Monday, July 20, 2009

سندھ کی درس گاہوں پر رینجرز کا قبضہ




تعلیم حکومت پاکستان کی ترجیحات میں شامل نہیں

انیس منصوری

دہشت گردی کے واقعات اور سیاسی مصلحتوں کے باعث حکومت سندھ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ رینجرز اب مستقل طور پر کراچی اور سندھ میں قیام کرے گی، اس لیے رینجرز کا بجٹ بھی 40 فیصد بڑھا دیا گیا ہے جبکہ انہیں کئی ایکڑ اراضی بھی پورے سندھ میں دی گئی ہے، جہاں ان کی تربیت کے علاوہ رہائش کا بھی انتظام ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں پاکستان رینجرز کو سندھ میں دعوت دی گئی جس کے بعد پاکستان رینجرز کو سندھ اور پنجاب میں انتظامی سطح پر تقسیم کیا گیا، لیکن انہیں قانونی طور پر اب بھی عارضی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ ہر سال سندھ کے آئی جی ایک خط کے ذریعے وفاق سے درخواست کرتے ہیں کہ رینجرز کا قیام مزید بڑھایا جائے۔ اب تک کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوں یا سندھ بھر میں امن و امان کی صورتحال، ہمیشہ رینجرز کو واقعات کے بعد طلب کرکے شوپیس کی صورت میں کھڑا کیا جاتا ہے۔

رینجرز کو جب کراچی اور پورے سندھ میں طلب کیا گیا تو ان کے قیام کو عارضی بتاتے ہوئے انہیں سکولوں، کالجوں اور جامعات میں جگہ دی گئی۔ 17 سال گزر جانے کے باوجود شہری و صوبائی حکومت اور جامعات کی انتظامیہ تاحال انہیں خالی نہیں کروا سکی۔ حیدرآباد میں چار سرکاری سکول، لطیف آباد نمبر ایک کے ہاسٹل، گورنمنٹ ڈگری کالج کالی پور کے دو ہوسٹلوں اور مسلم گورنمنٹ سائنس کالج پر رینجرز کا قبضہ ہے۔ ”قبضہ“ کا لفظ صوبائی وزیرِ تعلیم پیر مظہر الحق نے اپنے 24 جون 2009ء کے تحریری جواب میں استعمال کیا ہے۔ سندھ حکومت بھی رینجرز کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے اور کہا گیا ہے کہ شہری اور ضلعی حکومتیں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے گفتگو کررہے ہیں۔ لیکن ناظمین بے بس نظر آتے ہیں جبکہ سیاسی جماعتیں خاموش ہیں اور کئی سکولوں پر پولیس کا قبضہ ہے، جسے صوبائی حکومت ختم کروا سکتی ہے لیکن یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ تعلیم حکومت پاکستان کی ترجیحات میں سرے سے ہے ہی نہیں۔

شکار پور ضلع کے دو سرکاری سکولوں، گورنمنٹ گرلز ماڈل سکول کرن اور گورنمنٹ گرلز بوائز پرائمری سکول ناپر کوٹ محکمہ پولیس کے قبضہ میں ہیں۔ ڈسٹرکٹ ناظم عارف خان مہر نے ”ہم شہری“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزارتِ داخلہ اور وزارت تعلیم نے کبھی ہم سے رابطہ نہیں کیا لیکن مقامی سطح پر ہم نے پولیس کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ سکول کی جگہ کاقبضہ ختم کردیں۔ ہم اس کے متبادل جگہ دینے کے لیے تیار ہیں مگر سات برس سے صرف کاغذی کارروائی ہو رہی ہے۔

نوابشاہ کا نام تبدیل کرکے بینظیر آباد تو کردیا گیا لیکن پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ آصف علی ذرداری کی بہن فریال تالپور، جو کہ اب رکن قومی اسمبلی ہیں، جب اس ضلع کی ناظمہ تھیں تو ڈسٹرکٹ کونسل نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کی تھی کہ گورنمنٹ ڈگری کالج پر سے رینجرز کا قبضہ ختم کیا جائے۔ فریال تالپور کے رکن اسمبلی بننے کے بعد سے پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے ناظم کا انتخاب نہیں ہونے دیا مگر فریال تالپور کا ایک قریبی ساتھی قائم مقام ناظم ہے۔ قائم مقام ناظم نوابشاہ عبدالحق جمالی نے ”ہم شہری“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قرار داد کی منظوری کے بعد وزیر اعلیٰ کو بھی اس کی تفصیلات بھجوا دی گئی تھیں۔ ڈی جی رینجرز کو کئی خطوط لکھے گئے لیکن بے سود رہا۔ جمالی نے مزید کہا ہے ڈسٹرک ریسٹ ہاؤس پر رینجرز کا قبضہ ہے، وہ ضلع کی ملکیت ہے لیکن اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود نہ تو ضلع کو کرایہ دیا جارہا ہے اور نہ ہی جگہ کا فیصلہ کیا جارہا ہے۔ مٹیاری میں گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول مشتاق حجانو یونین کونسل شاہ عام شاہ تعلقہ مٹیاری، گھوٹکی میں گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن کی عمارت کمرشل مشقوں کے لیے استعمال ہونے کے علاوہ گورنمنٹ ڈگری کالج گھوٹکی کے شعبہ طبیعات کی ایک عمارت پر رینجرز کا قبضہ ہے، جبکہ لاڑکانہ میں گورنمنٹ ہائی سکول گجان پور اور گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج لاڑکانہ کا ہاسٹل بھی رینجرز کے پاس ہے۔

کراچی میں دو ثانوی بوائز سکول رینجرز کے پاس جبکہ ایک پولیس کی تحویل میں ہے۔ گورنمنٹ ڈگری بوائز کالج جنگل شاہ کیماڑی ٹاؤن، ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج کا ہاسٹل۔ جہاں رینجرز نے اپنا مرکز بنا رکھا ہے وہیں جامعہ ملیر گورنمنٹ کالج ملیر پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔ کالجز تو درکنار فزیکل ایجوکیشن کراچی کے گورنمنٹ کالج کے ہاسٹل کے ساتھ پرنسپل کے بنگلے پر بھی رینجرز کے اہلکاروں کا قبضہ ہے۔ رینجرز نے صرف بوائز ہی نہیں بلکہ گرلز کالج پر بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہوا ہے اور گورنمنٹ کالج برائے خواتین 11.F نیو کراچی بھی رینجرز کے پاس ہے۔ دریں اثنا وفاق کے زیر اہتمام چلنے والے تعلیمی اداروں، وفاقی اردو یونیورسٹی اور داؤد انجینئرنگ کالج میں بھی رینجرز بدستور موجود ہے۔

سندھ رینجرز کے ترجمان اورنگزیب نے ”ہم شہری“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر سندھ حکومت کوئی متبادل جگہ فراہم کردے تو رینجرز سکولوں، کالجوں اور جامعات کو خالی کر دے گی۔ ”ہم شہری“ نے جب یہ پوچھا کہ کراچی میں 20ایکڑ سے زیادہ زمین مختلف حصوں میں دی گئی ہے تو ان کا موٴقف تھا کہ اگر یہی اراضی شہر کے مرکز میں دی جائے تو رینجرز کو آسانی ہو گی، جبکہ اندرون سندھ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اب تک وہاں بھی جگہیں فراہم نہیں کیں۔ دعویٰ ہے کہ جامعات اور کالجوں میں رینجرز کے قیام کو ہمیشہ طلبہ تنظیموں کے درمیان تصادم کی ممکنہ روک تھام کے لیے ضروری قرار دیا جاتا ہے مگر حقائق قدرے مختلف ہیں۔ وفاقی جامعہ اردو اور جامعہ کراچی میں ہونے واقعات اس کی نفی کرتے ہیں۔ جبکہ سندھ پروفیسر، لیکچرار ایسوسی ایشن (SPLA) کراچی کے صدر اطہر مرزا نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” جن جگہوں پر رینجرز ہے وہاں کون سا امن قائم ہو گیا؟ اگر کوئی ادارہ تعلیم کے لیے ہے اور طلبہ وطالبات کے لیے ہے تو اسے صرف اسی مقصد کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ تعلیمی اداروں پر سکیورٹی فورسز کا قبضہ فوراََ ختم کیا جائے۔“

پاکستان میں انتہا پسندی کا ارتقا، اسباب اور اثرات



پاکستان میں انتہا پسندی کا ارتقا، اسباب اور اثرات

مجاہدحسین

پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے کیونکہ ایک بار پھر اس کے وجود کو شدید خطرات نے گھیر رکھا ہے اور بیرونی دنیا اس کے مستقبل کے حوالے سے کافی متفکر ہے۔تقریباً تین صوبوں کو مرکز سے سنجیدہ شکایات ہیں اور دوصوبوں میں متشدد تحریکیں چل رہی ہیں جبکہ ملک میں نئے صوبے بنانے کے موضوع پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد کے کئی شہروں اور دیہات میں متشدد طالبان اور انتہا پسند ریاستی افواج کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔اس جنگ نے پچیس لاکھ سے زائد شہریوں کو اُن کے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور کردیا ہے اور نقل مکانی کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد بے سروسامانی کے عالم میں امدادی مراکز اور خیمہ بستیوں میں پڑی ہے۔طالبان اور اُن کے ساتھی پاکستان کے نہتے اور بے گناہ شہریوں کے خلاف خودکش بم دھماکے کررہے ہیں جن میں سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ ہزاروں معذور اور زخمی ہوئے ہیں۔کئی مہینوں سے جاری فوجی آپریشن سوات کے علاوہ جنوبی وزیرستان کے پہاڑوں میں بھی جاری ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ چھاپہ مار جنگ کے ماہر طالبان اور انتہا پسند اس جنگ کو طویل عرصے تک جاری رکھیں گے جو پاکستانی ریاست کے لیے عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جاری مذکورہ جنگ پاکستان کی سلامتی اور بقا کی جنگ میں تبدیل ہوتی جارہی ہے کیونکہ طالبان نے پاکستانی ریاست اور اِس کے قوانین کو چیلنج کیا ہے۔

`اصل مسئلہ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر دہشت پھیلانے والے پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ پاکستان کے سترہ کروڑ عوام کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔ جب کہ دہشت گرد اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام مذہبی بنیادوں پر ہونے والی قتل وغارت گری کی حمایت نہیں کرتے اور نہ ہی وہ متشدد بنیاد پرستوں کو اجازت دیں گے کہ وہ پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرلیں۔انتہا پسند اور اُن کے ساتھی پاکستان کو ایک ناکام ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور بدقسمتی سے اِنہیں اس مقصد میں کامیابی بھی حاصل ہورہی ہے کیونکہ بحیثیت ملک پاکستان دنیا کے چند پسماندہ اور شورش زدہ ممالک میں شمار کیا جانے لگا ہے اور اس کی بین الاقوامی ساکھ بہت بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ بیرونی دنیا پاکستان کو خطرات میں گھرا ہوا ملک سمجھتی ہے جو ایٹمی اسلحہ رکھتا ہے لیکن اس کی معاشی حالت تیزی کے ساتھ ابتر صورت حال کا شکار ہورہی ہے۔تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ ترقی کی شرح 2 فیصد کے قریب ہے جو کہ دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک سے کم ہے۔بہت سے تجزیہ نگاراس بات پر متفق ہیں کہ پاکستانی ریاست ایک مرتبہ پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لیکن اس مرتبہ یہ کام انتہاپسند اور اُن کے ساتھی سرانجام دینا چاہتے ہیں۔

اس سے پہلے 1971ء میں پاکستانی ریاست کو اپنی ٹوٹ پھوٹ کا منظر دیکھنا پڑا تھا، جس کے لیے آج بھی ہم آزردہ ہیں اور ہر سال 16 دسمبر کو سقوط مشرقی پاکستان کے نام سے ایک دوسرے کو کوسنے دیتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ریاست کی اس ٹوٹ پھوٹ کے مجرمانہ عمل کی غیرجانبدارانہ تحقیق کی جاتی اور ہر اُس ذمہ دار کو سزا دی جاتی جو اس جرم میں شریک تھا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا ۔ ایسا اس لیے نہ ہوسکا کہ ملک میں جمہوری اداروں کو پھلنے پھولنے سے روک دیا گیا تھا اور ایسے لوگ پاکستان کے اقتدار پر قابض ہوگئے تھے جن کو آئین اور قانون ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔عملی طور پر قائد اعظم کے تصور پاکستان کی نفی کرنے والوں میں کئی ایسے لوگ بھی شامل تھے جو تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے رفیق تھے لیکن اِن کی اچانک رحلت کے بعد اُنہوں نے اقتدار میں شامل ہونے کے لیے غیر آئینی حربوں کا ساتھ دیا اور پاکستان کو قائد کے خواب کے برعکس ایک جمہوری پاکستان بننے سے روک دیا۔

یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ پاکستان کو دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ کس طرح اُلجھا کر رکھ دیا گیا تاکہ پاکستان کے عوام ایک آزاد اور خودمختار ملک میں اپنا جمہوری حق حاصل نہ کرسکیں۔مفاد پرست جاگیردار اور بالادست طبقات نے فوج کے ساتھ مل کر پاکستان کی نئی تعریف متعین کرنے کی کوشش کی ا ور بدقسمتی سے اس میں کامیاب بھی رہے۔اس کے بعد کیا تھا اسلام آباد میں ایسے حکمرانوں کی فصل تیار ہونے لگی جو عوام کے براہ راست اقتدار سے بدکتے تھے اور اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہر قسم کا حربہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔رفتہ رفتہ پاکستان ایک ایسے ملک کا روپ دھار گیا جہاں ایسی حکومتیں بننا شروع ہوگئیں جن کا کنٹرول غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھ میں تھا۔اس کا نتیجہ یوں برآمد ہوا کہ مفاد پرستوں کا ایک جم غفیر اکٹھا ہوتا گیا اور غیر جمہوری حکمرانوں کی پشت پناہی کرنے لگا۔

لیاقت علی خان کے اندوہ ناک قتل کے بعد ملک میں ایسے لیڈروں کی بہتات تھی جو اقتدار کے لیے کسی بھی اُصول یا ضابطے کو قربان کرسکتے تھے۔ملک کے بیشتر حصوں میں مذہبی جماعتوں اور مسلکی طور پر منقسم گروہوں کے درمیان کشیدگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ چونکہ مرکز میں یا تو براہ راست فوج اقتدار پر قابض تھی یا پھر ایسے کٹھ پتلی نام نہاد سول حکمران جو مذہب اور مسلک کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کو تیار کھڑے رہتے۔ایوب خان کے مارشل لا کے آغاز تک ملک میں مذہبی و مسلکی بنیادوں پر تقسیم کا سلسلہ شدت اختیار کرچکا تھا۔شوکت اسلام کے جلسوں سے لے کر ختم بنوت کے جلوسوں تک ہر کوئی دوسرے مسلک یا عقیدے کے لوگوں کے لیے حتی المقدور نفرت اور بے زاری کا سامان پیدا کررہا تھا۔اکثر اوقات ہمارے تجزیہ نگار ضیا الحق دور کو فوج میں فرقہ وارانہ اور مذہبی متشدد خیالات کی ترویج کا ذمہ دار قراردیتے ہیں لیکن یہ دعویٰ حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے کیونکہ فوج کے مزاج کو مذہبی رنگ دینے میں1965ء کی پاک بھارت جنگ کا بہت اہم کردار ہے، جس میں بھارت پر پاکستان کی فتح ثابت کرنے کے لیے قومی سطح پر جھوٹ کا سہارا لیا گیا۔بھارت کے ساتھ جنگ کو مکمل طور پر کفر اور اسلام کی جنگ بنا کر پیش کیا گیا اور اہل پاکستان کو یہ پیغام دیا گیا کہ اگر وہ بھارت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو اِنہیں ذہنی طور پر اپنے آپ کو اسلام کے سنہری دور میں لے کرجانا ہوگا۔یوں ملک میں ایک نئی قسم کی ”ابتدا“ کا کام شروع کیا گیا اور برصغیر پاک وہند پر حملہ آور مسلمان فاتحین کو مبالغہ آمیز خراج عقیدت پیش کیا جانے لگا۔ دوسری طرف پنجاب میں اقلیتی فرقے احمدیوں کو نشانے پر رکھ لیا گیا اور اِن کے بارے میں اس پراپیگنڈے کو عام کیا گیا کہ احمدی نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی سچے پاکستانی۔عقائد کی بنیاد پر ”تقسیم کفر“ کے اس عمل میں سواد اعظم کے ساتھ اہل تشیع بھی شامل ہوگئے اور احمدیوں کے ارتداد کے فتوے جاری ہونے لگے۔سول حکمرانوں کو چونکہ بہت پہلے طاقت ور فوج اور بیوروکریسی ”سیاسی طور پر بانجھ“ کر چکی تھی اس لیے یہ ممکن نہ رہا کہ پاکستان کو مذہبی و مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہونے سے روکا جاسکے۔

ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔وہ سماج جو صدیوں سے کسی مذہبی ومسلکی تفریق کے بغیر ایک ساتھ رہتا چلا آرہا تھا، اس کے تانے بانے بکھر گئے اور مخالف مسالک کو برداشت کرنا ایک ناممکن فعل نظر آنے لگا۔اگر ایک طرف اہل تشیع اور سواد اعظم آپس میں گتھم گتھا تھے اور محرم کے ایام میں مشتعل ہجوموں کو قابو کرنا مشکل تھا تو دوسری طرف احمدیوں کے خلاف تحریک بھی زوروں پر تھی اور اِن کی باضابطہ تکفیر کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا۔ پنجاب کے بعض علاقوں میں عیسائیوں اور دیگر اقلیتی طبقات کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔بالآخر پیپلز پارٹی کی بظاہر روشن خیال حکومت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں احمدیوں کی تکفیر کے بل کو قانون کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

اگرچہ بھٹو کا یہ فیصلہ خالصتاً سیاسی فوائد کے حصول کے لیے تھا لیکن اس اقدام نے ریاست کے آیندہ خدوخال کی نشاندہی کردی۔ بھٹو اپنی اس متذبذ ب کوششوں میں ناکام رہا اور قومی اتحاد کے مذہبی لیڈروں نے فوجی سربراہ کو اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے پر آمادہ کیا اور یوں بھٹو کی نہ صرف حکومت کا خاتمہ کردیا گیا بلکہ اِنہیں بھی ایک متنازعہ مقدمے میں ” مشورہ اور حکم“ دینے کی پاداش میں پھانسی دیدی گئی۔ بھٹو جن کاخیال تھاکہ اُس نے احمدیوں کی تکفیر کے بارے میں”تاریخی“ کارنامہ سرانجام دیا تھا، پاکستان کے عوام اس کا مقدمہ سڑکوں پر لڑیں گے، بالکل غلط ثابت ہوا اور ضیا الحق نے پاکستان بھر کے فرقہ پرستوں اور مذہبی متشدد لوگوں کو کھل کھیلنے کی چھٹی دیدی۔اس طرح پاکستان میں روایتی مذہبی رواداری کے تابوت میں آخری کیل

جنرل ضیا الحق نے ٹھونک دی اورپاکستان کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا۔ ضیا الحق دور میں جمہوری قوتوں اور عوام کے نمایندوں کو دبانے کے لیے ایسے حربے اختیار کیے گئے جن سے ایک طرح سے ”نئی قیادت“ سامنے آنے لگی اور ملک کے بیشتر حصوں میں ایسا کلچراُبھرنے لگا جس میں تشدد اور انارکی کے اجزا بہت نمایاں تھے۔ملک کے بعض حصوں میں لسانی و مذہبی بنیادوں پر تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا ۔غیر آئینی حکمرانوں کو ایسے لوگوں کی ضرورت تھی جو اِن کے ایجنڈے کو کامیاب بنانے میں اِن کا ساتھ دیتے اور جمہوری پارٹیوں کی جگہ ایسی متبادل قیادت کو سامنے لاتے،جو غیر منصفانہ انتخابات کے ذریعے منتخب ہوکر ایوانوں میں پہنچ جاتی۔اس دوران بعض علاقائی تبدیلیوں نے بھی پاکستان کی سیاسی و سماجی صورت حال پر اپنا اثر ڈالا اور چونکہ پہلے ہی پورے ملک میں ایسی فضا تیار ہوچکی تھی اس لیے بیرونی سرحدوں پر رونما ہونے والے اہم واقعات کو سرحد وں کے اندر نہ صرف پذیرائی حاصل ہوئی بلکہ عقائد کے حوالے سے منقسم سماج نے پوری طرح انگڑائی لی اور بیرونی اثرات کو پورے شدومد کے ساتھ اپنا لیا گیا۔

اس دوران پاکستان میں اوراس کے پڑوسی ممالک میں جو اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں اِنہیں اس طرح دیکھا جاسکتا ہے۔

۱۔ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت کا خاتمہ اور فوجی آمریت کے دور کا آغاز

۲۔افغانستان پر روسی افواج کا حملہ اور پاکستان پر اس کے اثرات

۳۔ ایران میں انقلاب اور اس کی دوسرے ممالک کو برآمد کی کوشش اور اس کا ردعمل

5 جولائی1977ء کو فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کردیا اورنوے دن کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔بعد میں اُس نے اپنے اعلان کو خود ہی رد کردیا اور ملک میں آئین کے مطابق انتخابات کروانے سے انکار کردیا۔ضیا الحق نے ملک کی روشن خیال سیاسی پارٹیوں کو شدید تعصب کا نشانہ بنایا اور چن چن کر ایسے افراد کو اپنی کابینہ اور بعد میں مجلس شوریٰ میں شامل کرنے لگا، جو کسی صحت مند جمہوری عمل پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ضیا الحق نے بھٹو مخالف تحریک قومی اتحاد کے نفاذ اسلام کے نعرے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا اور ملک میں اسلامائزیشن کے عمل کو خاص طبقات کی بیخ کنی اور بعض مسالک کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔اس کی سب سے خوفناک مثال زکوٰة وعشر آرڈی نینس کا اطلاق تھا جس نے ملک کی شیعہ آبادی کو مشتعل کردیا اور پاکستان میں پہلی مرتبہ شیعہ اقلیت نے ”تحریک نفاذ فقہ جعفریہ“ کے نام سے ایک خالصتاً فرقہ وارانہ تنظیم کو فعال کیا اور مخالف مسالک کے ساتھ کشیدگی میں شامل ہوگئی۔دوسری طرف ضیا انتظامیہ نے جنوبی پنجاب اور دیگر علاقوں میں دیوبندی مسالک کی تنظیموں کی امداد کا سلسلہ شروع کیا اور انجمن سپاہ صحابہ نام کی تنظیم مقابلے پر آگئی اور پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ کو شدومد کے ساتھ شروع کردیا گیا۔

حدود آرڈے نینس اور اس طرح کے کئی متنازعہ حکم نامے جاری ہوئے اور پاکستان کے سماج کا نقشہ تبدیل ہونے لگا۔اقلیتوں کو دیوار کے ساتھ لگانے کی حکمت عملی نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔توہین سے متعلق قوانین کو نئے سرے سے مرتب کیا گیا اور اِن میں ایسی شقیں شامل کی گئیں جنہیں مخالف مسالک اور اقلیتوں کے خلاف آسانی کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا تھا۔سیاسی مخالفین کو سزا دینے کے لیے کوڑوں کی سزا ئیں سنائی گئیں ۔غرض مارشل لا انتظامیہ نے ہر اُس حربے کا ستعمال کیا جس کی مدد سے وہ اپنے مخالفین کا قلع قمع کرسکتی تھی۔

ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے فوج میں خطیب بھرتی کرنے کے لیے درکار تعلیمی اہلیت کو نرم کردیا گیا اور مذہبی مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کی اسناد کو یونیورسٹی کی اسناد کے برابر درجہ دے دیا گیا۔صرف 1982ء سے 1984ء تک ہزاروں ایسے افراد کو فوج میں کھپایا گیا جن کے پاس صرف مدارس سے عربی فاضل اور اس جیسی دیگراسناد تھیں۔اس عمل نے ایک پیشہ ورانہ فوج کا مزاج تبدیل کرکے رکھ دیا اور متشدد مذہبی خیالات کے حامل فرقہ پرستوں کی ایک بہت بڑی تعداد افواج پاکستان کی تربیت کرنے لگی۔

اس دوران پڑوسی ملک افغانستان پر روسی افواج نے حملہ کردیا۔ پاکستان جو افغانستان کے اندرونی معاملات میں ایک طویل عرصے سے دخیل تھا اور اسلام آباد ہمیشہ اس طرح کی کوششوں میں مصروف تھا کہ کابل میں روس نواز حکومتوں کو زچ کیا جائے، اس کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا ۔واضح رہے کہ اس دوران پاکستان کی ایک بڑی مذہبی جماعت کے طلبہ ونگ کا ایک پورا شعبہ کابل میں کمیونسٹوں پر حملوں میں مصروف تھا اور دونوں ممالک میں کشیدگی پائی جاتی تھی۔جیسے ہی روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں امریکا اور اس کے مغربی حواری اِنہیں روکنے کے لیے متحرک ہوگئے اور پاکستان کو مجاہدین کا بھرتی مرکز قرار دیدیا گیا۔

پاکستان دنیا بھر کے متشدد مذہبی افراد اور جماعتوں کے لیے پُرکشش ملک قرار دیا گیا اور سی آئی اے نے پاکستانی حکمرانوں کی مدد سے پوری دنیا سے مجاہدین بھرتی کیے اور انہیں افغانستان پر حملہ آور روسیوں کے مقابلے پر لے آئی۔ملک میں مذہبی مدارس کا پورا جال بچھادیا گیا اور عرب ممالک کی دولت کو مجاہدین کی بھرتی اور تربیت پر صرف کیا جانے لگا۔پاکستان میں افغانستان کی جنگ کو مقدس جہاد کا نام دیا گیا اور لاکھوں نوجوانوں کو اس میں حصہ لینے کے لیے تربیت فراہم کی گئی۔آج دنیا بھر میں جنہیں دہشت گرد اور انسانیت کے بدترین دشمن قرار دیا جاتا ہے ،اِنہیں پوری دنیا سے کھینچ کھینچ کر پاکستان لایا گیا اور مسلح جنگ کی تربیت دی گئی ۔افغان جنگ نے پورے پاکستان کا مزاج تبدیل کرکے رکھ دیا۔ کشمیر جہاد کے نام پر پاکستان میں آئی ایس آئی نے مسلح گروپوں کو تربیت فراہم کرنے کا کام بھی شروع کردیا۔

اِسی اثنا میں ایک اور پڑوسی ملک ایران میں شہنشاہ کا تختہ اُلٹ کرمذہبی قوتیں برسر اقتدار آگئیں۔ایران میں انقلاب کو مسلم دنیا کی طرف سے حمایت حاصل ہوئی۔ نئے مسلکی حکمرانوں نے پوری مسلم دنیا میں خانہ فرہنگ نام کے ادارے کھولے اور تشیع لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ ایرانی انقلاب کو برآمد کرنے کا کام شروع کردیا۔پاکستان کے تمام صوبائی مراکز میں خانہ فرہنگ ایران کے نام سے مراکز کھولے گئے جو مقامی اہل تشیع کو امداد فراہم کرنے لگے۔پاکستان جو پہلے ہی مخصوص مسالک کی مسلح تربیت میں مصروف تھا اس نے خانہ فرہنگ کی اشاعت دین کی کوشش کو فرقہ وارانہ تبلیغ سمجھا اور یوں پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ پوری شدت کے ساتھ لڑی جانے لگی۔تقریباً تین دہائیوں میں صرف پاکستان میں لڑی جانے والی اس فرقہ وارانہ جنگ میں ہزاروں افراد کو قتل کردیا گیا۔مخالف کو گھات لگا کر قتل کرنے سے لے کر مذہبی عبادت گاہوں پر خودکش حملوں تک جاری اس جنگ و جدل نے پاکستان کا حلیہ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اورآج پاکستان میں ایسے علاقے بھی پائے جاتے ہیں جہاں مخالف مسلک کے کسی شخص کو دیکھتے ہی گولی مار دی جاتی ہے یا اس کو سرعام ذبح کر دیا جاتا ہے۔ملک کے تمام اہم اداروں میں مسلکی تقسیم کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

گیارہ ستمبر 2001ء کو جب امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی عمارتوں کو خودکش حملوں میں تباہ کیا گیا تو ایک مرتبہ پھر پوری دنیا کی توجہ پاکستان اور افغانستان پر مبذول ہوئی اور اِن ممالک میں پائے جانے والے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مراکز کو دنیا کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔لیکن دوسری طرف پاکستان اور افغانستان اس حوالے سے بہت سا سفر طے کرچکے تھے۔افغانستان کے غالب حصوں پر طالبان کا قبضہ تھا اور پاکستان اپنے وجود پر پلنے والی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ہاتھوں عاجز آچکا تھا۔ طالبان اورپاکستان کے درمیان چونکہ دوستانہ تعلقات تھے اس لیے پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی پر ہمیشہ یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ طالبان کی نہ صرف اصل خالق تھی بلکہ اس نے طالبان کو ہر طرح کی امداد فراہم کی۔





گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد پاکستان پر امریکا کی طرف سے دباؤ بڑھا دیا گیا کہ وہ طالبان کے ساتھ نہ صرف اپنے تعلقات ختم کرے بلکہ طالبان اور ان کی پناہ میں موجود القاعدہ قیادت کو نشانہ بنانے میں اس کی مدد کرے۔ پاکستان میں ایک فوجی آمر پرویز مشرف برسراقتدار تھا جس نے پاکستان کو بین الاقوامی تنہائی سے بچانے کے لیے اور ملک کی دگرگوں معاشی حالت کو سہارا دینے کے لیے امریکی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

یوں ایک مرتبہ پھر پاکستان اور افغانستان ساری دنیا کے لیے مرکز توجہ بن گئے۔لیکن اس دوران نہ صرف پاکستان میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا تھا بلکہ افغانستان میں بھی انتہا پسند اپنے آپ کو مضبوط کرچکے تھے۔پہلی افغان جنگ کے بعد پاکستان میں انتہاپسندوں

نے ریاستی اداروں کی مدد سے نہ صرف اپنے آپ کو مضبوط بنایا بلکہ ہزاروں مدارس، مراکز اور تربیتی مراکز ان کے پاس تھے جہاں وہ انتہا پسندوں کی نئی فصل تیارکرنے میں مصروف تھے۔جہاد کشمیر، جہاد افغانستان،جہاد بوسنیا اور کئی دوسرے جہادوں میں مصروف رہ چکے انتہا پسند اب پوری طرح ”جہاد پسند“ بن چکے تھے، جنہیں کسی پُرامن طرز زندگی کی طرف لانا ناممکن تھا۔

نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان کی ریاست کمزور ہے اورانتہا پسند طاقت ور ہیں۔پاکستان کے سماج کی شکل تبدیل ہوچکی ہے اورپاکستان کو بیرونی دنیا میں ایک ایسے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جس کے تقریباً تمام شعبوں میں انتہا پسندوں اور مذہبی متشدد لوگوں کا غلبہ ہے۔گزشتہ قریباً دو دہائیوں کے دوران ریاست کو چیلنج کرنے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اورریاست کے تصور کو مضبوط کرنے کی ذمہ داری کے حامل اداروں اور عہدوں کا لاغر پن بڑھا ہے۔ پہلے ہم نے افغان جنگ میں اپنی خدمات پیش کرکے ایسے عناصر کو اپنے ہاتھوں سے مضبوط کیا جو ریاست کے خلاف ہی پلٹنے والے تھے پھر ہم نے ناقص طرز ِعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے عناصر کو مالی و عسکری حوالے سے مضبوط کیا جنہیں ہم کمزور حکومتوں کو ڈرانے کے لیے اسمبلیوں میں استعمال کرتے تھے۔ ایوانوں میں خصوصی طور پر قائم رکھی گئی کمزور عددی برتری کو دھمکانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے فرقہ پرست عناصر کی پشت پناہی کی تاکہ ناپسندیدہ قانون سازی کرنے یا حد سے تجاوز کرجانے والی کسی بھی حکومت کو نکیل ڈالی جاسکے۔ اِس کے ساتھ ساتھ لسانی و علاقائی سیاسی جماعتوں اور گروپوں کو محض اِس لیے ”تمام سہولیات“ فراہم کی گئیں کہ وہ بوقت ضرورت ان سے استفادہ کیا جاسکے۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ ان مقاصد کے لیے وقتی طور پر تیار کیے گئے گروہوں اور جماعتوں نے جب خود اپنی طاقت ظاہر کرنے کی کوشش کی تو ہمیں اُن کے خلاف آپریشن کرنا پڑے اور قوم کو ”باور“ کروانا پڑا کہ یہ لوگ وطن دشمن اور سماج دشمن تھے۔ ریاست نے اپنے دائمی مخالفین اور اپنی بقا کے دشمنوں کو خود اپنی گود میں پالا ہے۔ اسی لیے جب ریاست کو کسی بیرونی دباؤ یا لالچ کے تحت اپنی پالیسی تبدیل کرنا پڑتی ہے تو اس کے سابق طفیلی اُس کے ساتھ ٹکراؤ پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

سوات اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان اور اُن کے ساتھی پاکستان میں اپنی آخری جنگ لڑ رہے ہیں او راُنہیں پاک فوج کے ہاتھوں اُن کی توقع سے بھی زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پاکستانی ریاست کے دشمن طالبان دہشت پسندوں کے خلاف اِس جنگ میں سول حکومت اور فوج کے تال میل میں پاکستان کے عوام کی بھرپور حمایت بھی شامل ہے جس کی وجہ سے دہشت گردوں کے خلاف جاری اس آپریشن میں نتائج ماضی کی ایسی تمام کوششوں سے مختلف ہیں، جو تخفظات کے غلاف میں لپیٹ کر کیے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں دہشت گردوں کے ساتھ نبٹنے کی حکمت عملی میں بہت سے سقم تھے اور اِسے کسی ایک فریق کی بھی مکمل حمایت حاصل نہ تھی۔ اس طرح کے آپریشن انتظامی کھینچا تانی کی فضا میں ہر قسم کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر کیے جاتے جن سے حتمی فائدہ دہشت گرد اور اُن کے ساتھی اُٹھاتے ہیں اور پہلے سے زیادہ طاقت اور سفاکی کے ساتھ ریاست اور اس کے عوام کے خلاف سرگرم ہوجاتے ہیں۔

پاکستان کو گزشتہ قریباً آٹھ برسوں میں جتنا نقصان دہشت گردوں اور اُن کے ہر قسم کے ساتھیوں نے پہنچایا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ دہشت گردوں نے کھربوں روپے کی املاک کو نہ صرف تباہ کیا ہے بلکہ پاکستان کی اندرونی و بیرونی ساکھ کو بھی کچل کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں سے پاکستان میں متاثر ہونے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جب کہ پاکستانی سماج کو بھی دہشت گردی اور فرقہ واریت نے بہت حد تک زہر آلود کیا ہے، جس کے اثرات زائل ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ پاکستان میں مضبوط ہونے والی اس عسکریت پسندی نے نہ صرف پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی کئی برس پیچھے دھکیل دیا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں داخل ہونے سے روک دیا۔

اس دوران پاکستانی سماج میں عسکریت پسندی نے بھی اپنی جڑیں مضبوط کیں اورزندگی کے قریباً تمام شعبوں میں عسکری مزاج رکھنے والوں نے ”کامیابیاں“ حاصل کیں۔ حتیٰ کہ پنجاب کے کئی اضلاع میں مختلف سیاستدانوں نے اپنے مخالفین کے قلع قمع کے لیے باقاعدہ ایسے مسلح گروہ تشکیل دیے جنہیں”فورس“ کا نام دیا گیا۔لاتعداد مذہبی تنظیموں نے لاکھوں ایسے نوجوانوں کو مسلح تربیت فراہم کی جن کا تعلق غریب خاندانوں سے تھا اور وہ مناسب ملازمتیں حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اِس دوران ملک کے کونے کونے میں مسلح مذہبی اجتماعات کو فروغ حاصل ہوا جہاں سرعام اسلحہ کی نمائش کی جاتی جو مہم جو مزاج کے نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا باعث بنتی۔ دوسری طرف ملک کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ میں مذہبی عسکریت پسندی کی طرف مائل افراد کا غلبہ ہونے لگا۔ حساس اداروں میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی جو اپنے پڑوسی ممالک میں افراتفری مچانا چاہتے تھے۔ میڈیا ایسے لوگوں سے کھچا کھچ بھر گیا جو اعلیٰ ملازمتوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد معاشرے کو ایک خاص قسم کی تطہیر کے عمل سے گزارنا چاہتے تھے۔ چونکہ عام لوگوں تک اپنے متشدد خیالات پہنچانے کے لیے سب سے اہم ذریعہ اخبارات اور رسائل تھے اس لیے دیکھتے ہی دیکھتے ملکی اخبارات میں ایسے لکھاریوں اور کالم نگاروں کا ہجوم نظر آنے لگا جو نہ صرف بھارت کو غارت کرنے کے درپے تھے بلکہ اُن کی نظر میں امریکا اور اسرائیل ایسے دو ناپسندیدہ ممالک تھے جو پاکستان کو محض ایک ایسی نظریاتی مسلم ریاست ہونے کی وجہ سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں جو اسلامی دنیا کی راہنمائی کے لیے بالکل تیار ہے۔

دوسری طرف خالصتاً جہادی لکھاریوں کی بھی ایک کھیپ دیکھتے ہی دیکھتے تیار ہوگئی جو ملک کے چاروں صوبوں سے شائع ہونے والے جہادی رسائل اور ہفت روزہ اخبارات میں جہاد کشمیر کی فضیلتوں کو بیان کرتی اور کشمیر میں گوریلا کارروائیوں کے ایسے مبالغہ آمیز قصے اِن جرائد میں شائع کیے جاتے جن کے سامنے جاسوسی اور مہم جوئی کی کہانیوں کے لیے مشہور ڈائجسٹ اور رسالے ہیچ ثابت ہوئے۔ متشدد مذہبی تنظیموں پر پابندی لگنے سے پہلے صرف پنجاب میں سات ایسی مذہبی تنظیمیں سرگرم تھیں جن کے جھنڈوں پر کلاشنکوف اور تلواروں کے مخصوص لوگو بنے ہوئے تھے۔ اِن تنظیموں نے پورے ملک کی دیواروں پر جہاد کی ترغیب والے اشتہارات لکھ دیے ۔ اِن میں کچھ ایسی تنظیمیں بھی شامل تھیں جو بھارت اور امریکا کے خلاف جہاد کے ساتھ ساتھ ملکی ”محاذ“ پر بھی سرگرم تھیں اور پاکستان کو اپنے مسلکی مخالفین سے پاک کرنا چاہتی تھیں۔ اِن تنظیموں نے ہر نمایاں نظر آنے والی جگہ کو فرقہ وارانہ نعروں کے لیے استعما ل کیا اور مخالف مسالک کی تکفیر کو نمایاں کرنے کے لیے سٹیکر اور بینروں کا بھی سہارا لیا گیا۔

پاکستان کے سماج کی یہ ترکیب سازی صرف مذہبی جماعتوں کی خالصتاً ذاتی ”کاوش“ نہیں تھی بلکہ اس میں ملک کے کئی اہم اور طاقت ور خیال کیے جانے والے اداروں نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ آج کل ٹی وی اور اخبارات میں جمہوریت پسندی کے نعرے لگانے والے اور روزانہ جمہوریت کے بارے میں بھاشن جاری کرنے والے مدبرین حتیٰ کہ سیاستدان بھی سماجی سطح پر عسکریت پسندی کے فروغ کی کوششوں میں شامل تھے، جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ متشدد مذہبی تنظیموں کی مدد سے اقتدار میں آجائیں گے۔ بعض ریٹائرڈ اعلیٰ فوجی عہد ے داران بھی پوری قوت کے ساتھ اس کوشش میں تھے کہ ملک کی مسلح مذہبی تنظیمیں اور جماعتیں انہیں”سرپرست“ کے طور پر قبول کر لیں گی اور بعض کو تسلیم بھی کیا گیا۔

بدقسمتی سے یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ پاکستان اسلام مخالف اشرافیہ کے زیراقتدار ہے، جس کو ہٹانا عین ثواب ہے۔ آج بھی پاکستان کے بڑے شہروں میں ایسے لاتعداد متشدد الخیال مذہبی لیڈر اور خطیب سرگرم ہیں جن کے خیال میں پاکستان اپنی اسلامی شناخت کھو رہا ہے۔ اگر اِن تمام مذکورہ بالا اوصاف کی حامل تنظیموں، شخصیات، جماعتوں اور افراد کی رائے لی جائے تو اس کا حاصل یہ ہوگا کہ صوبہ سرحد کے طالبان اور انتہاپسند ملک کو صالح قیادت فراہم کرنے کے لیے برسر پیکار ہیں۔ اُصولی طور پر یہ جنگ پاکستان اور اُس کے سماج کی بقا کی جنگ ہے اگر خدانخواستہ اس جنگ میں متشدد انتہاپسندوں کو فتح حاصل ہوتی ہے تو اس کا مطلب ریاست کا خاتمہ ہے۔ مذکورہ بالا اذہان کے مالک لوگ ملک کے طول وعرض میں گھات لگائے بیٹھے ہیں اور اس تاک میں ہیں کہ کب ریاست کمزوری کا شکار ہو اور وہ اِس کے اقتدار پر قبضہ کرلیں۔

آج پاکستان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے اوراس کے وجود کے مخالفین اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ملک کے کئی شہروں میں

خودکش حملے ہو رہے ہیں۔ دہشت گرد عام لوگوں،اپنے مخالفین،سکیورٹی اداروں اور غیر ملکیوں پر حملے کررہے ہیں۔میریٹ ہوٹل پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری قریباً ختم ہوچکی ہے اور اس کی معیشت انتہائی دگرگوں ہے۔ بیرونی دنیا پاکستانی ریاست کو لاحق شدید سے خوفزدہ ہے اور اس اندیشے کا شکار ہے کہ پاکستان کے انتہا پسند اس کے ایٹمی اثاثوں پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر کیا بنے گا۔اس طرح کے خدشات اُس وقت حوصلہ شکن صورت حال پیدا کر دیتے ہیں جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے انتہائی طاقت ور اداروں میں انتہا پسندوں کے ساتھی موجود ہیں اور اُن کی مدد بھی کررہے ہیں۔انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بارے میں عوامی آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ میڈیا میں بھی انتہاپسندوں کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی مخالفت کرتی ہے۔آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان اگر انتہا پسندوں کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوا تو اس کا وہی حال ہوگا جو آج عراق اور افغانستان کا ہے، جن کی سرحدیں تو اپنی جگہ پر موجود ہیں لیکن اندرونی طور پر یہ ممالک ٹوٹ چکے ہیں اور انتظامی طور پر بدحال ہیں۔


courtesy :Humshehri

Sunday, July 19, 2009

Monday, July 6, 2009

Tuesday, June 30, 2009

Pani Ki Kahani




Courtesy:Daily Waqt

ہیجڑوں کے حقوق اور سپریم کورٹ کا حکم نامہ




ہیجڑوں کے حقوق اور سپریم کورٹ کا حکم نامہ

احمدنور

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کا فائدہ کسی اور کو ہوا کہ نہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن پاکستان کے خواجہ سرا (ہیجڑے) اس سے ضرور مستفید ہوئے ہیں۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ دےکھنے میں آیا ہے کہ کسی اعلیٰ عدالت کے جج نے پاکستان میں موجود مخنثوں کو ایک شرمناک زندگی سے بچانے کے لیے اُن کا سروے اور رجسٹریشن کروانے کے ساتھ اُنہیں باقی پاکستانی شہریوں جیسے حقوق دینے کی بات کی ہے۔
Courtesy:Humshehri

16جون کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس چودھری اعجاز احمد اور جسٹس محمود اختر شاھد صدیقی پر مشتمل سپریم کورٹ کے بنچ نے کہا کہ معاشرے میں رد کیے جانے والے خواجہ سراﺅں کی چاروں صوبوں میں رجسٹرےشن کی جائے اور سروے کر کے ایک رپورٹ مرتب کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ کیا والدین رضاکارانہ طور پر بچوں کو گُروﺅں کے حوالے کرتے ہیں یا کسی دباﺅ کے تحت ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ ہدایت اےڈووکیٹ ڈاکٹر اسلم خاکی کی دائر کردہ درخواست کی سماعت کے بعد جاری کی گئی۔ یاد رہے کہ پاکستانی خواجہ سراﺅں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ اُنہیں بھی معاشرے میں بسنے والے دیگر افراد کی طرح حقوق دیے جائیں اور اُن کی رجسٹریشن کی جائے۔ ڈاکٹر اسلم خاکی نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ قدرتی طور پر کسی صلاحیت سے محروم فرد کو انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ خواجہ سراﺅں کو بھی انسانی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ عدالت نے کہا کہ محکمہ سوشل ویلفیئر کے سیکرٹریز خواجہ سراﺅں کا ڈیٹا اکٹھا کریں، اُن کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جائیں اور دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔

دوسری طرف سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کراچی میں خواجہ سراﺅں نے اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کے لیے ایک تنظیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ تنظیم کے قیام کا اعلان خواجہ سرا بندیا رانا یا بندیا باجی نے 19 جون کو کراچی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔ بندیا کراچی کے خواجہ سراﺅں کی کمیونٹی میں گُرو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 23 جون کو ہفت روزہ ”ہم شہری“ کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے بندیا رانا نے بتایا کہ اُن کی تنظیم کا نام (Participatory Organisation for Empowerment of MSM and Transgenders) رکھا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آہستہ آہستہ وہ تنظیم کا دائرہ دوسرے صوبوں میں بھی بڑھائیں گی۔ بندیا نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم چیف جسٹس کے سچے دل سے شکر گزار ہیں کہ کم از کم اُنہوں نے خواجہ سراﺅں کو انسان سمجھا اور ہماری رجسٹریشن کروانے کا حکم جاری کیا۔ اس سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور ہم نے خواجہ سراﺅں کے مسائل کے حل کے لیے تنظیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔“ بندیا نے کہا کہ اُن کی کمیونٹی کو عام شہریوں کی لسٹ میں شامل ہی نہیں کیا جاتا ہے، نہ حکومتی سطح پر اور نہ ہی عوامی سطح پر اُنہیں انسان سمجھا جاتا ہے حالانکہ ہم میں صرف ایک قدرتی نقص ہے ورنہ ہم بھی وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو کوئی بھی عام شہری کر سکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ معاشرے میں دھتکارے جانے کی وجہ سے پہلے ہمارا گزر بسر ناچ کر ہوتا تھا لیکن کیبل کے آنے کی وجہ سے وہ کام بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرا ذریعہ معاش شادی بیاہ تھے لیکن وہاں نچوانے کے لیے اب طوائفوں کو فوقیت دی جاتی ہے لہٰذا ہمارے پاس سڑکوں پر مانگنے کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا جو خواجہ سرا یا زنانے کچھ پڑھ لکھ جاتے ہیں اُنہیں نوکریاں نہیں دی جاتیں بلکہ اُن پر فقرے کسے جاتے ہیں۔ بندیا نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ خواجہ سرا تعلیم حاصل کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ پاکستان میں اُن کے ساتھ ہتک آمیز اور امتیازی رویہ برتا جاتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ پاکستان بھر کے مخنثوں کی خواہش ہے کہ شناختی کارڈ میں اُنہیں مرد لکھنے کے بجائے تیسرا خانہ بنایا جائے جس میں اُن کو خواجہ سرا لکھا جائے۔

بندیا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تیسری صنف کی دو اقسام ہیں۔ ایک تو وہ جو پیدائشی طور پر نہ مرد ہوتے ہیں نہ عورت، اُنہیں خواجہ سرا یا ہیجڑا کہا جاتا ہے جبکہ دوسری قسم زنانوں کی ہے جو جسمانی طور پر تو مرد ہوتے ہیں لیکن اُن کی عادات ہیجڑوں کی طرح کی ہوتی ہیں۔ بندیا رانا نے حکومت اور عام لوگوں سے اپیل کی کہ خواجہ سراﺅں کو بھی انسان سمجھا جائے اور جب حکومت عام شہریوں کے لیے کوئی فنڈ مختص کرتی ہے تو اُن کی فلاح و بہبود کا بھی خیال رکھے۔ تاہم خواجہ سراﺅں کی بہتری کی گنجائش اسی صورت میں نکل سکتی ہے کہ حکومت کو اُن کی صیح تعداد کا علم ہو۔

پاکستان میں خواجہ سراﺅں کی تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراﺅں کی تعداد 10 لاکھ ہے لیکن اس تعداد سے اتفاق کرنا مشکل ہے کیونکہ ایک ارب آبادی والے ملک بھارت میں ان کی تعداد 10 لاکھ ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 16 کروڑ ہے۔ اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے پاکستان میں ہیجڑوں کی تعداد 80,000 بتائی ہے لیکن یہ بھی محض ایک اندازہ ہے۔ پاکستان میں ہیجڑوں کے حقوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو بنے 62 برس گزر چکے ہیں لیکن حکومتی سطح پر اُن کی صحیح تعداد کا پتا آج تک نہیں چلایا گیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ خواجہ سراﺅں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کرے تاکہ ان کی صحیح تعداد کا اندازہ لگایا جا سکے اور ان کے مسائل پر روشنی ڈالی جا سکے۔

ایک ہزار قبل مسیح میں ہیجڑوں کو معاشرے میں اس قدر تضحیک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا جتنا کہ آج دور میں، کیونکہ پُرانے وقتوں میں اُنہیں ہیجڑا یا خُسرہ کہنے کے بجائے خواجہ سرا کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ مُغل دور میں اُنہیں قابل اعتماد مشیر کا درجہ دیا جاتا تھا۔ قرون وسطیٰ میں خواجہ سرا شہزادوں اور شہزادیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے کے فرائض انجام دےتے تھے۔ آج اُنہیں نہ صرف معاشرے میں دھتکار دیا گیا ہے بلکہ اپنے ہی گھر میں رہنے کے لیے اُن کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ بھکاریوں کی طرح بھیک مانگنے پر مجبور ہیںجس کی مثالیں ہمیں ٹریفک کے اشارے پر مانگتے ہوئے ہیجڑوں کی صورت میں ملتی ہیں جن کے منہ پر میک اپ کی تہیں جمی ہوتی ہیں اور وہ لوگوں سے ٹھٹے مذاق کر کے پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں۔ تاہم میک اپ کی اس تہہ کے نیچے عام انسانوں کی طرح زندگی کزارنے کے خواب اور خواہشیں ہوتی ہیں جو ہمیں اور ہماری حکومت کو نظر نہیں آتی ہیں۔

عام لوگوں کے ذہن میں ہیجڑوں کے بارے میں سوچتے ہوئے ایک ایسے شخص کا خاکہ اُبھرتا ہے جس نے گرمی ہو یا سردی ہمیشہ بھڑکیلے رنگوں والا لباس پہنا ہوتا ہے،جو اپنے بڑے بڑے ہاتھوں سے زوردار تالیاں بجاتاہے اور اپنے کولھے مٹکاتا ہے، لوگوں کو ٹھٹے مذاق کر کے ہنساتا ہے اور جہاں سے گزرتا ہے لوگ اس سے حظ اٹھاتے ہیں۔ ہیجڑوں کے بارے میں سوچتے ہوئے لوگوں کا ذہن اس کے جسم سے آگے نہیں جاتا۔ مردانہ جسم اور نسوانی روح کے حامل خواجہ سراﺅں کو ہمارے معاشرے میں عزت و تقریم دینا تو درکنار انہیں انسان بھی نہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ اُن کو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے حالانکہ خواجہ سرا ﺅں میں صرف ایک قدرتی خامی ہے کہ اُن کا تعلق تیسری جنس سے ہے لیکن باقی ہر لحاظ سے وہ ہماری طرح عام انسان ہیں جو ہماری طرح کے جذبات اور محسوسات رکھتے ہیں۔ معاشرے میں خواجہ سراﺅں کے ساتھ لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ وہ ماں جو اپنے بچے کو نو مہینے تک کوکھ میں رکھتی ہے، اس کے تیسری جنس سے تعلق ہونے کی بنیاد پر اُسے ہیجڑوں کے گُرو کے سپرد کر دیتی ہے۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کا بچہ صحت مند پیدا ہو اور صحت مند بچے کی پیدائش پر ایک فطری خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ آپ تصور کریں کہ ایک والد فکر مندی سے آپریشن تھیٹر کے باہربچے کی پیدائش کی خبر سننے کے لیے بے تاب ہے۔ اس صورتحال میں ایک گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد ڈاکٹر باہر آتا ہے اور باپ کو بتاتا ہے کہ بچہ صحت مند پیدا ہوا ہے۔ مضطرب باپ اپنے بچے کی جنس کے بارے میں پوچھتا ہے تو ڈاکٹر اُسے بتاتا ہے کہ بچہ ہیجڑا ہے۔ ایک لمحے میں صحت مند بچہ پیدا ہونے کی خوشی ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ باپ کے ذہن میں مختلف سوالات جنم لینا شروع کر دیتے ہیں مثلاً یہ کہ اُس کے ساتھ یہ کیوں ہوا؟ اُس سے ایسا کیا گناہ سرزد ہوا جس کی سزا اُسے ایک ایسے بچے کی صورت میںملی جو نہ مرد ہے نہ عورت؟ وہ اپنی بیوی کو کیا بتائے گا اور یہ خبر سُن کر اُس کی بیوی کا کیا حال ہوگا؟ اُس کے ہمسائے اُن کے خاندان کے بارے میں کیا سوچیں گے؟محلے کے لوگ اور دوست احباب کیا سوچیں گے؟ ان سارے سوالات کے بعد بچے کی پیدائش کی خوشی نفرت میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ اپنے ہی خون سے جان چھڑانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ ہیجڑوں کا گُرو کسی طرف سے بھنک پا کر اُن کے گھر پہنچ جاتا ہے اور پہلے سے متزلزل والدین کو مطمئن کر کے اُن کا بچہ لے جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہیجڑوں کو بدنامی کا داغ سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے کی اس بے رُخی کے باعث والدین کے پاس کوئی اور دوسرا راستہ نہیں بچتا ہے۔

باشعور شہری ہونے کے ناتے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خواجہ سرا عام انسان ہیں اور اُن میں صرف ایک خامی ہے جو قدرتی ہے۔ اگر اندھے بہرے اور لنگڑے لُولے افراد پاکستانی شہری ہونے کا لطف اُٹھا سکتے ہیں تو خواجہ سراﺅں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جا سکتا۔ اُنہیں مختلف معاشرتی بُرائیوں سے بچانے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اُنہیں عام انسان سمجھنا شروع کر دیں۔ مزید یہ کہ حکومت اُن کے لیے نوکریوں کا بندوبست کرنے پرسنجیدگی سے غور کرے۔


فرقہ پرستی کے ذمہ دار کون؟ طالبان یا حکومت؟




عامر حسینی

آپریشن راہ راست مالاکنڈ میں جیسے جیسے کامیابی کے مراحل طے کر رہا ہے ویسے ویسے مذہبی دہشت گردوں کی صفوں میں کھلبلی کے آثار نظر آ رہے ہیں، حکومت پاکستان نے فوج کو جنوبی وزیرستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا حکم دیا ہے۔ جانی خیل میں ایف سی کا قلعہ دوبارہ کنٹرول میں آگیا ہے۔ جنوبی وزیرستان میں بیت اللہ محسود کے ہیڈ کوارٹر مکین کے گرد بھی فوج اور ایف سی گھیرا تنگ کر رہی ہیں۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دہشت گردی کے خلاف یہ فیصلہ کن لڑائی جہاں”تحریک طالبان“ کی کمر توڑ رہی ہے وہیں ان کو بے نقاب کرنے میں بھی ممدو معاون ثابت ہو رہی ہے۔ ”تحریک طالبان“ نے پہلے تو ”میڈیا“ پر اپنا غصہ نکالا اور اسے میڈیا سے یہ شکایات پیدا ہو گئیں کہ وہ انہیں منفی طور پر پیش کر رہا ہے۔ پھر وہ ان علما اور مذہبی سکالرز کے دشمن ہو گئے جو پاکستان میں ” تحریک طالبان“ کو فساد فی الارض کا مرتکب قرار دے رہے تھے۔ بیت اللہ محسود کے رفیق خاص خود کش حملہ آوروں کے تربیت کنندہ قاری حسین محسود کے ایک فدائی نے جامعہ نعیمیہ میں ممتاز سنی عالم دین ڈاکٹر سرفراز نعیمی سمیت 5 علما وطلبا کو شہید کر ڈالا۔ ایک دوسرے فدائی نے اپنے جذبہ جہاد اور اسلام سے محبت کا ثبوت اس طرح سے دیا کہ وہ نوشہرہ کی جامعہ مسجد میں جا گھسا اور وہاں نماز جمعہ پڑھنے والوں پر بارود کی بارش کر دی۔ اس سے اگلے دن جب پورے ملک میں احتجاج ہو رہا تھا تو جذبہ جہاد سے سر شار ایک اور فدائی ڈیرہ اسماعیل خان کی منڈی تجارت گنج میں جا گھسا اور اس نے وہاں ایک کار میں بم نصب کیا اور اسے اڑا دیا۔ تحریک طالبان سوات، تحریک طالبان خیبر ایجنسی، تحریک طالبان وزیرستان، تحریک طالبان باجوڑ، تحریک طالبان اورکزئی، تحریک طالبان کرم ایجنسی سب کے سب ایک طرف تو شیعہ، بریلوی، وہابی مسالک کے عوام، ان کی مساجد، امام بارگاہوں اور مدارس کو نشانہ بنائے ہوئے ہے تو دوسری طرف وہ بلامتیاز ان علما کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جو خود کش حملوں کو نا جائز کہہ رہے ہیں، جنہوں نے آپریشن راہ راست کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ وزیر ستان میں تحریک طالبان کی بنیاد رکھنے کی سب سے پہلی مخالفت مفتی نظام الدین شامزئی نے کی تھی۔ دارالعلوم کراچی بنوریہ ٹاﺅن کے مفتی نظام الدین شامزئی ” تحریک طالبان افغانستان“ سے گہرے روابط رکھتے تھے۔ وہ آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل محمود کے اس وفد میں شامل تھے جو طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر سے 9/11 کے بعد ملا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مفتی نظام الدین شامزئی طالبان پر زور دے رہے تھے کہ وہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو اقوام متحدہ کے حوالے کر دیں یا پھر انہیں افغانستان سے نکل جانے کا کہیں۔ اس موقع پر جنرل محمود نے ”طالبان“ کو مفتی نظام الدین شامزئی کی طرف سے دیے جانے والے مشورے کو مان لینے کا کہنے کی بجائے ڈٹ جانے کا کہا۔ مفتی نظام الدین شامزئی طالبان کے غیر حقیقت پسندانہ رویے سے مایوس ہوئے تھے۔ بعد ازاں جب کوہستان اور وزیر ستان میں عسکریت پسندوں نے جمع ہو کر پاکستان کے اندر” جہاد“ کا نعرہ لگایا اور خود کش حملے ہونا شروع ہوئے تو مفتی نظام الدین شامزئی نے اس کی سخت مخالفت کی اور ایسے حملوں کو خلاف اسلام اور حرام قرار دے دیا۔ اس فتویٰ کے فوراً بعد مفتی نظام الدین شامزئی کو شہید کر دیا گیا۔ مولانا حسن جان جو کہ دیو بندی مسلک کے صوبہ سرحد میں سب سے بڑے عالم تھے انہوں نے جب خود کش حملوں کے حرام ہونے اور ” تحریک طالبان“ کی طرف سے پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام کے خلاف لڑنے کے اعلان کو ناجائز قرار دیا تو انہیں بھی خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا۔

بیت اللہ محسود، قاری حسین محسود، مولوی فضل اللہ نے صرف یہی نہیں کہ خود کش حملوں کو غیر شرعی قرار دینے والے علما کو بلا لحاظ مذہب و مسلک شہید کیا بلکہ ان مسلح گروپوں کے ساتھ بھی جنگ کی اور کر رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کے اندر کسی قسم کی عسکریت پسند کارروائی کرنے سے انکار کیا۔ کمانڈر مولوی نذیر، کمانڈر بہادر گل، کمانڈر قاری زین عثمان کے گروپوں سے بیت اللہ محسود کا کئی بار خون ریز تصادم ہوا۔ کہا جا رہا ہے کہ شمالی وزیرستان کے اندر کام کرنے والے عسکری گروپوں نے بیت اللہ محسود کی پاکستان کے اندر کارروائیوں پر شدید اعتراض کیا ہے۔ خود جنوبی وزیرستان میں اس کے خلاف عسکریت پسندوں میں بغاوت کے آثار نظر آ رہے ہیں۔

اصل میں دیکھا جائے تو صورت حال ایسی ہے کہ وزیرستان سے لے کر باجوڑ ایجنسی تک قبائل کے یہ علاقے عملاً جنگی وار لارڈز کے قبضے میں ہیں اور یہ وار لارڈز اس پورے علاقے میں اپنی متوازی حکومت قائم کر کے اسلحہ، منشیات، اجناس و دیگر اشیا کی سمگلنگ کے پورے نیٹ ورک کو اپنے لیے دولت، طاقت اور پاور سٹیٹس قائم کرنے کا ذریعہ بنا چکے ہیں۔ ان کا پہلا نشانہ حکومتی عمال، ملک، لنگی سردار اور وہ تمام قبائل تھے جو ان کی راہ کا پتھر تھے۔ انہوں نے اپنی طاقت کے جواز کے لیے ایک مذہبی لبادہ بھی اوڑھ رکھا ہے اور یہ لبادہ خاص مسلک کا ہے اس لیے اس لبادے کے تقاضے نبھانے کے لیے اور لوگوں میں اپنی طاقت کا جواز پیدا کرنے کے لیے دیگر مسالک کے ماننے والوں پر ظلم و ستم لازم تھا۔ ان کا قتل، ان کی املاک کی لوٹ مار، ان کے مدارس و مساجد اور مقدس مقامات پر قبضہ ضروری تھا۔ ان علاقوں پر اپنی عملداری قائم رکھنے کے لیے اور ریاست کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی فوجی کارروائی کو ناکام بنانے کے لیے ان جنگی وار لارڈز نے ایک طرف تو امریکی سامراجیت کے خلاف پائی جانے والی ایک عمومی نفرت کی فضا سے فائدہ اٹھایا۔ دوسری طرف فرقہ وارانہ جذبات بھی ابھارے، تحریک طالبان وزیرستان ہو یا تحریک طالبان سوات دونوں نے بڑی چالاکی سے خود کو ” دیو بندی مسلک“ کا ترجمان خود ساختہ بنا لیا اور اپنی کارروائیوں اور پراپیگنڈے سے یہ فضا بنانے کی کوشش کی کہ بریلوی اور شیعہ مسلک کے علما و مشائخ اور اس سے تعلق رکھنے والے دیگر دانشور سب کے سب امریکی لائن فالو کر رہے ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ تحریک طالبان کا سب سے بڑا حامی پرچہ ضرب مومن اور روزنامہ اسلام کہتا ہے۔ اس کے کالم نگار کہتے ہیں کہ بریلوی و شیعہ علما کا ” جہاد“ سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ تو محض دارالعلوم دیو بند سے وابستہ علما کا شیوا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ طالبان کے یہ مذہبی رہنما اور حامی مولانا فضل حق خیر آبادی، مفتی صدر الدین آزردہ ، شاہ عبدالعزیز دہلوی، مرزا مظہر جان جاناں دھلوی شہید، جنرل بخت خان روہیلہ، مفتی عنایت اللہ کافی شہید، مولوی احمد اللہ مدراسی شہید کو بھی ” دیو بندی“ قرار دیتے ہیں حالانکہ جن ادوار سے ان صاحبان علم و دانش و سپاہ گروں کا تعلق ہے اس وقت دارالعلوم دیو بند دارالعلوم بریلوی کا وجود ہی نہیں تھا۔ اور یہ سارے احباب صاحبان طریقت تھے اور طالبان جن اعمال کی بنا پر بریلویوں کے خون کو مباح ٹھہراتے ہیں ان کا بڑے ذوق و شوق سے اہتمام کرتے تھے۔

طالبان کے حامی نام نہاد دانشوروں، صحافیوں اور مذہبی لبادہ اوڑھے سیاسی نابغے الٹی گنگا بہاتے ہیں۔ وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت گری کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے علما و مشائخ کو ” فرقہ پرستی پھیلانے“ کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔ وہ ان علما و مشائخ کی طرف سے اپنے ارادت مندوں کے اندر” تحریک طالبان“ کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کے عمل کو امریکا نوازی قرار دے رہے ہیں گویا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ” طالبان“ یونہی لوگوں کو بے گناہ مارتے رہیں، شیعہ، بریلوی اور وہابی علما و مشائخ اور عوام کا قتل ہوتا رہے ان کے مزارات اور امام بارگاہیں نشانہ بنتی رہیں اس پر وہ خاموشی اختیار کریں یا پھر یہ کہہ کر جان چھڑالیں کہ یہ طالبان نہیں بلکہ کوئی اور لوگ ہیں۔ مولوی فضل اللہ، بیت اللہ محسود، قاری حسین محسود سمیت قاتلوں کو ہیرو کا خطاب دے دیں تو یہ عمل عین اسلام اور بمطابق شریعت ہو گا لیکن اگر ان کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا اور شر پسندوں کے چہروں سے نقاب نوچے تو پھر یہ فرقہ پرست ہوں گے۔ امریکا نواز ہوں گے ان کا قتل عین جہاد اور عمل باعث ثواب ہو گا۔

پروفیسر منور حسن امیر جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمن امیر جمعیت العلمائے اسلام، سی آئی فنڈڈ جہاد افغانستان کے انسٹرکٹر جنرل (ر) حمید گل، سابق چیف آف آرمی سٹاف مرزا اسلام بیگ، آمروں کی کاسہ لیسی میں مشاق ریٹائرڈ بیورو کریٹ روئیداد خان، صدر تحریک انصاف عمران خان سمیت درجنوں لوگ ایسے ہیں جو مظلوموں کی آہ و پکار اور ان کے چیخنے چلانے پر بھی پابندی لگانا چاہتے ہیں یہ سب کے سب طالبان کے ہاتھوں عوام کے مارے جانے پر فوراً یہ توضیح پیش کرتے ہیں کہ یہ سب امریکی حملوں کا رد عمل ہے اور اپنے تئیں اسے انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ خود کش یا ٹائم بم دھماکے کرتے ہیں ان کے پاس دفاع نہیں فقط انتقام اور غصہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپریشن بند ہو جائے اور ڈرون حملے نہ ہوں تو خود کش بم دھماکے نہیں ہوں گے۔ امن ہو جائے گا لیکن یہ لوگ یہ نہیں بتاتے کہ آخر ” فوج“ کو ان علاقوں میں کیوں جانا پڑا۔ 9/11 سے قبل ملک بھر میں جو فرقہ وارانہ قتل ہو رہے تھے وہ کس چیز کا رد عمل تھے۔ بعد ازاں پورے ملک میں معصوم شہریوں کو بھرے بازار میں بم دھماکے سے اڑانا کس امریکی مفاد کو زک لگانے کے مترادف تھا۔

القاعدہ اور تحریک طالبان سمیت مذہبی دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کا ریکارڈ اٹھایا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کی انتقامی کارروائیوں کا سب سے زیادہ نشانہ معصوم مسلمان شہری، عورتیں، بچے، بوڑھے اور نوجوان بنے ہیں اور یہ کتنے سفاک اور ظالم لیڈر ہیں جو کمسن نو عمر بچوں کو بارود میں بدل کر بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ ان کا نظام انصاف عجب جزا و سزا کے ضابطے رکھتا ہے۔ یہ فرد جرم کسی پر لگاتے ہیں اور جرم کی سزا کسی اور کو دیتے ہیں۔ یعنی امریکی فضائیہ کے بم اور گولیاں بھی عراقیوں اور افغانیوں پر برسیں اور اس جرم کی پاداش میں خود کش بم دھماکوں سے مریں بھی مقتولوں کے رشتے دار، عزیز و اقارب اور ہم وطن اور نعرے لگیں برگ بر امریکا، برگ بش، قاتل،قاتل امریکا، خونی خونی بش، بش اور حملے نہتے معصوم شہریوں پر۔ انصاف کا یہ نظام اپنی مثال آپ ہے۔ عوام، حکومت اور فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی اس ہم آہنگی کی فضا کو سبو تاژ کرنے کے لیے تحریک طالبان اور اس کے حامی” فرقہ پرستی“ کا خطرناک حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان کو حمایت دینے والے نام نہاد مذہبی رہنما طالبان کے خلاف علما و مشائخ کے اندر اٹھنے والی مزاحمتی لہر کو کسی خاص مسلک کے خلاف مہم قرار دینے کے لیے کوشاں ہیں اور عجیب گورکھ دھندا ہے کہ لوگوں کو عقیدے کی بنیاد پر قتل کر دینے والے اور مقدس مذہبی مقامات کی بے حرمتی کرنے والوں کی حمایت کرنے والے بریلوی، دیو بندی، شیعہ فساد کا واویلا کر رہے ہیں۔ گو یا چور مچائے شور والا معاملہ ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بین المذاہب امن کانفرنس کاانعقاد ہو اور اس میں ” گستاخ خاکے“ بنانے والے شر پسندوں یا ’فتنہ‘ جیسی بد نام زمانہ فلم بنانے والے پروڈیوسر کو مدعو نہ کیا جائے اور وہاں ایسے افراد کی مذمت ہو اور ان کے حامی یہ شور مچانے لگیں کہ کانفرنس کے منتظمین امن کے خواہاں نہیں ہیں وہ مذاہب کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔

پاکستان میں مسالک کے درمیان امن اور افہام و تفہیم کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس امن کو خراب کرنے والے تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، کالعدم سپاہ محمد، جیش محمد کو بلایا جائے جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں جن کو بلانے کا مقصد گویا قاتلوں کو منصف ٹھہرانا ہے۔ سوات میں معاہدہ امن کے بعد مولانا صوفی محمد نے برملا اعلان کیا تھا کہ کسی طالب کو یا مولوی فضل اللہ کو قاضی طلب نہیں کرے گا نہ ہی تحریک طالبان نے سوات میں جو مظالم ڈھائے ہیں ان پر باز پرس ہو گی۔ یعنی مولانا صوفی محمد قاتلوں کے لیے فسادیوں کے لیے ” این آر او“ جاری کرنا چاہتے تھے اور ان کے حامیوں کا دوغلہ پن دیکھیے وہ مشرف کے این آر او کو بڑا سانحہ کہتے نہیں تھکتے جو فوج داری مقدمات اور سنگین جرائم پر مبنی مقدمات سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا اور نہ ہی اس میں مطلوب لوگوں کو کوئی رعایت دیتا ہے۔ جبکہ یہاں ”Henions crimes“ کے لیے عام معافی طلب کیے بغیر خود کو ہر سوال و جواب سے ماورا قرار دیا جا رہا تھا۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی سمیت سوات وزیرستان میں آپریشن کو روک دینے کا مطالبہ کرنے والوں سے پوچھنا چاہیے کہ اگر بالفرض ایسا کر بھی لیا جائے تو کیا مولوی فضل اللہ، بیت اللہ محسود، مولوی فقیر محمد، حکیم اللہ محسود، قاری حسین محسود سمیت وہ تمام طالبان جن پر سینکڑوں لوگوں کو قتل کرنے کا الزام اور پرچے درج ہیں کیا وہ خود کو قانون کے حوالے کریں گے اور مقدمات کا سامنا کریں گے؟ طالبان کے حامی مذہبی سیاستدانوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ اپنی سکیورٹی کے لیے حکومت سے پہلے سے موجود سکواڈ میں مزید سکواڈ کا اضافہ مانگتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس کمانڈوز کی ایک گارڈ اور تین حفاظتی بم پروف، بلٹ پروف گاڑیاں موجود ہیں وہ مزید گاڑیاں، اسلحہ اور سکیورٹی گارڈ مانگ رہے ہیں۔ پروفیسر سید منور حسن، عمران خان، جنرل حمید گل، مرزااسلم بیگ سمیت کوئی بھی شورش زدہ علاقوں میں معاہدوں کے دوران اور معاہدے ٹوٹنے کے بعد دورہ نہیں کر سکا۔ عوام میں جہاد پراجیکٹ کے فساد ہونے کی قلعی کھلتی جا رہی ہے۔ اس بے وقعتی اور بے عزتی کا واضح ثبوت ہمیں فروری 2008ء کے انتخابات میں مل سکتا تھا لیکن جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا ڈرامہ رچا دیا اب شاید اسی لیے جماعت اسلامی کے امیر پروفیسر منور حسن اپنے بیانات میں بار بار کہتے ہیں کہ انتخابات اور جمہوریت مسئلے کا حل نہیں ہے وہ ”مڈٹرم الیکشن“ کو بھی اب اپنے لیے فائدہ مند تصور نہیں کرتے کیونکہ مسلم لیگ ن ان کے داﺅ میں نہیں آ سکی۔ گویا انگور کھٹے ہیں والا معاملہ ہے۔


Courtesy:Humshehri

Imran khan

Sunday, June 28, 2009

Who Are Taliban

The Political Crisis In Iran




Courtesy:Mazdour Jeddojuhd

The Capital Tehran Of Iran









Courtesy :Mazdour Jeddojuhd

Friday, June 26, 2009

Urdu Feature:Police Vs Terrorism









Courtesy:Jang Group

ڈاکٹر سرفراز نعیمی کا قتل اور طالبان مخالف اتحاد


عون علی
12
جون بروز جمعہ لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں معروف دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ کے اندر ایک
خود کش بم دھماکے میں جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی سمیت پانچ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ڈاکٹر سرفراز نعیمی مسجد سے متصل اپنے دفتر میں طالب علموں سے ملاقات کر رہے تھے کہ اس دوران ایک نو عمر لڑکا وہاں آیا جس نے مولانا نعیمی کی موجودگی کی تصدیق کی اور اس کے ساتھ ہی خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ مرحوم سرفراز نعیمی کو بروز ہفتہ سرکاری اعزاز کے ساتھ جامعہ نعیمیہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے عزیز و اقارب نے واضح کیا کہ مرحوم کو گزشتہ کئی ہفتوں سے دھمکی آمیز پیغامات موصول ہو رہے تھے۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے قتل کی ایف آئی آر میں ان کے بیٹے راغب حسین نعیمی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے والد کالعدم تنظیم تحریک طالبان کی وطن دشمن اور ملکی سلامتی کے منافی سرگرمیوں پر شدید تنقید کر رہے تھے، انہوں نے دیگر علما کے ساتھ مل کر خود کش حملوں کے خلاف ایک فتویٰ بھی دیا تھا جس پر طالبان ان سے سخت نالاں تھے۔ مدعی راغب حسین نعیمی کے مطابق ان کے والد کو بیت اللہ محسود کی ایما پر قتل کیا گیا ہے۔ 12 جون ہی کے روز درہ آدم خیل کے علاقے میں طالبان کماندار حکیم اللہ محسود کے مبینہ نائب سعید حافظ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ سعیدحافظ نے برطانوی خبررساں ادارے کو فون پر بتایا کہ یہ حملہ طالبان اور خود کش حملوں کے خلاف بیانات کا ردعمل تھا۔
14 مئی کو برطانوی اخبار”دی ٹائمز“ میں شائع ہونے والے انٹرویو میں مولانا سرفراز نعیمی کا کہنا تھا ”طالبان اسلام کے نام پر بد نما داغ ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم طالبان کاقلع قمع کرنے کے لیے حکومت اور فوج کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کے بقول اگر ایک کمرے میں سو آدمی بیٹھے ہوں اور ایک کے پاس بندوق ہو تو وہ بندوق والا آدمی دوسروں کی نسبت نمایاں نظر آئے گا۔ طالبان کا بھی یہی حال ہے وہ تعداد میں اتنے زیادہ نہیں ہیں تا ہم اسلحے کے زور پر وہ اسلام کی شناخت پر غالب نظر آتے ہیں“۔
ملک میں کسی مذہبی رہنما کی جانب سے طالبان کی اس طرح دوٹوک مخالفت کی بہت کم مثالیں سامنے آئی ہیں۔ تا ہم چھ مئی کے بعد یہ صورت حال بڑی حد تک تبدیل ہو گئی جب اہل سنت کی 22 نمائندہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے طالبان کی مخالفت اور مالا کنڈ ڈویژن اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں فوجی کارروائی کی حمایت کرتے ہوئے لاہور میں ” سنی اتحاد کونسل“ کے نام سے ایک مشترکہ اتحاد قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ مولانا سرفراز نعیمی اس اتحاد کے بانی ارکان میں سے تھے ۔ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے طالبان کی مخالفت اور مالاکنڈ ڈویژن اور دیگر علاقوں میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کی غرض سے لاہور اور اسلام آباد سمیت متعد د شہروں میں ریلیاں نکالیں اور کانفرنسیں منعقد کیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شامل بعض جماعتوں نے طالبان کے خلاف جنگ میں فوج کو رضا کار مہیا کرنے کے حوالے سے بھی بیانات دیے۔ ملک کے اکثریتی مذہبی دھڑے کی طرف سے طالبان کی دو ٹوک مخالفت کی غالباً یہ پہلی مثال ہے۔ تا ہم طالبان مخالف اتحاد قائم کرنے اور سوات یا دیگر علاقوں میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت سے بظاہر یہ امر واضح ہے کہ ملک کی معتدل مزاج مگر خاموش مذہبی اکثریت طالبان کے حوالے سے فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ چکی ہے۔
6 مئی کو لاہور میں اہل سنت کی نمائندہ تنظیموں کے اجتماع میں ملکی سطح پر طالبان مخالف مظاہروں اور ”پاکستان بچاﺅ، طالبان بھگاﺅ“ کے نام سے ایک مہم چلانے، وزیراعظم، ممبران پارلیمان اور چیف آف آرمی سٹاف کو خطوط ارسال کرنے اور جمعے کے خطبوں میں طالبان کی حقیقت عوام پر آشکار کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔اہلسنت تنظیموںکے اس اجتماع میں شامل تنظیموں کی طرف سے17 مئی کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس منعقد کروانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اس دوران مذہبی رہنماﺅں نے طالبان کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے صوفی محمد اور بیت اللہ محسود کی گرفتاری کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لانے پر زور دیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ مٹھی بھر مذہبی انتہا پسندوں نے افغان جہاد کے نام پر امریکی اور سعودی امداد کے بل بوتے پر ملک میں مسائل کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ اس دوران جماعت اہل سنت کے سربراہ مظہر سعید کاظمی کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غداروں اور محب وطن لوگوں میں فرق کرے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ مسلح افواج اور خفیہ اداروں کو طالبان کے حامیوں سے پاک کیا جائے۔ جماعت اہل سنت کے سربراہ کا کہنا تھا ” محب وطن اہل سنت ملک کو طالبان شرپسندوں سے نجات دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے“۔ اس دوران سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری کا کہنا تھا کہ اگر طالبان نے اپنی سرگرمیاں ختم نہ کیں تو اہل سنت جماعتوں پر طالبان کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنے کے لیے زور ڈالا جائے گا۔اس کانفرنس میں تنظیم مدارس اہل سنت کے اعلیٰ عہدیداروں، جمعیت علمائے پاکستان، نظام مصطفی پارٹی، عالمی تنظیم اہل سنت، کاروان اسلام، انجمن خدام صوفیا، مصطفائی تحریک، تحریک مشائخ اہل سنت، انجمن طلبا اسلام ، جماعت رضائے مصطفی، تحفظ ختم نبوت فاﺅنڈیشن، جماعت اہل سنت کونسل سمیت ملک بھر سے متعدد اہل سنت رہنماﺅں نے شرکت کی۔
آٹھ مئی کو لاہور پریس کلب میں میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے اہل سنت جماعتوں کے طالبان مخالف دھڑے ”سنی اتحاد کونسل“ کی طرف سے طالبان کے خلاف فیصلہ کن فوجی آپریشن کے مطالبے کو ایک مرتبہ پھر دہرایا گیا۔ طالبان کو اسلام دشمن طاقتوں کا ہتھکنڈا قرار دیتے ہوئے سنی رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ طالبان مسلمانوں میں نفاق پیدا کرنے اور دنیا بھر میں اسلام کو بد نام کرنے کی سازش کا حصہ بن چکے ہیں۔اس دوران سنی رہنماﺅں نے طالبان پر الزام عائد کیا کہ وہ صوبہ سرحد میں اب تک دس کے قریب مزاروں کو تباہ اور ہزاروں سنی مسلمانوں کو قتل کر چکے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شریک جماعتوں کے سربراہوں نے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ طالبان کی غیر اسلامی سرگرمیوں کے باعث دنیا بھر میں مذہب اسلام کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ سنی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ عوام کو چاہئے کہ وہ طالبان کے طرز عمل اور دہشت گردی کی تعلیمات کو مسترد کردیں۔ پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں دینی مدرسوں میں طالبان کے حامیوں کے اثرورسوخ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دینی مدارس کے ذمہ داران کو اس طرز عمل کا خاتمہ یقینی بنا نے کے لیے بھر پور کو ششیں کرنی چاہئیں۔
اگرچہ گزشتہ برس اکتوبر میں لاہور میں متحدہ علما کونسل کے ایک اجتماع میں بھی خود کش حملوں کو غیر اسلامی اور حرام قرار دیا گیا تھا تا ہم 17 مئی کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والی” کل پاکستان علما و مشائخ کانفرنس “خود کش حملوں کو محض غیر اسلامی فعل قرار دینے کے علاوہ ملک بھر میں طالبان مخالف جذبات کو باقاعدہ صورت بھی عطا کرتی ہے۔ اس کانفرنس کے دوران علما کے قتل اور مذہبی مقامات کی تضحیک کی بھی مذمت کی گئی اور مزاروں کو طالبان کی دست برد سے بچانے کا مطالبہ کیا گیا۔ جمعیت علمائے پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اس اجتماع میں سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ اس علاقے سے شر پسندوں کے مکمل خاتمے تک آپریشن جاری رکھا جائے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ طالبان نے اسلام کو بد نام کیا ہے، طالبان کا ایجنڈا اسلام مخالف اور سرگرمیاں شریعت سے متصادم ہیں۔ ان کے خلاف تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنا ہو گا۔ اس کانفرنس میں قرار داد منظور کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ہم خود ساختہ نام اور نہاد شرعی قوانین کے ذریعے غیر انسانی وغیر اخلاقی سزاﺅں کی مذمت کرتے ہیں اور ان اقدامات کو شریعت سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔
لاہور اور اسلام آباد میں طالبان مخالف مظاہرے بھی سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آئے۔ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے یہ آوا ز اس وقت اٹھائی گئی جب جماعت اسلامی سمیت ملک کی کئی مذہبی اور سیاسی جماعتیں سوات میں آپریشن بند کرنے اور مذاکرات شروع کرنے کی بے وقت راگنی آلاپ رہی تھیںاور دبے الفاظ میں حکومت پر یہ تنقید بھی کی جارہی تھی کہ صوفی محمد کے ساتھ امن معاہدے اور نظام عدل کے معاہدے پر عمل در آمد یقینی بنایا جائے۔ 3 جون کو تحفظ ناموس رسالت محاذ کے زیر اہتمام لاہور میں داتا دربار سے لے کر ریگل چوک تک ایک ریلی نکالی گئی ۔” پاکستان بچاﺅ، طالبان بھگاﺅ“ نامی اس ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس ریلی کی قیادت تحفظ ناموس رسالت محاذ کے سربراہ مرحوم ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی نے کی جبکہ مفتی محمد خان قادری، خواجہ قطب الدین فریدی، محمد اطہر القادری، پیر سیف الرحمن، مولانا غلام محمد سیالوی، میاں محمد حنفی، ڈاکٹر عابد سیفی، عبدالرسول قادری اور سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری بھی اس ریلی میں شریک تھے۔ ریلی کے شرکا طالبان بھگاﺅ، ملک بچاﺅ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر سرفراز نعیمی مرحوم کا کہنا تھا کہ ملک میں کسی صورت امریکی شریعت نافذ نہیں ہونے دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”پاکستان بچاﺅ ریلی“ کامقصد سوات اور دیگر علاقوں میں طالبان مخالف فوجی آپریشن کی حمایت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فضل اللہ، صوفی محمد اور بیت اللہ محسود اسلام اور قوم کے مجرم اور آئین پاکستان کے غدار ہیں اس لیے دہشت گردوں کے مکمل صفایا کے لیے ضروری ہے کہ فوجی آپریشن جاری رکھا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے والے عناصر نام نہاد طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اس ریلی کے دوران یہ اعلان بھی کیا گیا کہ دس جون کو لاہور میں ایوان اقبال میں علما مشائخ سیمینار منعقد کیا جائے گا۔
دس جون کو لاہور میں ایوان اقبال میں تحفظ ناموس رسالت محاذ کے زیر اہتمام پاکستان بچاﺅ کنونشن منعقد کیا گیا۔ اس کنونشن کے مشترکہ اعلامیہ میں سوات میں جاری فوجی آپریشن کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیاگیا کہ حکومت سیاسی قائدین، دینی جماعتوں اور پاکستان دشمن عناصر کے دباﺅ میں آ کر طالبان کے خلاف جاری فوجی آپریشن میں وقفہ نہ کرے بلکہ اسے منطقی انجام تک پہنچائے۔ اس کنونشن میں مرحوم ڈاکٹرمحمد سرفراز نعیمی کے علاوہ صاحبزادہ فضل کریم، پیر عتیق الرحمن، ثروت اعجاز قادری، حاجی حنیف طیب، علامہ فرحت شاہ، مولانا نعیم نوری، میجر (ر) یعقوب سیفی، علامہ قطب الدین اور دیگر کئی رہنماﺅں نے شرکت کی۔ کنونشن کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ امریکہ پاکستان کو ختم کرنے کے لیے پاکستان مخالف عناصر کااستعمال کر رہا ہے۔اس سلسلے میں امریکہ کو اپنے منصوبوںکی تکمیل کے لیے آلہ کار مل گئے جو فرقہ واریت کی سازش کو پروان چڑھا کر اس سازش کی تکمیل کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم ملکی بقا کے لیے فوجی آپریشن کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے سرحدوں کے محافظین سے توقع کرتے ہیں کہ وہ طالبان کے خلاف جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچاکر دم لیں گے۔اس کانفرنس کے اعلامیہ میں واضح طور پر کہا گیا کہ بیرونی سرمائے کی تقسیم پر طالبان اور نفاذ شریعت کے گروہ میں قتل و غارت نے تمام شکوک و شہبات کو یقین میں بدل دیا ہے کہ یہ گروہ ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔مزید یہ کہ پاکستان کو صوفی محمد کی ڈنڈا بردار شریعت نہیں چاہیے اورپوری اسلامی تاریخ میں کبھی بھی منہ چھپا کر جہاد نہیں کیا گیا۔ اس اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ پا نچ ہزار خانقاہوں کے مشائخ نے اپنے لاکھوں مریدوں سمیت طالبانائزیشن کے خلاف مزاحمت اور قیام امن کے لیے ملک گیر تحریک شروع کرنے کااعلان کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں 15 جون سے ملک بھر میں پاکستان بچاﺅ مہم کا آغاز کیا جائے گا ۔
سنی تحریک کے سربراہ محمد ثروت اعجاز قادری کے مطابق ایک خاص طبقے کی طرف سے مذہب کے نام پر مذہب کے بنیادی اصولوں کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جارہا ہے اسے محض تماشائی بن کر برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی شر پسندی نے ان کی حقیقت واضح کر دی ہے۔ ثروت اعجاز قادری کے بقول طالبان کی صورت میں پیدا ہونے والا مسئلہ ہمارے مقتدر اداروں کی تین دہائی قبل کی سنگین غلطی کا نتیجہ ہے، اگر اب بھی اس صورت حال سے بہتر طور پر نہ نمٹا گیا تو مستقبل میں اس پر قابو پانا شاید ممکن نہ رہے۔سنی تحریک کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 90ء کی دہائی سے مساجد پر قبضے کے واقعات شروع ہوئے اور اب تک ملک بھر میں ہزاروں مساجد پر اسلحے کے زور پر قبضے کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کی بنیاد کس نے اور کس غرض سے رکھی اور اس کے لیے سرمایہ کہاں سے فراہم کیا جارہا ہے۔ثروت اعجاز قادری کے بقول ہم مصلحت پسندی کا شکار تھے تا ہم اب وقت آ گیا ہے کہ دو ٹوک لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ حساس اداروں کی دستاویزات اس بات کی گواہ ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے 80 فیصد سے زیادہ واقعات میں ایک خاص نظریے کے لوگ ملوث ہیں۔ یہ لوگ فرقہ واریت کو ہوا دے کر ملک کو غیر مستحکم اور بیرونی قوتوں کو ملک میں مداخلت کا جواز فراہم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ ثروت قادری کے بقول حالیہ کچھ عرصے میں سوات اور صوبہ سرحد کے دیگر کئی شہروں میں دس کے قریب مزاروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ سنی تحریک کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سوات اور صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں میں طالبان کے اثرو رسوخ کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں کا امن و امان داﺅ پر لگ چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج اور دیگر اداروں کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور طالبان کے ہمدرد عناصرسے خود کو پاک کر لینا چاہیے۔ ثروت قادری کے بقول کراچی میں اندازے کے مطابق چھ سے دس ہزار کے قریب لوگ طالبان کے لیے کام کر رہے ہیں۔ شاہ فیصل کالونی اور شہر کے دیگر کئی علاقوں میں ان عناصر کے مراکز قائم ہیں جن پر حکومتی اداروں کو کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتہا پسندوں کی طرف سے کئی اکابرین کی جان کو سخت خطرہ ہے، اگر حکومت کی طرف سے انہیں تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت جیسے مزید واقعات پیش آنے کا اندیشہ ہے ۔ ان کے بقول ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کے بعد سنی اتحاد کونسل اور پاکستان بچاﺅ تحریک اپنے اصولی مؤقف سے کنارہ کش نہیں ہو گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں اگلے چند روز میں پشاور میں ایک کانفرنس منعقد کی جائے گی اور ہم اسے سلسلے کو وہیں سے شروع کریں گے جہاں ڈاکٹر نعیمی کی شہادت کے بعد یہ رکا تھا۔
Courtesy :weekly Humshehri

پنجاب کا بدلتا ہوا دیہاتی کلچر


حسین

پنجاب کے دیہات نے گزشتہ دوعشروں کے دوران بہت زیادہ تیزی کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کیا اور ایسے خدوخال کو اپنایا ہے جو اِس کے ماضی کے ساتھ بالکل میل نہیں کھاتے۔ ایک خاص ٹھہراؤ اور دوستانہ روایات کے حامل دیہاتی کلچرجس کے نمایاں ترین پہلوؤں میں سیکولر رویے شامل تھے، افسوس کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اب نہیں رہا۔ پرانی تمام خوبصورت روایات کو اُٹھا کر پھینک دیا گیا ہے اور اُن کی جگہ ایک خاص قسم کی شدت نے لے لی ہے۔ یہ سب کچھ سماجی ارتقا کے کسی نامیاتی اصول کے تحت نہیں ہوا بلکہ زبردستی اس تبدیلی کو لاگو کیا گیا ہے اور ریاست نے اس تبدیلی میں بڑی حد تک معاون کا کردار ادا کیا ہے۔ راسخ العقیدگی کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی اِس مخصوص تبدیلی نے اپنا پہلا قدم اگرچہ شہری سماج میں رکھا تھا لیکن اِسے جو قبولیت دیہاتی سماج سے حاصل ہوئی ہے وہ ابھی تک اِسے شہری سماج فراہم نہیں کرسکا۔ پاکستان کے ماہرین سماجیات خصوصاً ایسے علمائے سماجیات جن کی تحقیق کا دائرہ کار پنجاب کو اپنے احاطے میں لاتا ہے اِن کی اکثریت ابھی تک اس تیز تر اور بالکل نئی قسم کی تبدیلی کو پوری سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہی اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں پنجاب میں گزشتہ دوعشروں کے دوران نئی جنم لینے والی ثقافت اور کلچر کے بارے میں تجزیاتی تحریریں بہت ہی کم ملتی ہیں۔

ہمارے بہت سے دانشور پنجاب میں مذہبی انتہا پسندی اور جہادی کلچر کی نمود کو تو زیر بحث لاتے ہیں لیکن ان جزئیات کو چھوڑ دیتے ہیں جو اس نئے کلچر کی موجودگی کا شدت کے ساتھ احساس دلاتی ہیں اور جہادی کلچر کے پھیلاؤ کا موجب بنی ہیں۔ جب ہم تحقیق کاروں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو عموماًوہ ایک نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں افغانستان کی صورتحال نے ایک بالکل نئے کلچر اور ثقافت کو فروغ دیا ہے لیکن جو کچھ پنجاب میں ہو رہا ہے اور تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے اس کو معروضی انداز میں نہ تو پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی دیکھا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ دانشوروں اور محققین کا اپنا رجحان طبع ہے جو فطری طور پر اپنی توجہ شہروں کی طرف مبذول رکھتے ہیں اور دیہات کو مکمل طور پر نظرانداز کردیتے ہیں۔

میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو پنجاب ہمیں استاد اللہ بخش کی تصاویر اور 70ء کی دہائی میں تیار ہونے والی پنجابی فلموں میں دیکھنے کو ملتا ہے حقیقت میں اب اِس کا کوئی وجود نہیں۔ یہ ایک پرانی بات ہے جس نے تیزی کے ساتھ اپنے آپ کو لپیٹ لیا ہے اور نئے کلچر نے پوری طرح اس کی جگہ لے لی ہے۔ دیہات کے تصوراتی خاکے میں داخل ہونے والوں کو اب کہیں دور بانسری کی مدھر آواز نہیں سنائی دیتی بلکہ اس کی جگہ کلاشنکوف کی گولی کی سنسناہٹ یا پھر تیزی کے ساتھ تعمیر ہونے والی مساجد اور مدارس کے جدید لاؤڈ سپیکرز سے نکلنے والی فرقہ وارانہ اور جہادی گونج نے لے لی ہے۔ کوئی اس طرف توجہ نہ دے تو یہ اور بات ہے لیکن دیہاتی منظر نامہ ایک ایسے شدید خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے اور اُس عفریت کی آمد آمد کا بگل بجا رہا ہے جس نے ہمارے قبائلی علاقوں میں اپنا کام شروع کردیا ہے اور ریاست اِس کے سامنے پوری طرح سرنگوں نظر آتی ہے۔

میں نے مثال کے لیے پنجاب کا ایک گاؤں چنا ہے اور وہاں گزشتہ دس سے پندرہ سال کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہمیں پنجاب کے دیہات میں نمایاں طور پر دو مختلف کیفیات سے واسطہ پڑتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جن دیہات میں غیر مسلم خاندان آباد ہیں یا تھے وہاں پر تبدیلی کی نوعیت مختلف ہے اور جہاں غیر مسلم اقلیتوں کی کوئی نمایندگی نہیں وہاں نوعیت تھوڑی مختلف ہے۔

موضع رتووال ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں واقع ہے۔ رتووال ایک نیم پسماندہ اور اپنی آبادی اور مزاج کے حوالے سے ایک بالکل سیکولر گاؤں سمجھا جاتا تھا۔ قدیم روایت کے مطابق دو ہندو بھائیوں رتا اور پال نے اس گاؤں کو آباد کیا۔ تقریباً تین سو سال پرانے اس گاوٴں کو شروع میں رتا اور پال والا ڈیرہ کہا جاتا تھا جو آہستہ آہستہ رتووال بن گیا۔ تقسیم کے بعد (LOC)لائن آف کنٹرول اس گاوٴں کو تقریباً چھوتی ہوئی گزری اور اس وقت یہ لائن آف کنٹرول گاوٴں سے دوسو گز کے فاصلے پر ہے۔

1990ء تک اس گاوٴں میں 109خاندان آبادتھے جن میں 77مسلمان، 23ہندو، 8عیسائی اور ایک احمدی خاندان تھا۔ 77مسلمان گھرانوں میں 17اہل تشیع اور 60اہلسنت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ بالکل پر امن اور روایتی گاوٴں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا مکمل نمونہ تھا۔ ہندوؤں کا ایک گھرانہ زرعی زمین کا مالک تھا جبکہ 22بے زمین خاندان مسلمان زمینداروں کی زمینوں پر کام کرتے۔ اِن کی عورتیں مسلمانوں کے گھروں میں کام کرتیں جبکہ کچھ نوجوان لڑکے سیالکوٹ میں سپورٹس کا سامان تیار کرنے والے کارخانے میں کام کرتے اور اچھی مزدوری پاتے۔

رتووال کا کوئی بھی باشندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ گاوٴں کی تین سو سالہ تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا ہو جس کا تعلق کسی مذہبی تعصب پر ہو حتیٰ کہ تقسیم کے وقت جب مسلمان اور ہندو مہاجروں پر حملے ہو رہے تھے تو گاوٴں کے مسلمان باسیوں نے یہاں کے رہائشی ہندوؤں کی مکمل حفاظت کی بلکہ بیرونی بلوائیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں اپنے گھر وں میں پناہ دیدی۔ یہی وجہ تھی کہ ایک بھی ہندوخاندان اس گاوٴں کو چھوڑ کر بھارت نہ گیا اور اُنہوں نے یہیں پر رہنے کو ترجیح دی۔

1992ء میں پہلی مرتبہ ان خاندانوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ اب رتووال جہاں وہ صدیوں سے مسلمانوں کے شانہ بشانہ رہتے چلے آرہے ہیں ان کے لیے محفوظ جگہ نہیں رہا۔ 5فروری1992ء کو ”یوم یک جہتی کشمیر“ منانے والے تقریباً200افراد نے سیالکوٹ شہر جو اس گاوٴں سے 17کلو میٹر دور ہے بسیں اور ویگنیں کرائے پر لیں اور ان کے گھروں پر حملہ کر دیا۔ بلوائیوں کی سر براہی جماعت اسلامی سیالکوٹ کے رہنما کر رہے تھے جو ڈنڈوں اور ہاکیوں سے مسلح تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ یہ ہندوہیں انہیں زبردستی ہندوستان بھیجا جائے۔

گاوٴں کے باسی جو بلوائیوں سے متفق نہیں تھے انہوں نے مقابلے کی ٹھانی اور بلوائیوں کو مار بھگایا۔ بلوائیوں کو بتایا گیا کہ یہ ہندو ضرور ہیں لیکن صدیوں سے یہاں آباد ہیں اور ان کا بھارت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ان پر حملہ کرے یا انہیں ہراساں کرے۔ واضح رہے کہ رتووال کے ہندو اور عیسائیوں کی کوئی عبادت گاہ اس گاوٴں میں نہیں تھی نہ ہی کبھی ان لوگوں نے اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ گاؤں میں صرف ایک مسجد تھی جہاں جمعہ اور عیدین کے علاوہ اوسطاً چار سے پانچ نمازی باقاعدگی سے عبادت کرتے البتہ سار اگاؤں، بیساکھی، دیوالی، دسہرہ اور کرسمس کے مواقع پر انہیں اناج یا نقدی کی صورت میں تحائف وغیرہ ضرور دیتا۔ ہندو اور عیسائی خاندانوں میں شادی بیاہ وغیرہ پر تمام مسلمان گھرانے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالتے اور یہ شادی کسی ہندو لڑکی کی نہیں بلکہ گاؤں کی ایک بیٹی کی شادی تصور کی جاتی۔

1992ء کا سال ختم ہونے تک اس گاؤں کے ہندو سہم چکے تھے کیونکہ دو مرتبہ انہیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلی مرتبہ پانچ فروری کو دوسری مرتبہ بابری مسجد کے واقعے کے بعد لیکن مسلمانوں نے انہیں بھر پور تحفظ فراہم کیا۔ جو ہندو لڑکے سیالکوٹ شہر میں ملازمت وغیرہ کرتے اور روزانہ گاؤں سے شہر جاتے تھے انہوں نے شہر جانا چھوڑ دیا اور گھروں پر چھوٹا موٹا کام کرنے لگے۔ رتووال کے ہندو باسی کرشن داس نے مجھے بتایا کہ کام پر انہیں عدم تحفظ کا شدید احساس ہوتا اوریہ خدشہ لاحق رہتا کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔

آج اس گاوٴں میں 5ہندو خاندان آباد ہیں جو معاشی مجبوریوں کے باعث بھارت نقل مکانی نہیں کر سکتے۔ 18ہندو خاندان گزشتہ برسوں میں بھارت جا چکے ہیں اور وہاں ان کا کوئی پر سان حال نہیں۔ وہ گاوٴں کے ہر مسلمان خاندان کو خط لکھتے ہیں اور بھارت جانے کے فیصلے کو سب سے خوفناک فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ ان 18خاندانوں کے 12افرادبھارت میں انتقال کر چکے ہیں۔ آخری خط گاوٴں کے ہر دلعزیز سنت رام کا جنوری 2008ء میں موصول ہوا جو اس نے جالندھر کے کسی ہسپتال سے لکھا تھا جس میں اس نے رتووال میں مرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ بھارت میں انہیں کوئی نہیں جانتا اور ان کے معاشی حالات بہت برے ہیں اور وہ سب چاہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اگر وہ رتو وال واپس

آجائیں تو اگر کوئی جہادی گروپ وہاں قتل بھی کر دے تو کوئی ہرج نہیں وہ رتووال میں آنے والی موت کو خوشی سے قبول کرلیں گے۔ مارچ میں سنت رام کی موت کی اطلاع اس کے بیٹے ہریش چندنے رتو وال والوں کو دی۔

رتووال کے ہندو کسی بیرونی حملہ آور کے خوف سے شاید کبھی بھی بھارت نہ جاتے لیکن ان کی نقل مکانی کا سبب وہ مقامی نوجوان جہادی تھے جنہوں نے کشمیر اور افغانستان کے ٹریننگ کیمپوں سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ہرپال، آنولہ، سیلم، بینی سلہریاں، جودھے والی، کرشنا والی، باجبڑہ گڑھی، میندروال، راموچک، اکھنور، بھلور، چوبارہ اور ضلع سیالکوٹ کے دیگر دیہات کے ہندو باسیوں کو مذہب تبدیل کرنے یا بھارت چلے جانے کا حکم دیا۔

جہادیوں کی خصوصی توجہ رتووال پر مرکوز رہی اور ایک رات کو تین نوجوان ہندو لڑکیوں کملیش ونتی، لاجونتی اور گنگا کو اغوا کر لیا گیا۔ مقامی تھانہ سبز پیر نے ہندو خاندانوں کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا اور اغوا کاروں کو پیغام پہنچایا گیا کہ وہ مغویوں کو لے کر کسی دوسرے شہر چلے جائیں۔ تین دن بعد خبر ملی کہ تینوں لڑکیوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ایک جہادی گروپ کے مسلح افراد نے گاوٴں میں مٹھائی تقسیم کی اور ہوائی فائرنگ کی۔ دو ہفتے کے بعد معلوم ہوا کہ لاجونتی اور گنگا نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی ہے جبکہ کملیش ونتی اپنے شوہر کے ساتھ پشاور چلی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق دونوں لڑکیوں کو قتل کیا گیا کیونکہ ان کا اصرار تھا کہ وہ مذہب تبدیل نہیں کریں گی اور انہیں اپنے گھروں کو جانے کی اجازت دی جائے۔ اس بار مقتول لڑکیوں کے لواحقین نے تھانے سے رجوع نہیں کیا اور اپنے گھروں کا سامان اور مویشی بیچنے لگے۔

ایک دن رتو وال کے باسیوں نے دیکھا کہ 18ہندو خاندان اپنے مکانات چھوڑ کر وہاں سے جاچکے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد گاوٴں والوں کو خط موصول ہوئے جن میں لکھا تھا کہ یہ خاندان بھارت کے شہر جالندھر پہنچ چکے ہیں۔ ان کے چھوڑے ہوئے مکانات پر حسب طاقت مقامی لوگوں نے قبضہ کر لیا اور امی چند خاندان جو پانچ ایکڑ زرعی اراضی کا مالک تھا اس کی زمین پر رینجر ز نے قبضہ کر لیا۔

رتو وال کے واحد احمدی خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تھوڑا مختلف ہے۔ خاندان کا سربراہ جو ایک رٹیائرڈ سکول ٹیچر تھا اور گاوٴں کے معزز افراد میں اس کا شمار ہو تا تھا جب اس کا انتقال ہوا تو اہل گاوٴں نے ایک جہادی تنظیم سے رجوع کرکے یہ فتویٰ حاصل کیا کہ انتقال کرجانے والے کو گاوٴں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جاسکتا۔ اس جہادی تنظیم نے شام کو جلوس نکالا اور دھمکی دی کہ اگر متوفی کو گاوٴں کے مسلمان قبرستان میں دفن کیا گیاتو اس کی لاش کو قبر سے نکال کر آگ لگا دی جائے گی۔ اگلے روز یہ احمدی خاندان گھر کے سامان اور ایک تابوت کے ساتھ رتو وال سے چلا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ یہ خاندان ربوہ میں ایک مکان کرائے پر حاصل کر کے وہاں رہائش پذیر ہو گیا ہے۔

اب رتو وال کی عیسائی برادری کی باری تھی، گوجرانوالہ اورسمندری میں توہین رسالت کے واقعات نے غریب عیسائیوں کو خوفزدہ کر دیا کیونکہ ہندوؤں اور احمدی کا انجام ان کے سامنے تھا۔ جب گاؤں سے گزرنے والی سڑک پر ایک طلبہ تنظیم اور جہادی گروپ کے مسلح نوجوانوں نے ناموس رسالتﷺ کے حق میں جلوس نکالا اور ملزمان کو قتل کردینے کا مطالبہ کیا تو عیسائی برادری نے فیصلہ کیا کہ رتو وال کو چھوڑ دینا چاہیے۔ آٹھ میں سے چھ خاندان وہاں سے نقل مکانی کر گئے۔ جو دو خاندان ابھی تک وہاں رہائش پذیر ہیں ان کے معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کہیں اور جاکر رہائش اختیار کر لیں۔

گاوٴں کے معززین اور پر جوش نوجوانوں کا مؤقف ہے کہ ہندو محض اس لئے گاوٴں چھوڑ گئے کہ اِنہیں بیٹیوں کے لیے رشتے نہیں مل رہے تھے اور انہوں نے لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیوں کے لیے بھارت نقل مکانی کی۔ احمدی خاندان کی نقل مکانی کو وہ اس کا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں جو اپنی مقدس سرزمین پر چلا گیا اور عیسائی خاندانوں کی نقل مکانی کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ ایک عیسائی نوجوان نے ایک مسلمان لڑکی کو اغوا کر لیا تھا اس لیے انہیں گاؤں سے نکال دیا گیا۔

-اس گاؤں میں اب تین مساجد ہیں اور ایک امام بارگاہ ہے۔ بڑی جامع مسجد کے نوجوان خطیب نے مجھے بتا یا کہ اب ماشاء اللہ ہمارا گاؤں ایک مثالی گاؤں ہے جہاں صرف مسلمان بستے ہیں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی اکثریت یہاں سے جا چکی ہے جو باقی بچ گئے ہیں وہ بھی جلد یہاں سے چلے جائیں گے۔ رتووال کے کیس کو میں نے اس قدر وضاحت کے ساتھ اس لیے پیش کیا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے 30برس اس گاؤں میں بسر کیے ہیں۔ اور اس گاؤں کا ہر واقعہ میں نے خود دیکھا ہے۔ میری دائی مائی گنگا ہندو تھی اور میرے لیے اس کا درجہ ایک ماں کا ساہے۔ میں نے گزشتہ سال ستمبر میں جب اس کا پتہ معلوم کر کے خط لکھا تو مجھے دو ہفتوں کے بعد جواب موصول ہوا جس میں مائی گنگا نے صرف یہ لکھا کہ میں مرنے کے قریب ہوں اور کوئی ہے جو مجھے رتو وال لے چلے تاکہ میں اپنی مٹی میں مر سکوں۔ اطلاعات کے مطابق گاؤں کے جہادی نوجوان اس کانام تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور فروری کے انتخابات میں انہوں نے ایک امیدوار کو محض اس لیے ووٹ دیے کہ اس نے گاؤں کا نام تبدیل کروانے کا وعدہ کیا تھا۔

یہ تو تھی رتو وال کی کہانی۔ ضلع سیالکوٹ کے تقریباً چونسٹھ دیہات میں صدیوں سے رہائش پذیر ہندو تقریباً ایسی ہی صورت حال کا شکار ہیں اور تیزی کے ساتھ بھارت اور اندرون سندھ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ دیہاتی کلچر کی تبدیلی کے سوتے ضیا الحق آمریت، افغانستان جہاداور جہاد کشمیر سے پھوٹتے ہیں۔ جبکہ اس میں شدت 1990ء کے بعد دیکھنے میں آتی ہے۔ اچانک دیہات میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی جو سخت گیر مؤقف کے حامل تھے اور وہ نوجوان لڑکوں کو تبلیغ کرتے کہ جہاد ہی وہ راستہ ہے جو امت مسلمہ کو مسائل سے چھٹکارا دلوا سکتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دیہات کی مساجد جو روایتی طور پر بریلوی مکتبہ فکر کی مساجد سمجھی جاتی تھیں وہاں پر تبلیغی جماعت جو کہ دیوبندی مکتبہ فکر کے افراد کی جماعت ہے اس کے دورے بڑھ گئے اور دیہات میں جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی عموماً بہت کم دیکھنے کو ملتی تھی لوگ تقسیم ہونے لگے۔

ابتدا میں جہاد افغانستان کے لیے بھرتی مراکز جماعت اسلامی کے اثر ورسوخ والے علاقوں میں قائم ہوئے اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں دیو بندی اکثریت والے دیہات میں افغان جہاد کے لیے نوجوانوں کو تیار کیا جانے لگا۔ رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر اور ملتان جیسے اضلاع میں شدت پسند دیوبندی جماعتوں نے ان علاقوں میں شدت پسندی کو فروغ دیا اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جوق درجوق جہاد افغانستان کے لیے تربیت حاصل کرنے لگی۔ سیالکوٹ، گجرات، گوجرانوالہ، اوکاڑہ، قصور، فیصل آباد، جھنگ کے اضلاع میں جہاد افغانستان کے لیے زیادہ لوگوں کو اپنی طرف مائل نہ کیا جاسکا۔ لیکن جہاد کشمیر کے لیے ان علاقوں سے بہت زیادہ بھرتی کی گئی۔




ایک تربیت یافتہ نوجوان جب کنٹر، خوست اور قبائلی علاقوں سے واپس آتا تو وہ اپنے ہم عمر دوستوں میں سب سے ممتاز قرار دیا جاتا۔ نوجوان اس کی تربیت اور جدید ترین اسلحہ چلانے کی مہارت سے متاثر ہوتے اور ان میں سے کئی جہاد کے لیے تیار ہو جاتے۔ ان دیہات اور شہروں میں اگرچہ شدت پسند لوگوں کی تعداد زیادہ نہ تھی لیکن عام نوجوانوں خصوصاً دیہاتی نوجوانوں کو تیزی کے ساتھ جہاد کی تربیت اور عملی جہاد کی طرف مائل کیا جانے لگا۔ بچوں اور نوجوان لڑکوں کی بڑی تعداد ایسے مدارس کا رخ کرنے لگی جو شدت پسند نظریات کے حامل افراد اور جماعتوں نے قائم کر رکھے تھے۔

جیسے جیسے مدارس میں طلبا کی تعداد بڑھتی گئی جہاد کے لیے اور مختلف علاقوں میں ایک طرح کی ثقافتی تطہیر کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ دیہات میں مدارس کے فارغ التحصیل نوجوانوں کی تعداد بڑھنے لگی جو تربیت یافتہ تھے اور ایک خاص جذبے کے تحت نہ صرف کشمیرمیں بھارت کو سبق سکھانا چاہتے تھے بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں ماحول کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنا چاہتے تھے۔

تربیت یافتہ اور جہاد سے ایک غازی کی حیثیت سے واپس لوٹے ہوئے نوجوان سب سے پہلے اپنے گھروں، رشتہ داروں اور عزیزواقارب کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کے ساتھ چونکہ ایک طاقت کا احساس وابستہ تھا اس لیے انہوں نے شروع میں اپنی رشتہ دار اور عزیز خواتین اور سکول وکالج جانے والی لڑکیوں کو مجبور کیا کہ وہ شرعی پردے کا اہتمام کریں۔ 90ء کی دھائی کے شروع نصف تک شہروں اور دیہات میں برقع اور سر منہ ڈھانپ کر تعلیم کے لیے جانے والی لڑکیوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہونے لگا۔ اس دوران کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں جہادی بھائیوں نے

پردے سے انکار کرنے والی عزیز رشتہ دار لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ اخبارات میں اس طرح کی خبریں بھی شائع ہوئیں کہ بعض مقامات پر لڑکیوں کو پردے کی پابندی نہ کرنے پر ان کے بھائیوں نے جان سے مار دیا۔

اگر رتووال جیسے گاؤں اور اس کے قریبی دیہات کی مثال پیش کی جائے تو آسانی کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ 90ء کے آغاز تک اس گاؤں سے 25لڑکیاں قریبی دیہات کے ہائی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتی تھیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی برقع پوش یا نقاب پوش نہ تھی۔ وہ روایتی دوپٹہ یا چادر استعمال کرتیں لیکن 95ء تک ان لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو نے لگا جو برقع پہنتی تھیں یا نقاب اوڑھتی تھیں۔ آج یہ صورت حال ہے کہ صرف اس گاؤں سے 100سے زائد لڑکیاں سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں اور ان میں ایک بھی ایسی نہیں جو نقاب یا برقع استعمال نہیں کرتی۔ یہی صورت حال تقریباً پنجاب کے زیادہ تر دیہاتی علاقوں میں ہے جہاں زیر تعلیم لڑکیوں کو نقاب یا برقع اوڑھنے پر مجبور کیا گیا۔

'جہادی سرگرمیوں کے آغا زسے پہلے دو سے تین فیصد گھروں سے بچے مدارس میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے تھے لیکن یہ تناسب 2000ء تک 5سے7فیصد تک پہنچ چکا تھا اور آج وسطی پنجاب کے دیہات میں مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور یہ تناسب 10فیصد سے زیادہ ہے۔
Courtesy Weekly Humshehri

Debate Into Debate





Sunday, June 7, 2009

ویزا نہ آتا تو اچھا تھا!




آصف فاروقی

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دبئی


کمرہ ہے پر دو چارپائیوں کے لیے چھوٹا، چھت بارش میں ٹپکتی ہے، چارپائی پر بستر نہیں ہے، بجلی کا جنریٹر تو ہے لیکن پٹرول کے پیسے نہیں، جائے رفع ہے لیکن غسل خانہ نہیں، میس کا کھانا ملتا ہے لیکن کھانے کے قابل نہیں اور دبئی ہے پر دیکھا نہیں۔

یہ ہیں وہ حالات جن میں ’دبئی چلو‘ کے خواب کے تعاقب میں یہاں پہچنے والے انڈیا، پاکستان اور بھارت سے آئے بعض مزدور اپنی زندگی کے اچھے برے دن گزار رہے ہیں۔

ویسے تو دبئی کی تعمیر میں مصروف غیر ملکی مزدوروں کی رہائش کے لیے ٹھیکے دار کمپنیوں کو سخت قوانین کے تحت مناسب بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ دبئی کے مضافات میں سونا پور اور القوض کے علاقوں میں اس نوعیت کے بے شمار مزدور کیمپ موجود ہیں جہاں دن بھر کی محنت کے بعد یہ کارکن رات گزارنے کے لیے آتے ہیں۔

دبئی میں دو ہفتوں کے دوران درجنوں کیمپوں کے معائنے کے بعد یہ تسلیم کرنا پڑا کہ دبئی کے بیشتر کیمپ مزدوروں کو مناسب رہائشی سہولت دیتے ہیں۔

ائیرکنڈیشنڈ کمرے (گو کہ حجم کے اعتبار سے یہ بہت بڑے نہیں ہوتے)، صفائی کا مناسب بندوبست، کھانا پکانے کے لیے تمام لوازمات کے ساتھ باورچی خانہ اور اگر کھانے کا انتظام بھی کمپنی کے سپرد ہے تو معیار اور مقدار کے حساب سے مناسب کھانا، مشترکہ لیکن صاف غسل خانے۔

لیکن دبئی میں کام کرنے والے تمام مزدوروں کے نصیب میں یہ ’عیاشی‘ نہیں ہے۔

دبئی کے تعمیراتی علاقے برشا (جنوبی) میں بنے متعدد مزدور کیمپ اس حقیقت کی ثبوت ہیں جہاں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آئے سینکڑوں مزدور ایسے حالات میں رہ رہے ہیں جنہیں غیر انسانی کہا جا سکتا ہے۔

دبئی میں ایک دوست کے ہمراہ جب ایسے ہی ایک مزدور کیمپ میں انتظامیہ کی اجازت کے بغیر پہنچا تو وہاں عجب منظر دیکھا۔

لکڑی کا ایک بے ہنگم سا کمرہ بنا ہے جس کے باہر چار نوجوان لکڑی جلا کر کھانا بنانے کو کوشش کر رہے ہیں۔

سکھ بیر سنگھ، تلک راج، وتر سنگھ اور سون سنگھ کا تعلق بھارتی پنجاب ہے۔ وہ دو برس سے اس ایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں۔

میرے استفسار پر تلک راج نے بتایا کہ میس سے کھانا تو آتا ہے لیکن اسے کھانے کا دل نہیں چاہتا۔ ’کبھی سالن میں تیرتی ہوئی بھنڈی کھائی ہے آپ نے۔ ہم سے بھی نہیں کھائی جاتی تو جس دن ’کھانا` کھانے کا من کرتا ہے خود ہی کچھ پکا لیتے ہیں‘۔

سکھ بیر سنگھ نے بتایا کہ برشا میں بننے والے ولاز کی تعمیر کے لیے ایک بھارتی ٹھیکے دار نے انہیں ملازمت دے رکھی لیکن زندگی بہت مشکل بنا دی ہے۔

’چند دن پہلے بارش ہوئی تو کمرے میں پڑا سامان بھیگ گیا۔ اس میں راشن بھی تھا سب برباد ہو گیا‘۔

جب میں نے اس عجیب سے لکڑی کے ڈبے کو کمرہ تسلیم کرنے سے انکار کیا تو سکھ بیر جذباتی ہو گیا۔ ’کیا کریں صاحب، گھر والوں نے کتنی مشکل سے پال پوس کر بڑا کیا اور پتا نہیں کہاں سے پیسے جوڑ کر ہمیں یہاں بھیجا۔ اب ان کے لیے کچھ دن مشکل میں کاٹ لیں تو کیا برا ہے‘۔

سون سنگھ نے بتایا کہ ٹھیکے دار نے چار لوگوں کے لیے دو چارپائیاں اور ایک یہ کمرہ دیا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کمرے میں دونوں چارپائیاں پوری نہیں آتیں۔ اگر آجائیں تو باقی سامان کی جگہ نہیں بچتی اس لیے ایک چارپائی باہر پڑی رہتی ہے۔


’تو دو جنے اندر سوتے ہیں اور دو باہر‘۔ یعنی دو لوگ فی چارپائی۔

میرے اصرار پر مجھے کمرے کا معائنہ کرنے کے لیے اندر لے جایا گیا۔ پتہ چلا موم بتی نہیں ہے لیکن انڈیا سے آیا ٹارچ والا موبائیل فون کام آیا۔

چارپائی بھی عجیب سی لگی۔ ’خود بنائی ہے صاحب‘ سون سنگھ نے شرما کر بتایا اور اس پر پڑی ایک میلی سے موٹی چادر کو سون سنگھ نے بستر قرار دیا۔

’بغیر بجلی کے گرمی نہیں لگتی؟‘ میرے اس سوال کے جواب میں چاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر چاروں طرف پھیلی ریت پر ایک نظر ڈالی۔سکھ بیر نے بتایا کہ رات کو جب گرمی سے نیند نہ آئے تو قریب ہی لگے نلکے پر کپڑوں سمیت نہا لیتے ہیں۔

وتر سنگھ نے جو خاصی دیر سے خاموش بیٹھا تھا بتایا کہ اس نے ایک دن ٹھیکے دار سے ان سب باتوں پر احتجاج کیا تھا۔ ’اس نے دو راستے بتائے۔ ایک یہ کہ تین سو درہم ماہانہ کٹوا لو تو اچھی جگہ رہائش مل جائےگی، یا کام چھوڑ دو‘۔

’آٹھ سو درہم ملتے ہیں۔ تین سو ادھر ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ پانچ سو گھر بھیجتے ہیں جن میں سے مزید تین سو گئے تو گھر کیا بھیجیں گے؟‘۔

سون سنگھ کا کہنا تھا کہ ایجنٹ نے بارہ سو درہم کا وعدہ کیا تھا لیکن دبئی پہنچنے کے بعد آٹھ سو ملے۔

’اب تو اوور ٹائم بھی ختم ہو گیا ہے۔ ٹھیکے دار کہتا ہے کام نہیں ہے۔ بس جتنا ملتا ہے کرو ورنہ مزدور اور بہت مل جاتے ہیں‘۔

دبئی کی سیر اور گھومنے پھرنے کے بارے میں سوال پر سب کے سب قہقہہ لگا کر ہنسے اور دیر تک ہنستے رہے۔ تلک راج نے کہا کہ اتنے پیسے ہیں اور نہ وقت۔ ’سون سنگھ کے پیچھے پیدا ہونے والے بیٹے کی تصویر جبل علی میں انڈیا سے آنے والے ایک رشتہ دار کے پاس پڑی ہے۔ اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اسے لے آئیں جا کے، آپ گھومنے کی بات کرتے ہیں۔`

پھر بھی کچھ تو دیکھا ہو گا۔ ’ٹیکسی کا کرایہ بہت زیادہ ہے اس لیے ایک دن پیدل دبئی میرینا گئے تھے۔ رات کو واپس آئے تو اگلے دن کام پر نہیں جا سکے اتنے تھک گئے تھے۔ اس دن توبہ کر لی۔ ایک سال ہو گیا پھر اس ریگستان سے باہر نہیں نکلے‘۔

سون سنگھ نے کہا کہ اس طرح کے حالات میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اردگر بہت سے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کیمپ ہیں جو پاکستانی اور انڈین ٹھیکے داروں نے غیر قانونی طور پر بنا رکھے ہیں۔’شام کے وقت جب دل کبھی بہت اداس ہو تو بہت سارے مل بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے مذاق کرتے ہیں‘۔

سکھ بیر نے بتایا کہ ایسے میں سب اپنے اپنے قصے سناتے ہیں کہ انڈیا میں دبئی جانے کے شوق میں ایجنٹ کے دفتر کے کتنے چکر لگائے، کس کو رشوتیں دیں اور ویزے کے لیے کیا کیا منتیں مانگیں۔

’اب میں کبھی سوچتا ہوں کہ کچھ دن اور دبئی کا ویزا نہ آتا تو کتنا اچھا ہوتا‘۔

ٹراؤٹ اور طالبان !

وسعت اللہ خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

گوریلا جنگ کے عظیم ماہر ماؤزے تنگ کے بقول چھاپہ مار وہ مچھلی ہے جو عوامی تائید کے تالاب میں ہی زندہ رہ سکتی ہے۔۔۔۔ اگر ماؤزے تنگ کا یہ قول برحق ہے تو پھر مالاکنڈ کا تالاب جو تیس لاکھ افراد کی نقلِ مکانی کے سبب خشک ہوچکا ہے، اس میں متحرک بیشتر چھاپہ مار مچھلیوں کو تو اب تک تڑپ تڑپ کر مرجانا چاہیے تھا۔مگر محسوس یوں ہوتا ہے کہ مالاکنڈ کے دریاؤں اور تالابوں میں بہاؤ کے مخالف بہنے والی ٹراؤٹ مچھلیوں کی طرح اکثر طالبانی مچھلیاں بھی یا تو اوپر منتقل ہوگئی ہیں یا عوامی بہاؤ کے سنگ سنگ تالاب سے نکل گئی ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ مالاکنڈ میں فوجی ایکشن پہلے کی نسبت زیادہ تندہی اور سنجیدگی سے جاری ہے۔ لیکن جن لاکھوں بے گھروں کی بقا کے نام پر یہ کارروائی ہورہی ہے کیا انہیں بھی یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ رات کے بعد صبح ہونے والی ہے ؟؟؟

ہوسکتا ہے کہ کارروائی کے پیچھے بہترین نیت ہو لیکن کیا اس خوش نیتی کا عملی اقدامات کے ساتھ تال میل بھی بن رہا ہے یا نہیں؟

اگر تیس لاکھ نفوس نے نقلِ مکانی کی ہے اور ان میں سے صرف دو سے ڈھائی لاکھ لوگ ہی کیمپوں میں نظر آرہے ہیں تو باقی ساڑھے ستائیس لاکھ بے گھر سرکاری کاغذوں کے حساب سے کہاں کہاں ہیں ؟ کیا کوئی ادارہ ان ساڑھے ستائیس لاکھ بے خانماؤں کی ٹریکنگ کررہا ہے یا رجسٹریشن کر رہا ہے؟ ان متاثرین کے نام پر اندرون و بیرون ملک سے جو مدد آرہی ہے یا آئے گی کیا وہ ان سب تک پہنچانے کا کوئی بندوبست ترتیب پایا ہے ؟؟؟

اطلاعات تو یہ ہیں کہ اب تک جتنے اداروں نے بے گھروں کے سروے کئے ہیں ان میں سے کسی کے اعداد و شمار ایک دوسرے سے نہیں مل رہے، اور جتنے بھی بے گھر رجسٹر ہوئے ہیں ان میں سے محض آدھوں کو پچیس ہزار روپے کی مالی مدد کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ باقی کی دوبارہ چھان بین ہوگی۔

تو کیا یہ چھان بین وہی لوگ کریں گے جنہوں نے ان دربدروں کو پہلے رجسٹر کیا یا اب کہ غیر جانبدار مستعد لوگ اس کام پر لگائے جائیں گے ؟ اور کیا رجسٹریشن کرنے والے متاثرین تک پہنچیں گے یا متاثرین کو رجسٹریشن کی طویل قطاروں میں لگنے کے لیے ایک اور سفر درپیش ہوگا ؟

کیا بھیڑ، بکری، گدھے اور گھوڑے کو یکساں معاوضے کی لاٹھی سے ہانکا جائے گا یا پر جانی و املاکی نقصان کا انفرادی تخمینہ لگایا جائے گا؟؟؟؟

سیکرٹری دفاع کا اندازہ ہے کہ جاری آپریشن کے دوران چار ہزار کے لگ بھگ طالبان مارے گئے ہیں۔فوج کے ترجمان کا تخمینہ ہے کہ ایک ہزار سے بارہ سو کے درمیان طالبان کا صفایا ہوچکا ہے۔ایک سرکاری ذمہ دار کا خیال ہے کہ دو سے تین ماہ میں سب بے گھر واپس آسکیں گے۔ دوسرے ذمہ دار کا کہنا ہے کہ حالات معمول پر آتے آتے سال تو لگ ہی جائے گا۔

ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ جس میں ہر چوتھا آدمی پالیسی بیان جاری کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔یہ جانے بغیر کہ ان آنکڑے بازیوں کا ان لاکھوں بے گھر والدین پر کیا اثر ہوگا جو یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہورہے ہیں کہ آیا وہ دو تین ماہ کے لیے اپنے بچوں کا تعلیمی مستقبل معطل رکھیں یا پھر کم ازکم سال بھر کے انتظار کی سولی پر لٹکے رہیں۔

ان حالات میں اگر کوئی سواتی یہ کہتا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کی دربدری کے ذمہ دار طالبان ہیں یا فوجی آپریشن ؟ اگر کوئی سواتی یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ سوات میں پرخلوص کارروائی ہورہی ہے یا ٹام اینڈ جیری شو جاری ہے ؟؟؟ اگر کوئی سواتی یہ سمجھتا ہے کہ یہ کیسا ناٹک ہے جس میں کرداروں سے زیادہ تماشائی مررہے ہیں ؟؟؟

تو ایسے سوالات پر نہ خفا ہونے کی ضرورت ہے ، نہ رونے کی نہ ہنسنے کی۔۔۔ضرورت ہے تو صرف اپنے اپنے گریبان میں منہ دینے کی !!!!!!


tags:Bbc nawaz musharaf taliban army pakistan

Nawaz Zaradri Mulaqat By Asad-Allah-Ghalib





Tags:zardar,nawaz,mqq,pml(n),pml(q),ppp,nazir naji,ather abbas,

Aj Ka Sawal By Ather Abbas (7 june 2009)




Thursday, June 4, 2009

Kidat Ka Khela(5 June 2009)

Aj Ka Sawal By Ather Abbas (5 june 2009)




قم باذن اللہ (1)



Updated at: Thursday,04 June 2009
کیا آرمی کے موجودہ آپریشن کے نتیجے میں ملاکنڈ ڈویژن اور صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں میں حکومتی عملداری (Gorvenment Writ)قائم ہوجائے گی ۔ عمل داری قائم کرنے کی اس کوشش میں کتنا عرصے لگے گا۔ آپریشن کے نتیجے میں جو تیس لاکھ لوگ بے سروسامانی اور خوف و اضطراب کی حالت میں بے گھر ہوگئے ہیں۔ ان کو واپس اپنے علاقوں میں آباد کرنے کی کوئی امید مستقبل قریب میں نظر آتی ہے۔ اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگوں میں جو ردعمل پیدا ہو رہاہے ۔ اس سے انتہا پسندی کو مزید تقویت تو نہیں ملے گی ؟اگرحکومتی عمل داری قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی جان ،مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے تو کیا جو طریقہ اس کے لئے اختیار کیاگیا ہے اس سے یہ مقاصد حاصل ہو رہے ہیں۔ اس طرح کے بے شمار سوالات متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے اور متاثرین کے واقعات سننے کے بعد ہر شخص کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپریشن سے قبل اور اس کے بعد واقعات کا تجزیہ کرنے والوں سے انتشار فکری اور کنفیوژن کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
شدت پسندی اور اسلحے اور طاقت کے بل پر اپنی بات منوانے والوں کی تمام تنظیموں کو ابتدائی طور پر کھڑا کرنے میں پاکستانی حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے ۔ یہ تنظیمیں بالآخر ان کے ہاتھ سے نکل جاتی ہیں اور پوری قوم کے لئے درد سربن جاتی ہیں۔ انہیں وجود میں لانے کا بنیادی مقصد برطانوی سامراج کا سکھایا ہوا حکومتی عمل داری قائم کرنے کا گر یہ ہے کہ عوام کو آپس میں لڑایا جائے۔ ایرانی انقلاب کے بعد امریکی تجزیہ نگاروں اور تھنک ٹینکس نے امریکی حکومت کو متنبہ کردیا کہ عالم اسلام میں ایرانی انقلاب کے طرز پر انقلابات نمو دار ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں اور اگر اس طرح کا انقلاب ترکی ،عالم عرب ،پاکستان یا انڈونیشیا میں نمودار ہوا تو مغربی دنیا کے لئے ان علاقوں کو اپنی زیر نگرانی رکھنے اور اس علاقے کے معدنی ذخائر خصوصاً تیل کے ذخائر پر کنٹرول قائم رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس طرح عوامی انقلاب کو روکنے کے لئے مغربی مفکرین نے عالم اسلام میں بڑے پیمانے پر انتشار پیدا کرنے کے منصوبوں پر عمل درآمد کرنا شروع کیا۔
1980ء میں میری ملاقات پیرس میں مقیم ایک بڑے مسلمان مفکر اور اللہ کے ولی ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے ہوئی ۔ پیرس کی ایک بڑی مسجد میں اس درویش مفکر نے مجھے بتایا کہ مغربی میڈیا کے منفی پراپیگنڈے اور اسلام کو دہشت گردی سے وابستہ کرنے کی کوششوں کے باوجود پیرس میں ہر ہفتے اوسطاً پانچ سفید فام فرانسیسی جو عموماً ذہین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اسلام قبول کررہے ہیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فرانس اور یورپ کے بائیں بازو کے دانشور کیمونزم اور سوشلزم کے فلسفے سے مایوس ہو کر اسلام کو انسانیت کے لئے راہ نجات سمجھنے لگے تھے ۔ اس وقت اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرنے کی تدابیر زور پکڑنے لگیں۔ نبی رحمت حضور رحمتہ اللعالمین کے ایسے کارٹون جن میں نبی رحمت ۖکو خاکم بدہن دہشت گرد کے روپ میں پیش کیاگیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری کتاب ہدایت جس کا بنیادی سبق اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس پیدا کرناہے ،کو دہشت گردی کی کتاب کے طور پر پیش کیاگیا۔ جہاد فی سبیل اللہ جس کا بنیادی مقصد فتنہ وفساد، استحصال اور ہر طرح کے ظلم کا خاتمہ اور نظام عدل و قسط اور انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر انسانوں کے رب کی غلامی میںدیناہے،کو مسخ کرکے قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کے راہ عمل کے طور پر پیش کیاگیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کے زیر اثر مسلمان دنیا کے ذرائع ابلاغ کا وطیرہ بن گیاکہ اسلام کی بنیادی اصطلاحات جہاد اور شریعت کو وحشت اور جہالت سے وابستہ کردیں۔ خود مسلمان ممالک میں اسلام کا چہرہ بگاڑنے کی کوششیں شروع کی گئیں اور دانستہ یا نادانستہ طور پر بہت سے مسلمان گروہ اس بڑے کھیل کا حصہ بن گئے ۔
مسلمانوں کی حکومتیں امریکی اتحاد میں شامل ہو کر مسلمانوں کواندر سے کھوکھلا کرنے کے اس بڑے کھیل میں شامل ہوگئیں۔ اس کھیل میں مغربی ذرائع ابلاغ عالمی مالیاتی ادارے ،ملٹی نیشنل تجارتی ادارے اور مغربی ممالک سے پیسہ اور ہدایات وصول کرنے والی این جی او ز(غیر حکومتی ادارے) مغرب کے بڑے ہتھیار ہیں۔ملک کا ہر حساس شہری اس بات پر پریشان ہے کہ کس طرح اسلام آباد کے دل میں واقع ایک عام مسجد (لال مسجد ) اور ایک عام مدرسے کے بارے میں یہ پراپیگنڈہ کیاگیا کہ یہاں بڑی تعداد میں غیر ملکی دہشت گرد قیام پذیر ہیں اس مسجد اور مدرسہ پر ایک کمانڈو بریگیڈ کا حملہ کروانے سے قبل مصالحت کی تمام کوششیں ناکام بنادی گئیں۔ اس مسجد اور مدرسہ کو کنٹرول کرنے کے لئے صرف اس کا پانی اور بجلی کا کنکشن کاٹنا ہی کا فی تھا لیکن اس میں سینکڑوں بچیوں اور معصوم طلبہ کو قتل کرکے امریکہ کو اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنا ضروری تھا۔
یہ سب کچھ کیوں کیاگیا ۔ اسلام اور مسلمانوں کی یہ تصویر کس نے ساری دنیا کو دکھائی کہ پردہ نشیں عورتوں اور طالبات کے روپ میں دہشت گرد تربیت حاصل کررہے ہیں اس میں کتنی حقیقت تھی اور کتنامبالغہ ۔ پھر ہمارے ملک میںجو لوگ ایک بچی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو دکھا کر پوری دنیا میں واویلا کرتے ہیں ۔ وہی لوگ سینکڑوں بچوں ، بچیوںکے قتل پر قاتلوں کو داد دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ یہ کس بڑے کھیل کا حصہ ہیں ۔ یہ سب کچھ کیا ہے ؟
جنرل ضیاء الحق صاحب بظاہر صوم و صلوٰةکے پابند مسلمان تھے لیکن ایک امریکی دانشور جان اسپازیٹو(John Esposito)نے انہیں عالم اسلام کے لئے امریکی پالیسی سازوں کا سب سے کامیاب مہرہ قرار دیا ہے جس نے خود اسلام کے نام سے اسلامی قوتوں کو گٹھے لگا دیا تھا۔ جماعت اسلامی کے مقابلے میں کراچی میں ایم کیو ایم کو ابھارنے ، طلبہ یونینز پر پابندی لگا کر اسلامی جمعیت طلبہ کے اثرات کو کم کرنے اور ٹریڈ یونین پر پابندی لگا کر جماعت اسلامی کی بڑی ٹریڈ یونینز کو ختم کرنے کا سہرا ان کے سر ہے۔ جناب جنرل ضیاء الحق صاحب اس کے دور میں جماعت اسلامی کے ایک رکن جودیر کی ضلع کونسل کے منتخب ممبر تھے اور افغان جہاد کے مویدین میں شمار ہوتے تھے اور ان دنوں کلاشنکوف ہاتھ میں لے کر خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے کو سیاہ پگڑیاں باندھنے والے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنما کے طور پر جماعت کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا ۔ جمہوریت کفرہے اور ووٹ دینا حرام ہے کا نعرہ بھی اس دور میں ان کے منہ میں ڈال دیاگیا۔ اس دور میں ایرانی انقلاب کے زیر اثر پاکستان کے اہل تشیع ایک جوش اور جذبے سے اٹھے اور اسلام آباد کے دفاتر میں گھس کر فرقہ بندی پر مبنی اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے مقابلے میں سپاہ صحابہ منظم ہوگئی اور سپاہ صحابہ کے زور کو توڑنے کے لئے ایک دوسری عسکری شیعہ تنظیم سپاہ محمد کے نام سے منظم کردی گئی چنانچہ سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئیں۔ اسی دور کی بات ہے کہ لاہور شہر میں شاہی مسجد کے سامنے دوگروہ ایک دوسرے کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔(جاری ہے)

دونوں گروہوں کے سربراہوں کا تعلق محکمہ اوقاف کے تابع علماء کرام کے ساتھ تھا ۔ ایک گروہ شاہی مسجد لاہور میں ''یارسول اللہ ۖکانفرنس ''منعقد کرنا چاہتاتھاکہ دوسرا گروہ ''محمد رسول اللہ ۖکانفرنس ''منعقد کرناچاہتاتھا۔
یہ لڑائی اب بڑے پیمانے پر مسلح ہو کر لڑ ی جا رہی ہے ۔ کرم ایجنسی میں شیعہ سنی فساد گرم ہے۔ خیبر ایجنسی میں ایک گروہ توحید کے علمبردار بن کر درباروں اور مزاروں کے خلاف علم جہاد بلند کررہاہے ۔ ملاکنڈ ڈویژن میںاسلامی نظام عدل کے نفاذ کے نام سے حجاموں کی دکانوں کو نوٹس جاری کئے جاتے ہیں ۔ میوزک شاپس پر دھماکے کئے جاتے ہیں۔ حکومتی ادارے کچھ مدت تک اس طرح کے عناصر کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں اور جب یہ خوب پر پرزے نکالتے ہیں تو ان پر حملہ کے بہانے ایک ایسااقدام کرتے ہیں جس کی زد میں بے گناہ لوگ آکر تباہی وبربادی کا نشانہ بنتے ہیں ۔یہ سب کارروائیاں اسلام کی اندرونی لڑائی (Islamic Internal Battle)کو گرم کرکے مسلمانوں میں اندرونی انتشار پھیلانے کے بڑے کھیل کا حصہ ہیں ۔
اب ان سوالات کی طرف آتے ہیں جو ابتداء میں پیش کئے گئے تھے۔ کیا موجودہ آرمی آپریشن کے نتیجے میں حکومتی رٹ اور حکومتی عملداری قائم ہوگی۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ جمہوری اور منتخب حکومت اپنی عمل داری قائم کرنے کے لئے ہمیشہ جمہوری طریقہ اختیار کرتی ہے جس طرز کا فوجی آپریشن ملاکنڈ ڈویژن میں روا رکھاگیاہے۔ اس سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہے ۔ علاقے کے نصف عوام اتنے گھر چھوڑ گئے باقی نصف کرفیو ، گولہ باری اور بمباری کی وجہ سے محصور ہیں جب کہ عسکریت پسند اپنے اسلحے سمیت اپنے علاقے اور مقامات بدلتے رہتے ہیں۔ گندم اور پھلوں کی تیار فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ مویشی کوئی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے مررہے ہیں۔ اگلی فصل دھان ہے جس کے لئے زمین تیار کرنے کا وقت ہے لیکن آبادی کی منتقلی اور لوگوں کے محاصرے میں ہونے کی وجہ سے کھیتوں میں نکلنا ممکن نہیں ہے۔ تین فصلوں سے محروم ہونے کی وجہ سے سوات کے عوام کی اکثریت غربت اور افلاس کے گھیرے میں آکر بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ایک غیرت مند ، خود دار اور محنت کش قوم کو اس حالت میں دیکھ کر کون محب وطن اطمینان محسوس کرسکتاہے۔ ہزاروں نوجوان سخت صدمے سے دوچار ہو کر کسی بھی انتہائی اقدام پر آمادہ ہو رہے ہیں ۔
میں تین روز تک ملاکنڈکے فوجی آپریشن کے خلاف اسلام آبادکے ایک کیمپ میں بیٹھا تھا ۔مجھے دیر اور سوات کے نوجوانوں کی زبانی کئی روح فرساواقعات سننے کا موقع ملا۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ ان کے گھر کے سولہ افراد جن میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی ایک ٹرک میں بیٹھ کر بونیر سے نکلنے کی تیاری کررہے تھے کہ ان کے ٹرک پر ایک مارٹر گولہ گرا اوران کے چھ افراد جن میں ایک بہن ایک چچاز اد بہن ایک پھوپھی شامل تھیں فوت ہوگئیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر مجھے تحریک اسلامی کی تربیت سہارا نہ دیتی تو میں خود کش حملہ آور وں کے جتھے میں شامل ہوجاتا۔ اخبارات میں کھانا لینے کے لئے برتن اٹھائے ہوئے اور اشیائے ضرورت کے لئے ہاتھ پھیلائے ہوئے خواتین ، مردوں اور بچوںکی جو تصویریں شائع ہوتی ہیں یہ بے گناہ اور معصوم اور خود دار اور عزت نفس رکھنے والے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔
کیا پاکستان کے قیام کامقصد یہ تھاکہ امریکہ اور برطانیہ کی وفاداری کے عہد پر قائم ایک ایسی ریاست قائم کی جائے جو امریکہ کی صف اول کی اتحادی بنے ، ان کے عالمی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور ان کے عالمی مفادات کی خاطر اپنی قوم سے لڑے ۔ ان کی آرزوئوں کا خون کرے اور اپنی قوم کی ترجمانی کی بجائے غیروں کا ترجمان بن جائے۔ غیر ملکی تہذیب و تمدن کو فروغ دینے کے لئے اپنے ذرائع ابلاغ کو استعمال کرے اور اپنی تہذیب کا مذاق اڑائے ،پاکستان کے لبرل حلقوں کو قائد اعظم کی ساری تقریر وں میں سے ان کے گیارہ ستمبر1947ء کی تقریر کا یہ اقتباس بہت ہی پسند آگیا ہے۔ بالآخر پاکستان میں سیاسی حوالے سے نہ مسلمان مسلمان رہے گا اور نہ ہندو ہندو رہے گا بلکہ یہ ایک ملک کے برابر کے آزاد شہری ہوں گے۔ اس کو لبرل طبقے (Jinnah's Vision)جناح کا تصور پاکستان کہتے ہیںاور اس طرح پاکستان کی اساس ، اسلامی فکر اور اسلامی نظریے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کی یہی سوچ فساد کی جڑ ہے ۔ اسلام کے رشتے کوکاٹنے کے بعد وہ کونسارشتہ ہے جو بلوچ ، پختون ،پنجابی ، سندھی ،مہاجر کو متحد رکھ سکتاہے۔یہ پاکستان کی اساس پر تیشہ چلانے والی بات ہے ، اے این پی کے ''بابائے اعظم ''باچا خان آخری دم تک پختونوں کو یہی سمجھاتے رہے کہ ''پاکستان '' کے نام سے دھوکہ نہ کھائیں۔یہ دراصل ''پاکستان '' نہیں بلکہ ''پنجاب ''ہے۔ افغانستان سے واپس آنے کے بعد تہکال بالا میں ان کی ایک تقریر سننے کے بعد میرے ایک برخوردار ہنستے ہوئے آئے اور ان کی نقل اتار کر کہنے لگے کہ طنزیہ لہجے میں پاکستان ، پاکستان کہنے کے بعد لوگوںسے کہنے لگے ''نیک بختو پنجاب ہے پنجاب ''
ہمارے بلوچ اور سندھی نیشلسٹ ہمیں ہمیشہ یہی سمجھاتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کررہاہے ۔ انہیں اسلامی نظام ، اسلامی بھائی چارے اور اسلام کے نظام عدل کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پاکستانی فوج کو پنجاب کی فوج قرار دیا جا رہاہے۔ بلوچستان میں پہلے ہی قومی ترانہ اور قومی جھنڈے کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اب وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ IDPیعنی اندرونی طور پر بے دخل ہونے والے افراد کو پورے ملک میں پھیلنے سے روک دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے خلاف مزید ردعمل پیدا ہوگا۔ مظلوم ،بے سہارا اور بے گناہ ،بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو سندھ میں داخل ہونے سے روک دیاگیا۔ پنجاب میں کیمپ بنانے سے گریز کیا جا رہاہے اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا لیا جائے گا کہ یہ ایک قوم نہیں بلکہ کئی اقوام کا مجموعہ اور ہر قوم اپنے علاقے میں کسی دوسری قوم کے آنے پر معترض ہے ۔
ہم سے پوچھا جاتاہے کہ تمہارے پاس کیا علاج ہے ۔ کیا عسکریت پسندوں کو یا طالبان کو موقع فراہم کردیاجائے کہ وہ ولوگوں کو یرغمال بنادیں اور اپنی پسند کا اسلامی ایڈیشن لوگوں پر مسلط کردیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ جو لبرل طبقہ اگر انہیں لبرل کہنا صحیح ہو حالانکہ مغربی اصطلاح کے تحت بھی یہ طبقہ ہرگز لبرل نہیں ہے بلکہ مغربی مفادات کی حفاظت کرنے والا ان کا آلہ کار ایک کرپٹ اور خود غرض طبقہ ہے جو بد قسمتی سے ملک پر قابض ہے ۔ یہ طبقہ اس ملک کی حفاظت میں قطعاًناکام ہوچکاہے۔ اس طبقے کی باگ ڈور اس ملک کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کے پاس ہے ۔ جس کی کرپشن اور غلط سوچ کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکاہے۔ یہ اس ملک کے نفس پرست اور خود غرض سیاسی قیادت کو وجود میں لانے والا ہے اور اس کے ساتھ مل کر ملک و قوم کو برباد کررہاہے ۔ اس پورے طبقے کے ہاتھ میں ملک محفوظ نہیں ہے ۔ انہیں اپنی ناکامی تسلیم کرلینی چاہیے۔ ملک کو ایک دیانتدار اور امین قیادت کی ضرورت ہے۔ امانت و دیانت قیادت کی پہلی صفت ہے۔ایک جرات مند قیادت جو امریکہ سے کہہ سکے کہ وہ امریکی جنگ کو اپنی قوم پر مسلط کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے ۔ اپنی قوم سے لڑنا ممکن نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے اس قیادت کو دستبردار ہونا چاہیے۔ سول ملٹری ،بیوروکریسی سمیت نا م نہاد بڑی جماعتیں ملک کو ایک رکھنے میں ناکام ہیں۔ امریکی پالیسی کے تابع چلنے والے لوگ بالآخر ہمیں ایک ایسے انجام سے دوچار کردیں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کی بجائے بھارت کے زیر اثر بلوچوں ، پختونوں ،سندھیوں اور پنجابیوں کے نیم خودمختارعلاقے ہوں گے جو اندرونی افراتفری کا شکار اور قومی عزت نفس سے محروم ہوں گے۔ ہماری سیاسی قیادت بودی ہے اور اس انجام سے قطعاً بے خبر امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئی ہے ۔ قوم میں جو زبردست جذبہ جہاد اور شوق شہادت پایا جاتاہے ہمارا دشمن اس جذبے کو خود ہمارے خلاف استعمال کرنے میںکامیاب ہے ۔ اگر حکومت ملاکنڈ میں نظام عدل نافذ کرنے میں مخلص تھی اور اس نے امریکہ کے کہنے پر اس معاہدے کو سبوتاژ نہیں کیا تویہ حکومت پورے ملک میں موجودہ فرسودہ عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کے لئے انقلابی اقدامات سے کیوں گریزکررہی ہے ۔ آج پاکستان میں انصاف کا کوئی دروازہ کھلانہیں ہے۔ این آراو کے تحت بڑی کرپشن کو معاف کردیاگیاہے۔ ملک و قوم کی باگ ڈور ایک نفس پرست طبقے کے ہاتھ میں ہے جو اپنے ذاتی مفادات سے ایک قدم آگے سوچنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ پریس پر ان عناصر کا کنٹرول ہے جن کے لئے قلم کا استعمال اور اپنی فنی مہارت مال تجارت ہے اور وہ مغربی سرمایے ،ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی او ز کے آلہ کار ہیں۔ مغرب اپنے سرمایے اور تنظیمی قوت کو استعمال میں لا کر ہمارے تمام قومی اداروں کو اپنے مفادات میں استعمال کررہاہے۔ ایسے میں ایک صحت مند ، بیدار مغز قیادت کی ضرورت ہے جو عوام الناس کی امنگوں اور آرزوئوں کو بیدار کرکے ایک عظیم الشان عوامی انقلاب برپا کردے۔ یہ اس ملک کو بچانے کا واحد راستہ ہے ۔قیادت عوام کے اندر میں سے ابھرے گی ۔ اس قیادت کے لئے سٹیج تیار ہو رہاہے۔ فوج کو بار بار آزمایا گیا اس نے ملک کے جمہوری اداروں اور دستو ر کو تباہ کرنے کے سوا قوم کو کچھ نہیں دیا۔ ایسے میں قوم و وطن اور اسلام کے شیدائیوں کا امتحان ہے ۔ ایک نئے ولولے کے ساتھ اٹھیں ۔ امریکہ ،بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کے مقابلے میں اپنی قومی سالمیت کی حفاظت کے لئے کھڑے ہوجائیں۔

Courtesy:dailyausaf