی زمین پر رینجر ز نے قبضہ کر لیا۔

رتو وال کے واحد احمدی خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تھوڑا مختلف ہے۔ خاندان کا سربراہ جو ایک رٹیائرڈ سکول ٹیچر تھا اور گاوٴں کے معزز افراد میں اس کا شمار ہو تا تھا جب اس کا انتقال ہوا تو اہل گاوٴں نے ایک جہادی تنظیم سے رجوع کرکے یہ فتویٰ حاصل کیا کہ انتقال کرجانے والے کو گاوٴں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جاسکتا۔ اس جہادی تنظیم نے شام کو جلوس نکالا اور دھمکی دی کہ اگر متوفی کو گاوٴں کے مسلمان قبرستان میں دفن کیا گیاتو اس کی لاش کو قبر سے نکال کر آگ لگا دی جائے گی۔ اگلے روز یہ احمدی خاندان گھر کے سامان اور ایک تابوت کے ساتھ رتو وال سے چلا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ یہ خاندان ربوہ میں ایک مکان کرائے پر حاصل کر کے وہاں رہائش پذیر ہو گیا ہے۔

اب رتو وال کی عیسائی برادری کی باری تھی، گوجرانوالہ اورسمندری میں توہین رسالت کے واقعات نے غریب عیسائیوں کو خوفزدہ کر دیا کیونکہ ہندوؤں اور احمدی کا انجام ان کے سامنے تھا۔ جب گاؤں سے گزرنے والی سڑک پر ایک طلبہ تنظیم اور جہادی گروپ کے مسلح نوجوانوں نے ناموس رسالتﷺ کے حق میں جلوس نکالا اور ملزمان کو قتل کردینے کا مطالبہ کیا تو عیسائی برادری نے فیصلہ کیا کہ رتو وال کو چھوڑ دینا چاہیے۔ آٹھ میں سے چھ خاندان وہاں سے نقل مکانی کر گئے۔ جو دو خاندان ابھی تک وہاں رہائش پذیر ہیں ان کے معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کہیں اور جاکر رہائش اختیار کر لیں۔

گاوٴں کے معززین اور پر جوش نوجوانوں کا مؤقف ہے کہ ہندو محض اس لئے گاوٴں چھوڑ گئے کہ اِنہیں بیٹیوں کے لیے رشتے نہیں مل رہے تھے اور انہوں نے لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیوں کے لیے بھارت نقل مکانی کی۔ احمدی خاندان کی نقل مکانی کو وہ اس کا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں جو اپنی مقدس سرزمین پر چلا گیا اور عیسائی خاندانوں کی نقل مکانی کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ ایک عیسائی نوجوان نے ایک مسلمان لڑکی کو اغوا کر لیا تھا اس لیے انہیں گاؤں سے نکال دیا گیا۔

-اس گاؤں میں اب تین مساجد ہیں اور ایک امام بارگاہ ہے۔ بڑی جامع مسجد کے نوجوان خطیب نے مجھے بتا یا کہ اب ماشاء اللہ ہمارا گاؤں ایک مثالی گاؤں ہے جہاں صرف مسلمان بستے ہیں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی اکثریت یہاں سے جا چکی ہے جو باقی بچ گئے ہیں وہ بھی جلد یہاں سے چلے جائیں گے۔ رتووال کے کیس کو میں نے اس قدر وضاحت کے ساتھ اس لیے پیش کیا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے 30برس اس گاؤں میں بسر کیے ہیں۔ اور اس گاؤں کا ہر واقعہ میں نے خود دیکھا ہے۔ میری دائی مائی گنگا ہندو تھی اور میرے لیے اس کا درجہ ایک ماں کا ساہے۔ میں نے گزشتہ سال ستمبر میں جب اس کا پتہ معلوم کر کے خط لکھا تو مجھے دو ہفتوں کے بعد جواب موصول ہوا جس میں مائی گنگا نے صرف یہ لکھا کہ میں مرنے کے قریب ہوں اور کوئی ہے جو مجھے رتو وال لے چلے تاکہ میں اپنی مٹی میں مر سکوں۔ اطلاعات کے مطابق گاؤں کے جہادی نوجوان اس کانام تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور فروری کے انتخابات میں انہوں نے ایک امیدوار کو محض اس لیے ووٹ دیے کہ اس نے گاؤں کا نام تبدیل کروانے کا وعدہ کیا تھا۔

یہ تو تھی رتو وال کی کہانی۔ ضلع سیالکوٹ کے تقریباً چونسٹھ دیہات میں صدیوں سے رہائش پذیر ہندو تقریباً ایسی ہی صورت حال کا شکار ہیں اور تیزی کے ساتھ بھارت اور اندرون سندھ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ دیہاتی کلچر کی تبدیلی کے سوتے ضیا الحق آمریت، افغانستان جہاداور جہاد کشمیر سے پھوٹتے ہیں۔ جبکہ اس میں شدت 1990ء کے بعد دیکھنے میں آتی ہے۔ اچانک دیہات میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی جو سخت گیر مؤقف کے حامل تھے اور وہ نوجوان لڑکوں کو تبلیغ کرتے کہ جہاد ہی وہ راستہ ہے جو امت مسلمہ کو مسائل سے چھٹکارا دلوا سکتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دیہات کی مساجد جو روایتی طور پر بریلوی مکتبہ فکر کی مساجد سمجھی جاتی تھیں وہاں پر تبلیغی جماعت جو کہ دیوبندی مکتبہ فکر کے افراد کی جماعت ہے اس کے دورے بڑھ گئے اور دیہات میں جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی عموماً بہت کم دیکھنے کو ملتی تھی لوگ تقسیم ہونے لگے۔

ابتدا میں جہاد افغانستان کے لیے بھرتی مراکز جماعت اسلامی کے اثر ورسوخ والے علاقوں میں قائم ہوئے اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں دیو بندی اکثریت والے دیہات میں افغان جہاد کے لیے نوجوانوں کو تیار کیا جانے لگا۔ رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر اور ملتان جیسے اضلاع میں شدت پسند دیوبندی جماعتوں نے ان علاقوں میں شدت پسندی کو فروغ دیا اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جوق درجوق جہاد افغانستان کے لیے تربیت حاصل کرنے لگی۔ سیالکوٹ، گجرات، گوجرانوالہ، اوکاڑہ، قصور، فیصل آباد، جھنگ کے اضلاع میں جہاد افغانستان کے لیے زیادہ لوگوں کو اپنی طرف مائل نہ کیا جاسکا۔ لیکن جہاد کشمیر کے لیے ان علاقوں سے بہت زیادہ بھرتی کی گئی۔




ایک تربیت یافتہ نوجوان جب کنٹر، خوست اور قبائلی علاقوں سے واپس آتا تو وہ اپنے ہم عمر دوستوں میں سب سے ممتاز قرار دیا جاتا۔ نوجوان اس کی تربیت اور جدید ترین اسلحہ چلانے کی مہارت سے متاثر ہوتے اور ان میں سے کئی جہاد کے لیے تیار ہو جاتے۔ ان دیہات اور شہروں میں اگرچہ شدت پسند لوگوں کی تعداد زیادہ نہ تھی لیکن عام نوجوانوں خصوصاً دیہاتی نوجوانوں کو تیزی کے ساتھ جہاد کی تربیت اور عملی جہاد کی طرف مائل کیا جانے لگا۔ بچوں اور نوجوان لڑکوں کی بڑی تعداد ایسے مدارس کا رخ کرنے لگی جو شدت پسند نظریات کے حامل افراد اور جماعتوں نے قائم کر رکھے تھے۔

جیسے جیسے مدارس میں طلبا کی تعداد بڑھتی گئی جہاد کے لیے اور مختلف علاقوں میں ایک طرح کی ثقافتی تطہیر کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ دیہات میں مدارس کے فارغ التحصیل نوجوانوں کی تعداد بڑھنے لگی جو تربیت یافتہ تھے اور ایک خاص جذبے کے تحت نہ صرف کشمیرمیں بھارت کو سبق سکھانا چاہتے تھے بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں ماحول کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنا چاہتے تھے۔

تربیت یافتہ اور جہاد سے ایک غازی کی حیثیت سے واپس لوٹے ہوئے نوجوان سب سے پہلے اپنے گھروں، رشتہ داروں اور عزیزواقارب کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کے ساتھ چونکہ ایک طاقت کا احساس وابستہ تھا اس لیے انہوں نے شروع میں اپنی رشتہ دار اور عزیز خواتین اور سکول وکالج جانے والی لڑکیوں کو مجبور کیا کہ وہ شرعی پردے کا اہتمام کریں۔ 90ء کی دھائی کے شروع نصف تک شہروں اور دیہات میں برقع اور سر منہ ڈھانپ کر تعلیم کے لیے جانے والی لڑکیوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہونے لگا۔ اس دوران کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں جہادی بھائیوں نے

پردے سے انکار کرنے والی عزیز رشتہ دار لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ اخبارات میں اس طرح کی خبریں بھی شائع ہوئیں کہ بعض مقامات پر لڑکیوں کو پردے کی پابندی نہ کرنے پر ان کے بھائیوں نے جان سے مار دیا۔

اگر رتووال جیسے گاؤں اور اس کے قریبی دیہات کی مثال پیش کی جائے تو آسانی کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ 90ء کے آغاز تک اس گاؤں سے 25لڑکیاں قریبی دیہات کے ہائی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتی تھیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی برقع پوش یا نقاب پوش نہ تھی۔ وہ روایتی دوپٹہ یا چادر استعمال کرتیں لیکن 95ء تک ان لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو نے لگا جو برقع پہنتی تھیں یا نقاب اوڑھتی تھیں۔ آج یہ صورت حال ہے کہ صرف اس گاؤں سے 100سے زائد لڑکیاں سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں اور ان میں ایک بھی ایسی نہیں جو نقاب یا برقع استعمال نہیں کرتی۔ یہی صورت حال تقریباً پنجاب کے زیادہ تر دیہاتی علاقوں میں ہے جہاں زیر تعلیم لڑکیوں کو نقاب یا برقع اوڑھنے پر مجبور کیا گیا۔

'جہادی سرگرمیوں کے آغا زسے پہلے دو سے تین فیصد گھروں سے بچے مدارس میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے تھے لیکن یہ تناسب 2000ء تک 5سے7فیصد تک پہنچ چکا تھا اور آج وسطی پنجاب کے دیہات میں مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور یہ تناسب 10فیصد سے زیادہ ہے۔
Courtesy Weekly Humshehri

No comments:

Post a Comment