Monday, July 20, 2009

سندھ کی درس گاہوں پر رینجرز کا قبضہ




تعلیم حکومت پاکستان کی ترجیحات میں شامل نہیں

انیس منصوری

دہشت گردی کے واقعات اور سیاسی مصلحتوں کے باعث حکومت سندھ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ رینجرز اب مستقل طور پر کراچی اور سندھ میں قیام کرے گی، اس لیے رینجرز کا بجٹ بھی 40 فیصد بڑھا دیا گیا ہے جبکہ انہیں کئی ایکڑ اراضی بھی پورے سندھ میں دی گئی ہے، جہاں ان کی تربیت کے علاوہ رہائش کا بھی انتظام ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں پاکستان رینجرز کو سندھ میں دعوت دی گئی جس کے بعد پاکستان رینجرز کو سندھ اور پنجاب میں انتظامی سطح پر تقسیم کیا گیا، لیکن انہیں قانونی طور پر اب بھی عارضی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ ہر سال سندھ کے آئی جی ایک خط کے ذریعے وفاق سے درخواست کرتے ہیں کہ رینجرز کا قیام مزید بڑھایا جائے۔ اب تک کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوں یا سندھ بھر میں امن و امان کی صورتحال، ہمیشہ رینجرز کو واقعات کے بعد طلب کرکے شوپیس کی صورت میں کھڑا کیا جاتا ہے۔

رینجرز کو جب کراچی اور پورے سندھ میں طلب کیا گیا تو ان کے قیام کو عارضی بتاتے ہوئے انہیں سکولوں، کالجوں اور جامعات میں جگہ دی گئی۔ 17 سال گزر جانے کے باوجود شہری و صوبائی حکومت اور جامعات کی انتظامیہ تاحال انہیں خالی نہیں کروا سکی۔ حیدرآباد میں چار سرکاری سکول، لطیف آباد نمبر ایک کے ہاسٹل، گورنمنٹ ڈگری کالج کالی پور کے دو ہوسٹلوں اور مسلم گورنمنٹ سائنس کالج پر رینجرز کا قبضہ ہے۔ ”قبضہ“ کا لفظ صوبائی وزیرِ تعلیم پیر مظہر الحق نے اپنے 24 جون 2009ء کے تحریری جواب میں استعمال کیا ہے۔ سندھ حکومت بھی رینجرز کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے اور کہا گیا ہے کہ شہری اور ضلعی حکومتیں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے گفتگو کررہے ہیں۔ لیکن ناظمین بے بس نظر آتے ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں خاموش ہیں اور کئی سکولوں پر پولیس کا قبضہ ہے، جسے صوبائی حکومت ختم کروا سکتی ہے لیکن یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ تعلیم حکومت پاکستان کی ترجیحات میں سرے سے ہے ہی نہیں۔

شکار پور ضلع کے دو سرکاری سکولوں، گورنمنٹ گرلز ماڈل سکول کرن اور گورنمنٹ گرلز بوائز پرائمری سکول ناپر کوٹ محکمہ پولیس کے قبضہ میں ہیں۔ ڈسٹرکٹ ناظم عارف خان مہر نے ”ہم شہری“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزارتِ داخلہ اور وزارت تعلیم نے کبھی ہم سے رابطہ نہیں کیا لیکن مقامی سطح پر ہم نے پولیس کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ سکول کی جگہ کاقبضہ ختم کردیں۔ ہم اس کے متبادل جگہ دینے کے لیے تیار ہیں مگر سات برس سے صرف کاغذی کارروائی ہو رہی ہے۔

نوابشاہ کا نام تبدیل کرکے بینظیر آباد تو کردیا گیا لیکن پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آصف علی ذرداری کی بہن فریال تالپور، جو کہ اب رکن قومی اسمبلی ہیں، جب اس ضلع کی ناظمہ تھیں تو ڈسٹرکٹ کونسل نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی تھی کہ گورنمنٹ ڈگری کالج پر سے رینجرز کا قبضہ ختم کیا جائے۔ فریال تالپور کے رکن اسمبلی بننے کے بعد سے پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے ناظم کا انتخاب نہیں ہونے دیا مگر فریال تالپور کا ایک قریبی ساتھی قائم مقام ناظم ہے۔ قائم مقام ناظم نوابشاہ عبدالحق جمالی نے ”ہم شہری“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قرار داد کی منظوری کے بعد وزیر اعلیٰ کو بھی اس کی تفصیلات بھجوا دی گئی تھیں۔ ڈی جی رینجرز کو کئی خطوط لکھے گئے لیکن بے سود رہا۔ جمالی نے مزید کہا ہے ڈسٹرک ریسٹ ہاؤس پر رینجرز کا قبضہ ہے، وہ ضلع کی ملکیت ہے لیکن اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود نہ تو ضلع کو کرایہ دیا جارہا ہے اور نہ ہی جگہ کا فیصلہ کیا جارہا ہے۔ مٹیاری میں گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول مشتاق حجانو یونین کونسل شاہ عام شاہ تعلقہ مٹیاری، گھوٹکی میں گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن کی عمارت کمرشل مشقوں کے لیے استعمال ہونے کے علاوہ گورنمنٹ ڈگری کالج گھوٹکی کے شعبہ طبیعات کی ایک عمارت پر رینجرز کا قبضہ ہے، جبکہ لاڑکانہ میں گورنمنٹ ہائی سکول گجان پور اور گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج لاڑکانہ کا ہاسٹل بھی رینجرز کے پاس ہے۔

کراچی میں دو ثانوی بوائز سکول رینجرز کے پاس جبکہ ایک پولیس کی تحویل میں ہے۔ گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج جنگل شاہ کیماڑی ٹاؤن، ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج کا ہاسٹل۔ جہاں رینجرز نے اپنا مرکز بنا رکھا ہے وہیں جامعہ ملیر گورنمنٹ کالج ملیر پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ کالجز تو درکنار فزیکل ایجوکیشن کراچی کے گورنمنٹ کالج کے ہاسٹل کے ساتھ پرنسپل کے بنگلے پر بھی رینجرز کے اہلکاروں کا قبضہ ہے۔ رینجرز نے صرف بوائز ہی نہیں بلکہ گرلز کالج پر بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہوا ہے اور گورنمنٹ کالج برائے خواتین 11.F نیو کراچی بھی رینجرز کے پاس ہے۔ دریں اثنا وفاق کے زیر اہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں، وفاقی اردو یونیورسٹی اور داؤد انجینئرنگ کالج میں بھی رینجرز بدستور موجود ہے۔

سندھ رینجرز کے ترجمان اورنگزیب نے ”ہم شہری“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر سندھ حکومت کوئی متبادل جگہ فراہم کردے تو رینجرز سکولوں، کالجوں اور جامعات کو خالی کر دے گی۔ ”ہم شہری“ نے جب یہ پوچھا کہ کراچی میں 20ایکڑ سے زیادہ زمین مختلف حصوں میں دی گئی ہے تو ان کا موٴقف تھا کہ اگر یہی اراضی شہر کے مرکز میں دی جائے تو رینجرز کو آسانی ہو گی، جبکہ اندرون سندھ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اب تک وہاں بھی جگہیں فراہم نہیں کیں۔ دعویٰ ہے کہ جامعات اور کالجوں میں رینجرز کے قیام کو ہمیشہ طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم کی ممکنہ روک تھام کے لیے ضروری قرار دیا جاتا ہے مگر حقائق قدرے مختلف ہیں۔ وفاقی جامعہ اردو اور جامعہ کراچی میں ہونے واقعات اس کی نفی کرتے ہیں۔ جبکہ سندھ پروفیسر، لیکچرار ایسوسی ایشن (SPLA) کراچی کے صدر اطہر مرزا نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” جن جگہوں پر رینجرز ہے وہاں کون سا امن قائم ہو گیا؟ اگر کوئی ادارہ تعلیم کے لیے ہے اور طلبہ وطالبات کے لیے ہے تو اسے صرف اسی مقصد کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ تعلیمی اداروں پر سکیورٹی فورسز کا قبضہ فوراََ ختم کیا جائے۔“

No comments:

Post a Comment