Tuesday, June 30, 2009

ہیجڑوں کے حقوق اور سپریم کورٹ کا حکم نامہ




ہیجڑوں کے حقوق اور سپریم کورٹ کا حکم نامہ

احمدنور

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کا فائدہ کسی اور کو ہوا کہ نہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن پاکستان کے خواجہ سرا (ہیجڑے) اس سے ضرور مستفید ہوئے ہیں۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ دےکھنے میں آیا ہے کہ کسی اعلیٰ عدالت کے جج نے پاکستان میں موجود مخنثوں کو ایک شرمناک زندگی سے بچانے کے لیے اُن کا سروے اور رجسٹریشن کروانے کے ساتھ اُنہیں باقی پاکستانی شہریوں جیسے حقوق دینے کی بات کی ہے۔
Courtesy:Humshehri

16جون کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس چودھری اعجاز احمد اور جسٹس محمود اختر شاھد صدیقی پر مشتمل سپریم کورٹ کے بنچ نے کہا کہ معاشرے میں رد کیے جانے والے خواجہ سراﺅں کی چاروں صوبوں میں رجسٹرےشن کی جائے اور سروے کر کے ایک رپورٹ مرتب کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ کیا والدین رضاکارانہ طور پر بچوں کو گُروﺅں کے حوالے کرتے ہیں یا کسی دباﺅ کے تحت ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ ہدایت اےڈووکیٹ ڈاکٹر اسلم خاکی کی دائر کردہ درخواست کی سماعت کے بعد جاری کی گئی۔ یاد رہے کہ پاکستانی خواجہ سراﺅں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ اُنہیں بھی معاشرے میں بسنے والے دیگر افراد کی طرح حقوق دیے جائیں اور اُن کی رجسٹریشن کی جائے۔ ڈاکٹر اسلم خاکی نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ قدرتی طور پر کسی صلاحیت سے محروم فرد کو انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ خواجہ سراﺅں کو بھی انسانی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ عدالت نے کہا کہ محکمہ سوشل ویلفیئر کے سیکرٹریز خواجہ سراﺅں کا ڈیٹا اکٹھا کریں، اُن کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جائیں اور دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔

دوسری طرف سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کراچی میں خواجہ سراﺅں نے اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کے لیے ایک تنظیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ تنظیم کے قیام کا اعلان خواجہ سرا بندیا رانا یا بندیا باجی نے 19 جون کو کراچی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔ بندیا کراچی کے خواجہ سراﺅں کی کمیونٹی میں گُرو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 23 جون کو ہفت روزہ ”ہم شہری“ کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے بندیا رانا نے بتایا کہ اُن کی تنظیم کا نام (Participatory Organisation for Empowerment of MSM and Transgenders) رکھا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آہستہ آہستہ وہ تنظیم کا دائرہ دوسرے صوبوں میں بھی بڑھائیں گی۔ بندیا نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم چیف جسٹس کے سچے دل سے شکر گزار ہیں کہ کم از کم اُنہوں نے خواجہ سراﺅں کو انسان سمجھا اور ہماری رجسٹریشن کروانے کا حکم جاری کیا۔ اس سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور ہم نے خواجہ سراﺅں کے مسائل کے حل کے لیے تنظیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔“ بندیا نے کہا کہ اُن کی کمیونٹی کو عام شہریوں کی لسٹ میں شامل ہی نہیں کیا جاتا ہے، نہ حکومتی سطح پر اور نہ ہی عوامی سطح پر اُنہیں انسان سمجھا جاتا ہے حالانکہ ہم میں صرف ایک قدرتی نقص ہے ورنہ ہم بھی وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو کوئی بھی عام شہری کر سکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ معاشرے میں دھتکارے جانے کی وجہ سے پہلے ہمارا گزر بسر ناچ کر ہوتا تھا لیکن کیبل کے آنے کی وجہ سے وہ کام بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرا ذریعہ معاش شادی بیاہ تھے لیکن وہاں نچوانے کے لیے اب طوائفوں کو فوقیت دی جاتی ہے لہٰذا ہمارے پاس سڑکوں پر مانگنے کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا جو خواجہ سرا یا زنانے کچھ پڑھ لکھ جاتے ہیں اُنہیں نوکریاں نہیں دی جاتیں بلکہ اُن پر فقرے کسے جاتے ہیں۔ بندیا نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ خواجہ سرا تعلیم حاصل کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ پاکستان میں اُن کے ساتھ ہتک آمیز اور امتیازی رویہ برتا جاتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ پاکستان بھر کے مخنثوں کی خواہش ہے کہ شناختی کارڈ میں اُنہیں مرد لکھنے کے بجائے تیسرا خانہ بنایا جائے جس میں اُن کو خواجہ سرا لکھا جائے۔

بندیا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تیسری صنف کی دو اقسام ہیں۔ ایک تو وہ جو پیدائشی طور پر نہ مرد ہوتے ہیں نہ عورت، اُنہیں خواجہ سرا یا ہیجڑا کہا جاتا ہے جبکہ دوسری قسم زنانوں کی ہے جو جسمانی طور پر تو مرد ہوتے ہیں لیکن اُن کی عادات ہیجڑوں کی طرح کی ہوتی ہیں۔ بندیا رانا نے حکومت اور عام لوگوں سے اپیل کی کہ خواجہ سراﺅں کو بھی انسان سمجھا جائے اور جب حکومت عام شہریوں کے لیے کوئی فنڈ مختص کرتی ہے تو اُن کی فلاح و بہبود کا بھی خیال رکھے۔ تاہم خواجہ سراﺅں کی بہتری کی گنجائش اسی صورت میں نکل سکتی ہے کہ حکومت کو اُن کی صیح تعداد کا علم ہو۔

پاکستان میں خواجہ سراﺅں کی تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراﺅں کی تعداد 10 لاکھ ہے لیکن اس تعداد سے اتفاق کرنا مشکل ہے کیونکہ ایک ارب آبادی والے ملک بھارت میں ان کی تعداد 10 لاکھ ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 16 کروڑ ہے۔ اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے پاکستان میں ہیجڑوں کی تعداد 80,000 بتائی ہے لیکن یہ بھی محض ایک اندازہ ہے۔ پاکستان میں ہیجڑوں کے حقوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو بنے 62 برس گزر چکے ہیں لیکن حکومتی سطح پر اُن کی صحیح تعداد کا پتا آج تک نہیں چلایا گیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ خواجہ سراﺅں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کرے تاکہ ان کی صحیح تعداد کا اندازہ لگایا جا سکے اور ان کے مسائل پر روشنی ڈالی جا سکے۔

ایک ہزار قبل مسیح میں ہیجڑوں کو معاشرے میں اس قدر تضحیک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا جتنا کہ آج دور میں، کیونکہ پُرانے وقتوں میں اُنہیں ہیجڑا یا خُسرہ کہنے کے بجائے خواجہ سرا کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ مُغل دور میں اُنہیں قابل اعتماد مشیر کا درجہ دیا جاتا تھا۔ قرون وسطیٰ میں خواجہ سرا شہزادوں اور شہزادیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے کے فرائض انجام دےتے تھے۔ آج اُنہیں نہ صرف معاشرے میں دھتکار دیا گیا ہے بلکہ اپنے ہی گھر میں رہنے کے لیے اُن کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ بھکاریوں کی طرح بھیک مانگنے پر مجبور ہیںجس کی مثالیں ہمیں ٹریفک کے اشارے پر مانگتے ہوئے ہیجڑوں کی صورت میں ملتی ہیں جن کے منہ پر میک اپ کی تہیں جمی ہوتی ہیں اور وہ لوگوں سے ٹھٹے مذاق کر کے پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں۔ تاہم میک اپ کی اس تہہ کے نیچے عام انسانوں کی طرح زندگی کزارنے کے خواب اور خواہشیں ہوتی ہیں جو ہمیں اور ہماری حکومت کو نظر نہیں آتی ہیں۔

عام لوگوں کے ذہن میں ہیجڑوں کے بارے میں سوچتے ہوئے ایک ایسے شخص کا خاکہ اُبھرتا ہے جس نے گرمی ہو یا سردی ہمیشہ بھڑکیلے رنگوں والا لباس پہنا ہوتا ہے،جو اپنے بڑے بڑے ہاتھوں سے زوردار تالیاں بجاتاہے اور اپنے کولھے مٹکاتا ہے، لوگوں کو ٹھٹے مذاق کر کے ہنساتا ہے اور جہاں سے گزرتا ہے لوگ اس سے حظ اٹھاتے ہیں۔ ہیجڑوں کے بارے میں سوچتے ہوئے لوگوں کا ذہن اس کے جسم سے آگے نہیں جاتا۔ مردانہ جسم اور نسوانی روح کے حامل خواجہ سراﺅں کو ہمارے معاشرے میں عزت و تقریم دینا تو درکنار انہیں انسان بھی نہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ اُن کو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے حالانکہ خواجہ سرا ﺅں میں صرف ایک قدرتی خامی ہے کہ اُن کا تعلق تیسری جنس سے ہے لیکن باقی ہر لحاظ سے وہ ہماری طرح عام انسان ہیں جو ہماری طرح کے جذبات اور محسوسات رکھتے ہیں۔ معاشرے میں خواجہ سراﺅں کے ساتھ لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ وہ ماں جو اپنے بچے کو نو مہینے تک کوکھ میں رکھتی ہے، اس کے تیسری جنس سے تعلق ہونے کی بنیاد پر اُسے ہیجڑوں کے گُرو کے سپرد کر دیتی ہے۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کا بچہ صحت مند پیدا ہو اور صحت مند بچے کی پیدائش پر ایک فطری خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ آپ تصور کریں کہ ایک والد فکر مندی سے آپریشن تھیٹر کے باہربچے کی پیدائش کی خبر سننے کے لیے بے تاب ہے۔ اس صورتحال میں ایک گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد ڈاکٹر باہر آتا ہے اور باپ کو بتاتا ہے کہ بچہ صحت مند پیدا ہوا ہے۔ مضطرب باپ اپنے بچے کی جنس کے بارے میں پوچھتا ہے تو ڈاکٹر اُسے بتاتا ہے کہ بچہ ہیجڑا ہے۔ ایک لمحے میں صحت مند بچہ پیدا ہونے کی خوشی ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ باپ کے ذہن میں مختلف سوالات جنم لینا شروع کر دیتے ہیں مثلاً یہ کہ اُس کے ساتھ یہ کیوں ہوا؟ اُس سے ایسا کیا گناہ سرزد ہوا جس کی سزا اُسے ایک ایسے بچے کی صورت میںملی جو نہ مرد ہے نہ عورت؟ وہ اپنی بیوی کو کیا بتائے گا اور یہ خبر سُن کر اُس کی بیوی کا کیا حال ہوگا؟ اُس کے ہمسائے اُن کے خاندان کے بارے میں کیا سوچیں گے؟محلے کے لوگ اور دوست احباب کیا سوچیں گے؟ ان سارے سوالات کے بعد بچے کی پیدائش کی خوشی نفرت میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ اپنے ہی خون سے جان چھڑانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ ہیجڑوں کا گُرو کسی طرف سے بھنک پا کر اُن کے گھر پہنچ جاتا ہے اور پہلے سے متزلزل والدین کو مطمئن کر کے اُن کا بچہ لے جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہیجڑوں کو بدنامی کا داغ سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے کی اس بے رُخی کے باعث والدین کے پاس کوئی اور دوسرا راستہ نہیں بچتا ہے۔

باشعور شہری ہونے کے ناتے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خواجہ سرا عام انسان ہیں اور اُن میں صرف ایک خامی ہے جو قدرتی ہے۔ اگر اندھے بہرے اور لنگڑے لُولے افراد پاکستانی شہری ہونے کا لطف اُٹھا سکتے ہیں تو خواجہ سراﺅں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جا سکتا۔ اُنہیں مختلف معاشرتی بُرائیوں سے بچانے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اُنہیں عام انسان سمجھنا شروع کر دیں۔ مزید یہ کہ حکومت اُن کے لیے نوکریوں کا بندوبست کرنے پرسنجیدگی سے غور کرے۔


No comments:

Post a Comment