Tuesday, June 30, 2009

Pani Ki Kahani




Courtesy:Daily Waqt

ہیجڑوں کے حقوق اور سپریم کورٹ کا حکم نامہ




ہیجڑوں کے حقوق اور سپریم کورٹ کا حکم نامہ

احمدنور

چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کا فائدہ کسی اور کو ہوا کہ نہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے لیکن پاکستان کے خواجہ سرا (ہیجڑے) اس سے ضرور مستفید ہوئے ہیں۔ ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ دےکھنے میں آیا ہے کہ کسی اعلیٰ عدالت کے جج نے پاکستان میں موجود مخنثوں کو ایک شرمناک زندگی سے بچانے کے لیے اُن کا سروے اور رجسٹریشن کروانے کے ساتھ اُنہیں باقی پاکستانی شہریوں جیسے حقوق دینے کی بات کی ہے۔
Courtesy:Humshehri

16جون کو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس چودھری اعجاز احمد اور جسٹس محمود اختر شاھد صدیقی پر مشتمل سپریم کورٹ کے بنچ نے کہا کہ معاشرے میں رد کیے جانے والے خواجہ سراﺅں کی چاروں صوبوں میں رجسٹرےشن کی جائے اور سروے کر کے ایک رپورٹ مرتب کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ کیا والدین رضاکارانہ طور پر بچوں کو گُروﺅں کے حوالے کرتے ہیں یا کسی دباﺅ کے تحت ایسا کیا جاتا ہے۔ یہ ہدایت اےڈووکیٹ ڈاکٹر اسلم خاکی کی دائر کردہ درخواست کی سماعت کے بعد جاری کی گئی۔ یاد رہے کہ پاکستانی خواجہ سراﺅں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ اُنہیں بھی معاشرے میں بسنے والے دیگر افراد کی طرح حقوق دیے جائیں اور اُن کی رجسٹریشن کی جائے۔ ڈاکٹر اسلم خاکی نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ قدرتی طور پر کسی صلاحیت سے محروم فرد کو انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ خواجہ سراﺅں کو بھی انسانی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ عدالت نے کہا کہ محکمہ سوشل ویلفیئر کے سیکرٹریز خواجہ سراﺅں کا ڈیٹا اکٹھا کریں، اُن کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کیے جائیں اور دو ہفتوں میں رپورٹ پیش کی جائے۔

دوسری طرف سپریم کورٹ کے حکم کے بعد کراچی میں خواجہ سراﺅں نے اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد کے لیے ایک تنظیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ تنظیم کے قیام کا اعلان خواجہ سرا بندیا رانا یا بندیا باجی نے 19 جون کو کراچی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔ بندیا کراچی کے خواجہ سراﺅں کی کمیونٹی میں گُرو کی حیثیت رکھتی ہیں۔ 23 جون کو ہفت روزہ ”ہم شہری“ کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے بندیا رانا نے بتایا کہ اُن کی تنظیم کا نام (Participatory Organisation for Empowerment of MSM and Transgenders) رکھا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آہستہ آہستہ وہ تنظیم کا دائرہ دوسرے صوبوں میں بھی بڑھائیں گی۔ بندیا نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ”ہم چیف جسٹس کے سچے دل سے شکر گزار ہیں کہ کم از کم اُنہوں نے خواجہ سراﺅں کو انسان سمجھا اور ہماری رجسٹریشن کروانے کا حکم جاری کیا۔ اس سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور ہم نے خواجہ سراﺅں کے مسائل کے حل کے لیے تنظیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔“ بندیا نے کہا کہ اُن کی کمیونٹی کو عام شہریوں کی لسٹ میں شامل ہی نہیں کیا جاتا ہے، نہ حکومتی سطح پر اور نہ ہی عوامی سطح پر اُنہیں انسان سمجھا جاتا ہے حالانکہ ہم میں صرف ایک قدرتی نقص ہے ورنہ ہم بھی وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو کوئی بھی عام شہری کر سکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ معاشرے میں دھتکارے جانے کی وجہ سے پہلے ہمارا گزر بسر ناچ کر ہوتا تھا لیکن کیبل کے آنے کی وجہ سے وہ کام بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ دوسرا ذریعہ معاش شادی بیاہ تھے لیکن وہاں نچوانے کے لیے اب طوائفوں کو فوقیت دی جاتی ہے لہٰذا ہمارے پاس سڑکوں پر مانگنے کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا جو خواجہ سرا یا زنانے کچھ پڑھ لکھ جاتے ہیں اُنہیں نوکریاں نہیں دی جاتیں بلکہ اُن پر فقرے کسے جاتے ہیں۔ بندیا نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ خواجہ سرا تعلیم حاصل کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ پاکستان میں اُن کے ساتھ ہتک آمیز اور امتیازی رویہ برتا جاتا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ پاکستان بھر کے مخنثوں کی خواہش ہے کہ شناختی کارڈ میں اُنہیں مرد لکھنے کے بجائے تیسرا خانہ بنایا جائے جس میں اُن کو خواجہ سرا لکھا جائے۔

بندیا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تیسری صنف کی دو اقسام ہیں۔ ایک تو وہ جو پیدائشی طور پر نہ مرد ہوتے ہیں نہ عورت، اُنہیں خواجہ سرا یا ہیجڑا کہا جاتا ہے جبکہ دوسری قسم زنانوں کی ہے جو جسمانی طور پر تو مرد ہوتے ہیں لیکن اُن کی عادات ہیجڑوں کی طرح کی ہوتی ہیں۔ بندیا رانا نے حکومت اور عام لوگوں سے اپیل کی کہ خواجہ سراﺅں کو بھی انسان سمجھا جائے اور جب حکومت عام شہریوں کے لیے کوئی فنڈ مختص کرتی ہے تو اُن کی فلاح و بہبود کا بھی خیال رکھے۔ تاہم خواجہ سراﺅں کی بہتری کی گنجائش اسی صورت میں نکل سکتی ہے کہ حکومت کو اُن کی صیح تعداد کا علم ہو۔

پاکستان میں خواجہ سراﺅں کی تعداد کے بارے میں مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں خواجہ سراﺅں کی تعداد 10 لاکھ ہے لیکن اس تعداد سے اتفاق کرنا مشکل ہے کیونکہ ایک ارب آبادی والے ملک بھارت میں ان کی تعداد 10 لاکھ ہے جبکہ پاکستان کی آبادی 16 کروڑ ہے۔ اسلم خاکی ایڈووکیٹ نے پاکستان میں ہیجڑوں کی تعداد 80,000 بتائی ہے لیکن یہ بھی محض ایک اندازہ ہے۔ پاکستان میں ہیجڑوں کے حقوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو بنے 62 برس گزر چکے ہیں لیکن حکومتی سطح پر اُن کی صحیح تعداد کا پتا آج تک نہیں چلایا گیا ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ خواجہ سراﺅں کی رجسٹریشن کا عمل شروع کرے تاکہ ان کی صحیح تعداد کا اندازہ لگایا جا سکے اور ان کے مسائل پر روشنی ڈالی جا سکے۔

ایک ہزار قبل مسیح میں ہیجڑوں کو معاشرے میں اس قدر تضحیک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا جتنا کہ آج دور میں، کیونکہ پُرانے وقتوں میں اُنہیں ہیجڑا یا خُسرہ کہنے کے بجائے خواجہ سرا کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ مُغل دور میں اُنہیں قابل اعتماد مشیر کا درجہ دیا جاتا تھا۔ قرون وسطیٰ میں خواجہ سرا شہزادوں اور شہزادیوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے کے فرائض انجام دےتے تھے۔ آج اُنہیں نہ صرف معاشرے میں دھتکار دیا گیا ہے بلکہ اپنے ہی گھر میں رہنے کے لیے اُن کے پاس کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ بھکاریوں کی طرح بھیک مانگنے پر مجبور ہیںجس کی مثالیں ہمیں ٹریفک کے اشارے پر مانگتے ہوئے ہیجڑوں کی صورت میں ملتی ہیں جن کے منہ پر میک اپ کی تہیں جمی ہوتی ہیں اور وہ لوگوں سے ٹھٹے مذاق کر کے پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں۔ تاہم میک اپ کی اس تہہ کے نیچے عام انسانوں کی طرح زندگی کزارنے کے خواب اور خواہشیں ہوتی ہیں جو ہمیں اور ہماری حکومت کو نظر نہیں آتی ہیں۔

عام لوگوں کے ذہن میں ہیجڑوں کے بارے میں سوچتے ہوئے ایک ایسے شخص کا خاکہ اُبھرتا ہے جس نے گرمی ہو یا سردی ہمیشہ بھڑکیلے رنگوں والا لباس پہنا ہوتا ہے،جو اپنے بڑے بڑے ہاتھوں سے زوردار تالیاں بجاتاہے اور اپنے کولھے مٹکاتا ہے، لوگوں کو ٹھٹے مذاق کر کے ہنساتا ہے اور جہاں سے گزرتا ہے لوگ اس سے حظ اٹھاتے ہیں۔ ہیجڑوں کے بارے میں سوچتے ہوئے لوگوں کا ذہن اس کے جسم سے آگے نہیں جاتا۔ مردانہ جسم اور نسوانی روح کے حامل خواجہ سراﺅں کو ہمارے معاشرے میں عزت و تقریم دینا تو درکنار انہیں انسان بھی نہیں سمجھا جاتا ہے بلکہ اُن کو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے حالانکہ خواجہ سرا ﺅں میں صرف ایک قدرتی خامی ہے کہ اُن کا تعلق تیسری جنس سے ہے لیکن باقی ہر لحاظ سے وہ ہماری طرح عام انسان ہیں جو ہماری طرح کے جذبات اور محسوسات رکھتے ہیں۔ معاشرے میں خواجہ سراﺅں کے ساتھ لاتعلقی کا یہ عالم ہے کہ وہ ماں جو اپنے بچے کو نو مہینے تک کوکھ میں رکھتی ہے، اس کے تیسری جنس سے تعلق ہونے کی بنیاد پر اُسے ہیجڑوں کے گُرو کے سپرد کر دیتی ہے۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کا بچہ صحت مند پیدا ہو اور صحت مند بچے کی پیدائش پر ایک فطری خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ آپ تصور کریں کہ ایک والد فکر مندی سے آپریشن تھیٹر کے باہربچے کی پیدائش کی خبر سننے کے لیے بے تاب ہے۔ اس صورتحال میں ایک گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد ڈاکٹر باہر آتا ہے اور باپ کو بتاتا ہے کہ بچہ صحت مند پیدا ہوا ہے۔ مضطرب باپ اپنے بچے کی جنس کے بارے میں پوچھتا ہے تو ڈاکٹر اُسے بتاتا ہے کہ بچہ ہیجڑا ہے۔ ایک لمحے میں صحت مند بچہ پیدا ہونے کی خوشی ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ باپ کے ذہن میں مختلف سوالات جنم لینا شروع کر دیتے ہیں مثلاً یہ کہ اُس کے ساتھ یہ کیوں ہوا؟ اُس سے ایسا کیا گناہ سرزد ہوا جس کی سزا اُسے ایک ایسے بچے کی صورت میںملی جو نہ مرد ہے نہ عورت؟ وہ اپنی بیوی کو کیا بتائے گا اور یہ خبر سُن کر اُس کی بیوی کا کیا حال ہوگا؟ اُس کے ہمسائے اُن کے خاندان کے بارے میں کیا سوچیں گے؟محلے کے لوگ اور دوست احباب کیا سوچیں گے؟ ان سارے سوالات کے بعد بچے کی پیدائش کی خوشی نفرت میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے اور وہ اپنے ہی خون سے جان چھڑانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ ہیجڑوں کا گُرو کسی طرف سے بھنک پا کر اُن کے گھر پہنچ جاتا ہے اور پہلے سے متزلزل والدین کو مطمئن کر کے اُن کا بچہ لے جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہیجڑوں کو بدنامی کا داغ سمجھا جاتا ہے۔ معاشرے کی اس بے رُخی کے باعث والدین کے پاس کوئی اور دوسرا راستہ نہیں بچتا ہے۔

باشعور شہری ہونے کے ناتے ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خواجہ سرا عام انسان ہیں اور اُن میں صرف ایک خامی ہے جو قدرتی ہے۔ اگر اندھے بہرے اور لنگڑے لُولے افراد پاکستانی شہری ہونے کا لطف اُٹھا سکتے ہیں تو خواجہ سراﺅں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جا سکتا۔ اُنہیں مختلف معاشرتی بُرائیوں سے بچانے کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اُنہیں عام انسان سمجھنا شروع کر دیں۔ مزید یہ کہ حکومت اُن کے لیے نوکریوں کا بندوبست کرنے پرسنجیدگی سے غور کرے۔


فرقہ پرستی کے ذمہ دار کون؟ طالبان یا حکومت؟




عامر حسینی

آپریشن راہ راست مالاکنڈ میں جیسے جیسے کامیابی کے مراحل طے کر رہا ہے ویسے ویسے مذہبی دہشت گردوں کی صفوں میں کھلبلی کے آثار نظر آ رہے ہیں، حکومت پاکستان نے فوج کو جنوبی وزیرستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا حکم دیا ہے۔ جانی خیل میں ایف سی کا قلعہ دوبارہ کنٹرول میں آگیا ہے۔ جنوبی وزیرستان میں بیت اللہ محسود کے ہیڈ کوارٹر مکین کے گرد بھی فوج اور ایف سی گھیرا تنگ کر رہی ہیں۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دہشت گردی کے خلاف یہ فیصلہ کن لڑائی جہاں”تحریک طالبان“ کی کمر توڑ رہی ہے وہیں ان کو بے نقاب کرنے میں بھی ممدو معاون ثابت ہو رہی ہے۔ ”تحریک طالبان“ نے پہلے تو ”میڈیا“ پر اپنا غصہ نکالا اور اسے میڈیا سے یہ شکایات پیدا ہو گئیں کہ وہ انہیں منفی طور پر پیش کر رہا ہے۔ پھر وہ ان علما اور مذہبی سکالرز کے دشمن ہو گئے جو پاکستان میں ” تحریک طالبان“ کو فساد فی الارض کا مرتکب قرار دے رہے تھے۔ بیت اللہ محسود کے رفیق خاص خود کش حملہ آوروں کے تربیت کنندہ قاری حسین محسود کے ایک فدائی نے جامعہ نعیمیہ میں ممتاز سنی عالم دین ڈاکٹر سرفراز نعیمی سمیت 5 علما وطلبا کو شہید کر ڈالا۔ ایک دوسرے فدائی نے اپنے جذبہ جہاد اور اسلام سے محبت کا ثبوت اس طرح سے دیا کہ وہ نوشہرہ کی جامعہ مسجد میں جا گھسا اور وہاں نماز جمعہ پڑھنے والوں پر بارود کی بارش کر دی۔ اس سے اگلے دن جب پورے ملک میں احتجاج ہو رہا تھا تو جذبہ جہاد سے سر شار ایک اور فدائی ڈیرہ اسماعیل خان کی منڈی تجارت گنج میں جا گھسا اور اس نے وہاں ایک کار میں بم نصب کیا اور اسے اڑا دیا۔ تحریک طالبان سوات، تحریک طالبان خیبر ایجنسی، تحریک طالبان وزیرستان، تحریک طالبان باجوڑ، تحریک طالبان اورکزئی، تحریک طالبان کرم ایجنسی سب کے سب ایک طرف تو شیعہ، بریلوی، وہابی مسالک کے عوام، ان کی مساجد، امام بارگاہوں اور مدارس کو نشانہ بنائے ہوئے ہے تو دوسری طرف وہ بلامتیاز ان علما کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جو خود کش حملوں کو نا جائز کہہ رہے ہیں، جنہوں نے آپریشن راہ راست کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ وزیر ستان میں تحریک طالبان کی بنیاد رکھنے کی سب سے پہلی مخالفت مفتی نظام الدین شامزئی نے کی تھی۔ دارالعلوم کراچی بنوریہ ٹاﺅن کے مفتی نظام الدین شامزئی ” تحریک طالبان افغانستان“ سے گہرے روابط رکھتے تھے۔ وہ آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل محمود کے اس وفد میں شامل تھے جو طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر سے 9/11 کے بعد ملا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مفتی نظام الدین شامزئی طالبان پر زور دے رہے تھے کہ وہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو اقوام متحدہ کے حوالے کر دیں یا پھر انہیں افغانستان سے نکل جانے کا کہیں۔ اس موقع پر جنرل محمود نے ”طالبان“ کو مفتی نظام الدین شامزئی کی طرف سے دیے جانے والے مشورے کو مان لینے کا کہنے کی بجائے ڈٹ جانے کا کہا۔ مفتی نظام الدین شامزئی طالبان کے غیر حقیقت پسندانہ رویے سے مایوس ہوئے تھے۔ بعد ازاں جب کوہستان اور وزیر ستان میں عسکریت پسندوں نے جمع ہو کر پاکستان کے اندر” جہاد“ کا نعرہ لگایا اور خود کش حملے ہونا شروع ہوئے تو مفتی نظام الدین شامزئی نے اس کی سخت مخالفت کی اور ایسے حملوں کو خلاف اسلام اور حرام قرار دے دیا۔ اس فتویٰ کے فوراً بعد مفتی نظام الدین شامزئی کو شہید کر دیا گیا۔ مولانا حسن جان جو کہ دیو بندی مسلک کے صوبہ سرحد میں سب سے بڑے عالم تھے انہوں نے جب خود کش حملوں کے حرام ہونے اور ” تحریک طالبان“ کی طرف سے پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام کے خلاف لڑنے کے اعلان کو ناجائز قرار دیا تو انہیں بھی خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا۔

بیت اللہ محسود، قاری حسین محسود، مولوی فضل اللہ نے صرف یہی نہیں کہ خود کش حملوں کو غیر شرعی قرار دینے والے علما کو بلا لحاظ مذہب و مسلک شہید کیا بلکہ ان مسلح گروپوں کے ساتھ بھی جنگ کی اور کر رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کے اندر کسی قسم کی عسکریت پسند کارروائی کرنے سے انکار کیا۔ کمانڈر مولوی نذیر، کمانڈر بہادر گل، کمانڈر قاری زین عثمان کے گروپوں سے بیت اللہ محسود کا کئی بار خون ریز تصادم ہوا۔ کہا جا رہا ہے کہ شمالی وزیرستان کے اندر کام کرنے والے عسکری گروپوں نے بیت اللہ محسود کی پاکستان کے اندر کارروائیوں پر شدید اعتراض کیا ہے۔ خود جنوبی وزیرستان میں اس کے خلاف عسکریت پسندوں میں بغاوت کے آثار نظر آ رہے ہیں۔

اصل میں دیکھا جائے تو صورت حال ایسی ہے کہ وزیرستان سے لے کر باجوڑ ایجنسی تک قبائل کے یہ علاقے عملاً جنگی وار لارڈز کے قبضے میں ہیں اور یہ وار لارڈز اس پورے علاقے میں اپنی متوازی حکومت قائم کر کے اسلحہ، منشیات، اجناس و دیگر اشیا کی سمگلنگ کے پورے نیٹ ورک کو اپنے لیے دولت، طاقت اور پاور سٹیٹس قائم کرنے کا ذریعہ بنا چکے ہیں۔ ان کا پہلا نشانہ حکومتی عمال، ملک، لنگی سردار اور وہ تمام قبائل تھے جو ان کی راہ کا پتھر تھے۔ انہوں نے اپنی طاقت کے جواز کے لیے ایک مذہبی لبادہ بھی اوڑھ رکھا ہے اور یہ لبادہ خاص مسلک کا ہے اس لیے اس لبادے کے تقاضے نبھانے کے لیے اور لوگوں میں اپنی طاقت کا جواز پیدا کرنے کے لیے دیگر مسالک کے ماننے والوں پر ظلم و ستم لازم تھا۔ ان کا قتل، ان کی املاک کی لوٹ مار، ان کے مدارس و مساجد اور مقدس مقامات پر قبضہ ضروری تھا۔ ان علاقوں پر اپنی عملداری قائم رکھنے کے لیے اور ریاست کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی فوجی کارروائی کو ناکام بنانے کے لیے ان جنگی وار لارڈز نے ایک طرف تو امریکی سامراجیت کے خلاف پائی جانے والی ایک عمومی نفرت کی فضا سے فائدہ اٹھایا۔ دوسری طرف فرقہ وارانہ جذبات بھی ابھارے، تحریک طالبان وزیرستان ہو یا تحریک طالبان سوات دونوں نے بڑی چالاکی سے خود کو ” دیو بندی مسلک“ کا ترجمان خود ساختہ بنا لیا اور اپنی کارروائیوں اور پراپیگنڈے سے یہ فضا بنانے کی کوشش کی کہ بریلوی اور شیعہ مسلک کے علما و مشائخ اور اس سے تعلق رکھنے والے دیگر دانشور سب کے سب امریکی لائن فالو کر رہے ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ تحریک طالبان کا سب سے بڑا حامی پرچہ ضرب مومن اور روزنامہ اسلام کہتا ہے۔ اس کے کالم نگار کہتے ہیں کہ بریلوی و شیعہ علما کا ” جہاد“ سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ تو محض دارالعلوم دیو بند سے وابستہ علما کا شیوا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ طالبان کے یہ مذہبی رہنما اور حامی مولانا فضل حق خیر آبادی، مفتی صدر الدین آزردہ ، شاہ عبدالعزیز دہلوی، مرزا مظہر جان جاناں دھلوی شہید، جنرل بخت خان روہیلہ، مفتی عنایت اللہ کافی شہید، مولوی احمد اللہ مدراسی شہید کو بھی ” دیو بندی“ قرار دیتے ہیں حالانکہ جن ادوار سے ان صاحبان علم و دانش و سپاہ گروں کا تعلق ہے اس وقت دارالعلوم دیو بند دارالعلوم بریلوی کا وجود ہی نہیں تھا۔ اور یہ سارے احباب صاحبان طریقت تھے اور طالبان جن اعمال کی بنا پر بریلویوں کے خون کو مباح ٹھہراتے ہیں ان کا بڑے ذوق و شوق سے اہتمام کرتے تھے۔

طالبان کے حامی نام نہاد دانشوروں، صحافیوں اور مذہبی لبادہ اوڑھے سیاسی نابغے الٹی گنگا بہاتے ہیں۔ وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت گری کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے علما و مشائخ کو ” فرقہ پرستی پھیلانے“ کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔ وہ ان علما و مشائخ کی طرف سے اپنے ارادت مندوں کے اندر” تحریک طالبان“ کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کے عمل کو امریکا نوازی قرار دے رہے ہیں گویا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ” طالبان“ یونہی لوگوں کو بے گناہ مارتے رہیں، شیعہ، بریلوی اور وہابی علما و مشائخ اور عوام کا قتل ہوتا رہے ان کے مزارات اور امام بارگاہیں نشانہ بنتی رہیں اس پر وہ خاموشی اختیار کریں یا پھر یہ کہہ کر جان چھڑالیں کہ یہ طالبان نہیں بلکہ کوئی اور لوگ ہیں۔ مولوی فضل اللہ، بیت اللہ محسود، قاری حسین محسود سمیت قاتلوں کو ہیرو کا خطاب دے دیں تو یہ عمل عین اسلام اور بمطابق شریعت ہو گا لیکن اگر ان کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا اور شر پسندوں کے چہروں سے نقاب نوچے تو پھر یہ فرقہ پرست ہوں گے۔ امریکا نواز ہوں گے ان کا قتل عین جہاد اور عمل باعث ثواب ہو گا۔

پروفیسر منور حسن امیر جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمن امیر جمعیت العلمائے اسلام، سی آئی فنڈڈ جہاد افغانستان کے انسٹرکٹر جنرل (ر) حمید گل، سابق چیف آف آرمی سٹاف مرزا اسلام بیگ، آمروں کی کاسہ لیسی میں مشاق ریٹائرڈ بیورو کریٹ روئیداد خان، صدر تحریک انصاف عمران خان سمیت درجنوں لوگ ایسے ہیں جو مظلوموں کی آہ و پکار اور ان کے چیخنے چلانے پر بھی پابندی لگانا چاہتے ہیں یہ سب کے سب طالبان کے ہاتھوں عوام کے مارے جانے پر فوراً یہ توضیح پیش کرتے ہیں کہ یہ سب امریکی حملوں کا رد عمل ہے اور اپنے تئیں اسے انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ خود کش یا ٹائم بم دھماکے کرتے ہیں ان کے پاس دفاع نہیں فقط انتقام اور غصہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپریشن بند ہو جائے اور ڈرون حملے نہ ہوں تو خود کش بم دھماکے نہیں ہوں گے۔ امن ہو جائے گا لیکن یہ لوگ یہ نہیں بتاتے کہ آخر ” فوج“ کو ان علاقوں میں کیوں جانا پڑا۔ 9/11 سے قبل ملک بھر میں جو فرقہ وارانہ قتل ہو رہے تھے وہ کس چیز کا رد عمل تھے۔ بعد ازاں پورے ملک میں معصوم شہریوں کو بھرے بازار میں بم دھماکے سے اڑانا کس امریکی مفاد کو زک لگانے کے مترادف تھا۔

القاعدہ اور تحریک طالبان سمیت مذہبی دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کا ریکارڈ اٹھایا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کی انتقامی کارروائیوں کا سب سے زیادہ نشانہ معصوم مسلمان شہری، عورتیں، بچے، بوڑھے اور نوجوان بنے ہیں اور یہ کتنے سفاک اور ظالم لیڈر ہیں جو کمسن نو عمر بچوں کو بارود میں بدل کر بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ ان کا نظام انصاف عجب جزا و سزا کے ضابطے رکھتا ہے۔ یہ فرد جرم کسی پر لگاتے ہیں اور جرم کی سزا کسی اور کو دیتے ہیں۔ یعنی امریکی فضائیہ کے بم اور گولیاں بھی عراقیوں اور افغانیوں پر برسیں اور اس جرم کی پاداش میں خود کش بم دھماکوں سے مریں بھی مقتولوں کے رشتے دار، عزیز و اقارب اور ہم وطن اور نعرے لگیں برگ بر امریکا، برگ بش، قاتل،قاتل امریکا، خونی خونی بش، بش اور حملے نہتے معصوم شہریوں پر۔ انصاف کا یہ نظام اپنی مثال آپ ہے۔ عوام، حکومت اور فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی اس ہم آہنگی کی فضا کو سبو تاژ کرنے کے لیے تحریک طالبان اور اس کے حامی” فرقہ پرستی“ کا خطرناک حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان کو حمایت دینے والے نام نہاد مذہبی رہنما طالبان کے خلاف علما و مشائخ کے اندر اٹھنے والی مزاحمتی لہر کو کسی خاص مسلک کے خلاف مہم قرار دینے کے لیے کوشاں ہیں اور عجیب گورکھ دھندا ہے کہ لوگوں کو عقیدے کی بنیاد پر قتل کر دینے والے اور مقدس مذہبی مقامات کی بے حرمتی کرنے والوں کی حمایت کرنے والے بریلوی، دیو بندی، شیعہ فساد کا واویلا کر رہے ہیں۔ گو یا چور مچائے شور والا معاملہ ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بین المذاہب امن کانفرنس کاانعقاد ہو اور اس میں ” گستاخ خاکے“ بنانے والے شر پسندوں یا ’فتنہ‘ جیسی بد نام زمانہ فلم بنانے والے پروڈیوسر کو مدعو نہ کیا جائے اور وہاں ایسے افراد کی مذمت ہو اور ان کے حامی یہ شور مچانے لگیں کہ کانفرنس کے منتظمین امن کے خواہاں نہیں ہیں وہ مذاہب کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔

پاکستان میں مسالک کے درمیان امن اور افہام و تفہیم کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس امن کو خراب کرنے والے تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، کالعدم سپاہ محمد، جیش محمد کو بلایا جائے جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں جن کو بلانے کا مقصد گویا قاتلوں کو منصف ٹھہرانا ہے۔ سوات میں معاہدہ امن کے بعد مولانا صوفی محمد نے برملا اعلان کیا تھا کہ کسی طالب کو یا مولوی فضل اللہ کو قاضی طلب نہیں کرے گا نہ ہی تحریک طالبان نے سوات میں جو مظالم ڈھائے ہیں ان پر باز پرس ہو گی۔ یعنی مولانا صوفی محمد قاتلوں کے لیے فسادیوں کے لیے ” این آر او“ جاری کرنا چاہتے تھے اور ان کے حامیوں کا دوغلہ پن دیکھیے وہ مشرف کے این آر او کو بڑا سانحہ کہتے نہیں تھکتے جو فوج داری مقدمات اور سنگین جرائم پر مبنی مقدمات سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا اور نہ ہی اس میں مطلوب لوگوں کو کوئی رعایت دیتا ہے۔ جبکہ یہاں ”Henions crimes“ کے لیے عام معافی طلب کیے بغیر خود کو ہر سوال و جواب سے ماورا قرار دیا جا رہا تھا۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی سمیت سوات وزیرستان میں آپریشن کو روک دینے کا مطالبہ کرنے والوں سے پوچھنا چاہیے کہ اگر بالفرض ایسا کر بھی لیا جائے تو کیا مولوی فضل اللہ، بیت اللہ محسود، مولوی فقیر محمد، حکیم اللہ محسود، قاری حسین محسود سمیت وہ تمام طالبان جن پر سینکڑوں لوگوں کو قتل کرنے کا الزام اور پرچے درج ہیں کیا وہ خود کو قانون کے حوالے کریں گے اور مقدمات کا سامنا کریں گے؟ طالبان کے حامی مذہبی سیاستدانوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ اپنی سکیورٹی کے لیے حکومت سے پہلے سے موجود سکواڈ میں مزید سکواڈ کا اضافہ مانگتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس کمانڈوز کی ایک گارڈ اور تین حفاظتی بم پروف، بلٹ پروف گاڑیاں موجود ہیں وہ مزید گاڑیاں، اسلحہ اور سکیورٹی گارڈ مانگ رہے ہیں۔ پروفیسر سید منور حسن، عمران خان، جنرل حمید گل، مرزااسلم بیگ سمیت کوئی بھی شورش زدہ علاقوں میں معاہدوں کے دوران اور معاہدے ٹوٹنے کے بعد دورہ نہیں کر سکا۔ عوام میں جہاد پراجیکٹ کے فساد ہونے کی قلعی کھلتی جا رہی ہے۔ اس بے وقعتی اور بے عزتی کا واضح ثبوت ہمیں فروری 2008ء کے انتخابات میں مل سکتا تھا لیکن جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا ڈرامہ رچا دیا اب شاید اسی لیے جماعت اسلامی کے امیر پروفیسر منور حسن اپنے بیانات میں بار بار کہتے ہیں کہ انتخابات اور جمہوریت مسئلے کا حل نہیں ہے وہ ”مڈٹرم الیکشن“ کو بھی اب اپنے لیے فائدہ مند تصور نہیں کرتے کیونکہ مسلم لیگ ن ان کے داﺅ میں نہیں آ سکی۔ گویا انگور کھٹے ہیں والا معاملہ ہے۔


Courtesy:Humshehri

Imran khan

Sunday, June 28, 2009

Who Are Taliban

The Political Crisis In Iran




Courtesy:Mazdour Jeddojuhd

The Capital Tehran Of Iran









Courtesy :Mazdour Jeddojuhd

Friday, June 26, 2009

Urdu Feature:Police Vs Terrorism









Courtesy:Jang Group

ڈاکٹر سرفراز نعیمی کا قتل اور طالبان مخالف اتحاد


عون علی
12
جون بروز جمعہ لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں معروف دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ کے اندر ایک
خود کش بم دھماکے میں جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی سمیت پانچ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ڈاکٹر سرفراز نعیمی مسجد سے متصل اپنے دفتر میں طالب علموں سے ملاقات کر رہے تھے کہ اس دوران ایک نو عمر لڑکا وہاں آیا جس نے مولانا نعیمی کی موجودگی کی تصدیق کی اور اس کے ساتھ ہی خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ مرحوم سرفراز نعیمی کو بروز ہفتہ سرکاری اعزاز کے ساتھ جامعہ نعیمیہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے عزیز و اقارب نے واضح کیا کہ مرحوم کو گزشتہ کئی ہفتوں سے دھمکی آمیز پیغامات موصول ہو رہے تھے۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے قتل کی ایف آئی آر میں ان کے بیٹے راغب حسین نعیمی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے والد کالعدم تنظیم تحریک طالبان کی وطن دشمن اور ملکی سلامتی کے منافی سرگرمیوں پر شدید تنقید کر رہے تھے، انہوں نے دیگر علما کے ساتھ مل کر خود کش حملوں کے خلاف ایک فتویٰ بھی دیا تھا جس پر طالبان ان سے سخت نالاں تھے۔ مدعی راغب حسین نعیمی کے مطابق ان کے والد کو بیت اللہ محسود کی ایما پر قتل کیا گیا ہے۔ 12 جون ہی کے روز درہ آدم خیل کے علاقے میں طالبان کماندار حکیم اللہ محسود کے مبینہ نائب سعید حافظ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ سعیدحافظ نے برطانوی خبررساں ادارے کو فون پر بتایا کہ یہ حملہ طالبان اور خود کش حملوں کے خلاف بیانات کا ردعمل تھا۔
14 مئی کو برطانوی اخبار”دی ٹائمز“ میں شائع ہونے والے انٹرویو میں مولانا سرفراز نعیمی کا کہنا تھا ”طالبان اسلام کے نام پر بد نما داغ ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم طالبان کاقلع قمع کرنے کے لیے حکومت اور فوج کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کے بقول اگر ایک کمرے میں سو آدمی بیٹھے ہوں اور ایک کے پاس بندوق ہو تو وہ بندوق والا آدمی دوسروں کی نسبت نمایاں نظر آئے گا۔ طالبان کا بھی یہی حال ہے وہ تعداد میں اتنے زیادہ نہیں ہیں تا ہم اسلحے کے زور پر وہ اسلام کی شناخت پر غالب نظر آتے ہیں“۔
ملک میں کسی مذہبی رہنما کی جانب سے طالبان کی اس طرح دوٹوک مخالفت کی بہت کم مثالیں سامنے آئی ہیں۔ تا ہم چھ مئی کے بعد یہ صورت حال بڑی حد تک تبدیل ہو گئی جب اہل سنت کی 22 نمائندہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے طالبان کی مخالفت اور مالا کنڈ ڈویژن اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں فوجی کارروائی کی حمایت کرتے ہوئے لاہور میں ” سنی اتحاد کونسل“ کے نام سے ایک مشترکہ اتحاد قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ مولانا سرفراز نعیمی اس اتحاد کے بانی ارکان میں سے تھے ۔ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے طالبان کی مخالفت اور مالاکنڈ ڈویژن اور دیگر علاقوں میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کی غرض سے لاہور اور اسلام آباد سمیت متعد د شہروں میں ریلیاں نکالیں اور کانفرنسیں منعقد کیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شامل بعض جماعتوں نے طالبان کے خلاف جنگ میں فوج کو رضا کار مہیا کرنے کے حوالے سے بھی بیانات دیے۔ ملک کے اکثریتی مذہبی دھڑے کی طرف سے طالبان کی دو ٹوک مخالفت کی غالباً یہ پہلی مثال ہے۔ تا ہم طالبان مخالف اتحاد قائم کرنے اور سوات یا دیگر علاقوں میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت سے بظاہر یہ امر واضح ہے کہ ملک کی معتدل مزاج مگر خاموش مذہبی اکثریت طالبان کے حوالے سے فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ چکی ہے۔
6 مئی کو لاہور میں اہل سنت کی نمائندہ تنظیموں کے اجتماع میں ملکی سطح پر طالبان مخالف مظاہروں اور ”پاکستان بچاﺅ، طالبان بھگاﺅ“ کے نام سے ایک مہم چلانے، وزیراعظم، ممبران پارلیمان اور چیف آف آرمی سٹاف کو خطوط ارسال کرنے اور جمعے کے خطبوں میں طالبان کی حقیقت عوام پر آشکار کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔اہلسنت تنظیموںکے اس اجتماع میں شامل تنظیموں کی طرف سے17 مئی کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس منعقد کروانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اس دوران مذہبی رہنماﺅں نے طالبان کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے صوفی محمد اور بیت اللہ محسود کی گرفتاری کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لانے پر زور دیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ مٹھی بھر مذہبی انتہا پسندوں نے افغان جہاد کے نام پر امریکی اور سعودی امداد کے بل بوتے پر ملک میں مسائل کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ اس دوران جماعت اہل سنت کے سربراہ مظہر سعید کاظمی کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غداروں اور محب وطن لوگوں میں فرق کرے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ مسلح افواج اور خفیہ اداروں کو طالبان کے حامیوں سے پاک کیا جائے۔ جماعت اہل سنت کے سربراہ کا کہنا تھا ” محب وطن اہل سنت ملک کو طالبان شرپسندوں سے نجات دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے“۔ اس دوران سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری کا کہنا تھا کہ اگر طالبان نے اپنی سرگرمیاں ختم نہ کیں تو اہل سنت جماعتوں پر طالبان کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنے کے لیے زور ڈالا جائے گا۔اس کانفرنس میں تنظیم مدارس اہل سنت کے اعلیٰ عہدیداروں، جمعیت علمائے پاکستان، نظام مصطفی پارٹی، عالمی تنظیم اہل سنت، کاروان اسلام، انجمن خدام صوفیا، مصطفائی تحریک، تحریک مشائخ اہل سنت، انجمن طلبا اسلام ، جماعت رضائے مصطفی، تحفظ ختم نبوت فاﺅنڈیشن، جماعت اہل سنت کونسل سمیت ملک بھر سے متعدد اہل سنت رہنماﺅں نے شرکت کی۔
آٹھ مئی کو لاہور پریس کلب میں میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے اہل سنت جماعتوں کے طالبان مخالف دھڑے ”سنی اتحاد کونسل“ کی طرف سے طالبان کے خلاف فیصلہ کن فوجی آپریشن کے مطالبے کو ایک مرتبہ پھر دہرایا گیا۔ طالبان کو اسلام دشمن طاقتوں کا ہتھکنڈا قرار دیتے ہوئے سنی رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ طالبان مسلمانوں میں نفاق پیدا کرنے اور دنیا بھر میں اسلام کو بد نام کرنے کی سازش کا حصہ بن چکے ہیں۔اس دوران سنی رہنماﺅں نے طالبان پر الزام عائد کیا کہ وہ صوبہ سرحد میں اب تک دس کے قریب مزاروں کو تباہ اور ہزاروں سنی مسلمانوں کو قتل کر چکے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شریک جماعتوں کے سربراہوں نے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ طالبان کی غیر اسلامی سرگرمیوں کے باعث دنیا بھر میں مذہب اسلام کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ سنی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ عوام کو چاہئے کہ وہ طالبان کے طرز عمل اور دہشت گردی کی تعلیمات کو مسترد کردیں۔ پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں دینی مدرسوں میں طالبان کے حامیوں کے اثرورسوخ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دینی مدارس کے ذمہ داران کو اس طرز عمل کا خاتمہ یقینی بنا نے کے لیے بھر پور کو ششیں کرنی چاہئیں۔
اگرچہ گزشتہ برس اکتوبر میں لاہور میں متحدہ علما کونسل کے ایک اجتماع میں بھی خود کش حملوں کو غیر اسلامی اور حرام قرار دیا گیا تھا تا ہم 17 مئی کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والی” کل پاکستان علما و مشائخ کانفرنس “خود کش حملوں کو محض غیر اسلامی فعل قرار دینے کے علاوہ ملک بھر میں طالبان مخالف جذبات کو باقاعدہ صورت بھی عطا کرتی ہے۔ اس کانفرنس کے دوران علما کے قتل اور مذہبی مقامات کی تضحیک کی بھی مذمت کی گئی اور مزاروں کو طالبان کی دست برد سے بچانے کا مطالبہ کیا گیا۔ جمعیت علمائے پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اس اجتماع میں سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ اس علاقے سے شر پسندوں کے مکمل خاتمے تک آپریشن جاری رکھا جائے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ طالبان نے اسلام کو بد نام کیا ہے، طالبان کا ایجنڈا اسلام مخالف اور سرگرمیاں شریعت سے متصادم ہیں۔ ان کے خلاف تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنا ہو گا۔ اس کانفرنس میں قرار داد منظور کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ہم خود ساختہ نام اور نہاد شرعی قوانین کے ذریعے غیر انسانی وغیر اخلاقی سزاﺅں کی مذمت کرتے ہیں اور ان اقدامات کو شریعت سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔
لاہور اور اسلام آباد میں طالبان مخالف مظاہرے بھی سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آئے۔ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے یہ آوا ز اس وقت اٹھائی گئی جب جماعت اسلامی سمیت ملک کی کئی مذہبی اور سیاسی جماعتیں سوات میں آپریشن بند کرنے اور مذاکرات شروع کرنے کی بے وقت راگنی آلاپ رہی تھیںاور دبے الفاظ میں حکومت پر یہ تنقید بھی کی جارہی تھی کہ صوفی محمد کے ساتھ امن معاہدے اور نظام عدل کے معاہدے پر عمل در آمد یقینی بنایا جائے۔ 3 جون کو تحفظ ناموس رسالت محاذ کے زیر اہتمام لاہور میں داتا دربار سے لے کر ریگل چوک تک ایک ریلی نکالی گئی ۔” پاکستان بچاﺅ، طالبان بھگاﺅ“ نامی اس ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس ریلی کی قیادت تحفظ ناموس رسالت محاذ کے سربراہ مرحوم ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی نے کی جبکہ مفتی محمد خان قادری، خواجہ قطب الدین فریدی، محمد اطہر القادری، پیر سیف الرحمن، مولانا غلام محمد سیالوی، میاں محمد حنفی، ڈاکٹر عابد سیفی، عبدالرسول قادری اور سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری بھی اس ریلی میں شریک تھے۔ ریلی کے شرکا طالبان بھگاﺅ، ملک بچاﺅ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر سرفراز نعیمی مرحوم کا کہنا تھا کہ ملک میں کسی صورت امریکی شریعت نافذ نہیں ہونے دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”پاکستان بچاﺅ ریلی“ کامقصد سوات اور دیگر علاقوں میں طالبان مخالف فوجی آپریشن کی حمایت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فضل اللہ، صوفی محمد اور بیت اللہ محسود اسلام اور قوم کے مجرم اور آئین پاکستان کے غدار ہیں اس لیے دہشت گردوں کے مکمل صفایا کے لیے ضروری ہے کہ فوجی آپریشن جاری رکھا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے والے عناصر نام نہاد طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اس ریلی کے دوران یہ اعلان بھی کیا گیا کہ دس جون کو لاہور میں ایوان اقبال میں علما مشائخ سیمینار منعقد کیا جائے گا۔
دس جون کو لاہور میں ایوان اقبال میں تحفظ ناموس رسالت محاذ کے زیر اہتمام پاکستان بچاﺅ کنونشن منعقد کیا گیا۔ اس کنونشن کے مشترکہ اعلامیہ میں سوات میں جاری فوجی آپریشن کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیاگیا کہ حکومت سیاسی قائدین، دینی جماعتوں اور پاکستان دشمن عناصر کے دباﺅ میں آ کر طالبان کے خلاف جاری فوجی آپریشن میں وقفہ نہ کرے بلکہ اسے منطقی انجام تک پہنچائے۔ اس کنونشن میں مرحوم ڈاکٹرمحمد سرفراز نعیمی کے علاوہ صاحبزادہ فضل کریم، پیر عتیق الرحمن، ثروت اعجاز قادری، حاجی حنیف طیب، علامہ فرحت شاہ، مولانا نعیم نوری، میجر (ر) یعقوب سیفی، علامہ قطب الدین اور دیگر کئی رہنماﺅں نے شرکت کی۔ کنونشن کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ امریکہ پاکستان کو ختم کرنے کے لیے پاکستان مخالف عناصر کااستعمال کر رہا ہے۔اس سلسلے میں امریکہ کو اپنے منصوبوںکی تکمیل کے لیے آلہ کار مل گئے جو فرقہ واریت کی سازش کو پروان چڑھا کر اس سازش کی تکمیل کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم ملکی بقا کے لیے فوجی آپریشن کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے سرحدوں کے محافظین سے توقع کرتے ہیں کہ وہ طالبان کے خلاف جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچاکر دم لیں گے۔اس کانفرنس کے اعلامیہ میں واضح طور پر کہا گیا کہ بیرونی سرمائے کی تقسیم پر طالبان اور نفاذ شریعت کے گروہ میں قتل و غارت نے تمام شکوک و شہبات کو یقین میں بدل دیا ہے کہ یہ گروہ ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔مزید یہ کہ پاکستان کو صوفی محمد کی ڈنڈا بردار شریعت نہیں چاہیے اورپوری اسلامی تاریخ میں کبھی بھی منہ چھپا کر جہاد نہیں کیا گیا۔ اس اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ پا نچ ہزار خانقاہوں کے مشائخ نے اپنے لاکھوں مریدوں سمیت طالبانائزیشن کے خلاف مزاحمت اور قیام امن کے لیے ملک گیر تحریک شروع کرنے کااعلان کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں 15 جون سے ملک بھر میں پاکستان بچاﺅ مہم کا آغاز کیا جائے گا ۔
سنی تحریک کے سربراہ محمد ثروت اعجاز قادری کے مطابق ایک خاص طبقے کی طرف سے مذہب کے نام پر مذہب کے بنیادی اصولوں کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جارہا ہے اسے محض تماشائی بن کر برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی شر پسندی نے ان کی حقیقت واضح کر دی ہے۔ ثروت اعجاز قادری کے بقول طالبان کی صورت میں پیدا ہونے والا مسئلہ ہمارے مقتدر اداروں کی تین دہائی قبل کی سنگین غلطی کا نتیجہ ہے، اگر اب بھی اس صورت حال سے بہتر طور پر نہ نمٹا گیا تو مستقبل میں اس پر قابو پانا شاید ممکن نہ رہے۔سنی تحریک کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 90ء کی دہائی سے مساجد پر قبضے کے واقعات شروع ہوئے اور اب تک ملک بھر میں ہزاروں مساجد پر اسلحے کے زور پر قبضے کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کی بنیاد کس نے اور کس غرض سے رکھی اور اس کے لیے سرمایہ کہاں سے فراہم کیا جارہا ہے۔ثروت اعجاز قادری کے بقول ہم مصلحت پسندی کا شکار تھے تا ہم اب وقت آ گیا ہے کہ دو ٹوک لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ حساس اداروں کی دستاویزات اس بات کی گواہ ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے 80 فیصد سے زیادہ واقعات میں ایک خاص نظریے کے لوگ ملوث ہیں۔ یہ لوگ فرقہ واریت کو ہوا دے کر ملک کو غیر مستحکم اور بیرونی قوتوں کو ملک میں مداخلت کا جواز فراہم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ ثروت قادری کے بقول حالیہ کچھ عرصے میں سوات اور صوبہ سرحد کے دیگر کئی شہروں میں دس کے قریب مزاروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ سنی تحریک کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سوات اور صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں میں طالبان کے اثرو رسوخ کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں کا امن و امان داﺅ پر لگ چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج اور دیگر اداروں کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور طالبان کے ہمدرد عناصرسے خود کو پاک کر لینا چاہیے۔ ثروت قادری کے بقول کراچی میں اندازے کے مطابق چھ سے دس ہزار کے قریب لوگ طالبان کے لیے کام کر رہے ہیں۔ شاہ فیصل کالونی اور شہر کے دیگر کئی علاقوں میں ان عناصر کے مراکز قائم ہیں جن پر حکومتی اداروں کو کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتہا پسندوں کی طرف سے کئی اکابرین کی جان کو سخت خطرہ ہے، اگر حکومت کی طرف سے انہیں تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت جیسے مزید واقعات پیش آنے کا اندیشہ ہے ۔ ان کے بقول ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کے بعد سنی اتحاد کونسل اور پاکستان بچاﺅ تحریک اپنے اصولی مؤقف سے کنارہ کش نہیں ہو گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں اگلے چند روز میں پشاور میں ایک کانفرنس منعقد کی جائے گی اور ہم اسے سلسلے کو وہیں سے شروع کریں گے جہاں ڈاکٹر نعیمی کی شہادت کے بعد یہ رکا تھا۔
Courtesy :weekly Humshehri

پنجاب کا بدلتا ہوا دیہاتی کلچر


حسین

پنجاب کے دیہات نے گزشتہ دوعشروں کے دوران بہت زیادہ تیزی کے ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کیا اور ایسے خدوخال کو اپنایا ہے جو اِس کے ماضی کے ساتھ بالکل میل نہیں کھاتے۔ ایک خاص ٹھہراؤ اور دوستانہ روایات کے حامل دیہاتی کلچرجس کے نمایاں ترین پہلوؤں میں سیکولر رویے شامل تھے، افسوس کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ اب نہیں رہا۔ پرانی تمام خوبصورت روایات کو اُٹھا کر پھینک دیا گیا ہے اور اُن کی جگہ ایک خاص قسم کی شدت نے لے لی ہے۔ یہ سب کچھ سماجی ارتقا کے کسی نامیاتی اصول کے تحت نہیں ہوا بلکہ زبردستی اس تبدیلی کو لاگو کیا گیا ہے اور ریاست نے اس تبدیلی میں بڑی حد تک معاون کا کردار ادا کیا ہے۔ راسخ العقیدگی کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی اِس مخصوص تبدیلی نے اپنا پہلا قدم اگرچہ شہری سماج میں رکھا تھا لیکن اِسے جو قبولیت دیہاتی سماج سے حاصل ہوئی ہے وہ ابھی تک اِسے شہری سماج فراہم نہیں کرسکا۔ پاکستان کے ماہرین سماجیات خصوصاً ایسے علمائے سماجیات جن کی تحقیق کا دائرہ کار پنجاب کو اپنے احاطے میں لاتا ہے اِن کی اکثریت ابھی تک اس تیز تر اور بالکل نئی قسم کی تبدیلی کو پوری سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہی اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں پنجاب میں گزشتہ دوعشروں کے دوران نئی جنم لینے والی ثقافت اور کلچر کے بارے میں تجزیاتی تحریریں بہت ہی کم ملتی ہیں۔

ہمارے بہت سے دانشور پنجاب میں مذہبی انتہا پسندی اور جہادی کلچر کی نمود کو تو زیر بحث لاتے ہیں لیکن ان جزئیات کو چھوڑ دیتے ہیں جو اس نئے کلچر کی موجودگی کا شدت کے ساتھ احساس دلاتی ہیں اور جہادی کلچر کے پھیلاؤ کا موجب بنی ہیں۔ جب ہم تحقیق کاروں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو عموماًوہ ایک نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں افغانستان کی صورتحال نے ایک بالکل نئے کلچر اور ثقافت کو فروغ دیا ہے لیکن جو کچھ پنجاب میں ہو رہا ہے اور تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے اس کو معروضی انداز میں نہ تو پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی دیکھا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ دانشوروں اور محققین کا اپنا رجحان طبع ہے جو فطری طور پر اپنی توجہ شہروں کی طرف مبذول رکھتے ہیں اور دیہات کو مکمل طور پر نظرانداز کردیتے ہیں۔

میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو پنجاب ہمیں استاد اللہ بخش کی تصاویر اور 70ء کی دہائی میں تیار ہونے والی پنجابی فلموں میں دیکھنے کو ملتا ہے حقیقت میں اب اِس کا کوئی وجود نہیں۔ یہ ایک پرانی بات ہے جس نے تیزی کے ساتھ اپنے آپ کو لپیٹ لیا ہے اور نئے کلچر نے پوری طرح اس کی جگہ لے لی ہے۔ دیہات کے تصوراتی خاکے میں داخل ہونے والوں کو اب کہیں دور بانسری کی مدھر آواز نہیں سنائی دیتی بلکہ اس کی جگہ کلاشنکوف کی گولی کی سنسناہٹ یا پھر تیزی کے ساتھ تعمیر ہونے والی مساجد اور مدارس کے جدید لاؤڈ سپیکرز سے نکلنے والی فرقہ وارانہ اور جہادی گونج نے لے لی ہے۔ کوئی اس طرف توجہ نہ دے تو یہ اور بات ہے لیکن دیہاتی منظر نامہ ایک ایسے شدید خطرے کی نشاندہی کر رہا ہے اور اُس عفریت کی آمد آمد کا بگل بجا رہا ہے جس نے ہمارے قبائلی علاقوں میں اپنا کام شروع کردیا ہے اور ریاست اِس کے سامنے پوری طرح سرنگوں نظر آتی ہے۔

میں نے مثال کے لیے پنجاب کا ایک گاؤں چنا ہے اور وہاں گزشتہ دس سے پندرہ سال کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ہمیں پنجاب کے دیہات میں نمایاں طور پر دو مختلف کیفیات سے واسطہ پڑتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جن دیہات میں غیر مسلم خاندان آباد ہیں یا تھے وہاں پر تبدیلی کی نوعیت مختلف ہے اور جہاں غیر مسلم اقلیتوں کی کوئی نمایندگی نہیں وہاں نوعیت تھوڑی مختلف ہے۔

موضع رتووال ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں واقع ہے۔ رتووال ایک نیم پسماندہ اور اپنی آبادی اور مزاج کے حوالے سے ایک بالکل سیکولر گاؤں سمجھا جاتا تھا۔ قدیم روایت کے مطابق دو ہندو بھائیوں رتا اور پال نے اس گاؤں کو آباد کیا۔ تقریباً تین سو سال پرانے اس گاوٴں کو شروع میں رتا اور پال والا ڈیرہ کہا جاتا تھا جو آہستہ آہستہ رتووال بن گیا۔ تقسیم کے بعد (LOC)لائن آف کنٹرول اس گاوٴں کو تقریباً چھوتی ہوئی گزری اور اس وقت یہ لائن آف کنٹرول گاوٴں سے دوسو گز کے فاصلے پر ہے۔

1990ء تک اس گاوٴں میں 109خاندان آبادتھے جن میں 77مسلمان، 23ہندو، 8عیسائی اور ایک احمدی خاندان تھا۔ 77مسلمان گھرانوں میں 17اہل تشیع اور 60اہلسنت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ بالکل پر امن اور روایتی گاوٴں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کا مکمل نمونہ تھا۔ ہندوؤں کا ایک گھرانہ زرعی زمین کا مالک تھا جبکہ 22بے زمین خاندان مسلمان زمینداروں کی زمینوں پر کام کرتے۔ اِن کی عورتیں مسلمانوں کے گھروں میں کام کرتیں جبکہ کچھ نوجوان لڑکے سیالکوٹ میں سپورٹس کا سامان تیار کرنے والے کارخانے میں کام کرتے اور اچھی مزدوری پاتے۔

رتووال کا کوئی بھی باشندہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ گاوٴں کی تین سو سالہ تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا ہو جس کا تعلق کسی مذہبی تعصب پر ہو حتیٰ کہ تقسیم کے وقت جب مسلمان اور ہندو مہاجروں پر حملے ہو رہے تھے تو گاوٴں کے مسلمان باسیوں نے یہاں کے رہائشی ہندوؤں کی مکمل حفاظت کی بلکہ بیرونی بلوائیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں اپنے گھر وں میں پناہ دیدی۔ یہی وجہ تھی کہ ایک بھی ہندوخاندان اس گاوٴں کو چھوڑ کر بھارت نہ گیا اور اُنہوں نے یہیں پر رہنے کو ترجیح دی۔

1992ء میں پہلی مرتبہ ان خاندانوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ اب رتووال جہاں وہ صدیوں سے مسلمانوں کے شانہ بشانہ رہتے چلے آرہے ہیں ان کے لیے محفوظ جگہ نہیں رہا۔ 5فروری1992ء کو ”یوم یک جہتی کشمیر“ منانے والے تقریباً200افراد نے سیالکوٹ شہر جو اس گاوٴں سے 17کلو میٹر دور ہے بسیں اور ویگنیں کرائے پر لیں اور ان کے گھروں پر حملہ کر دیا۔ بلوائیوں کی سر براہی جماعت اسلامی سیالکوٹ کے رہنما کر رہے تھے جو ڈنڈوں اور ہاکیوں سے مسلح تھے اور ان کا مطالبہ تھا کہ یہ ہندوہیں انہیں زبردستی ہندوستان بھیجا جائے۔

گاوٴں کے باسی جو بلوائیوں سے متفق نہیں تھے انہوں نے مقابلے کی ٹھانی اور بلوائیوں کو مار بھگایا۔ بلوائیوں کو بتایا گیا کہ یہ ہندو ضرور ہیں لیکن صدیوں سے یہاں آباد ہیں اور ان کا بھارت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ان پر حملہ کرے یا انہیں ہراساں کرے۔ واضح رہے کہ رتووال کے ہندو اور عیسائیوں کی کوئی عبادت گاہ اس گاوٴں میں نہیں تھی نہ ہی کبھی ان لوگوں نے اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ گاؤں میں صرف ایک مسجد تھی جہاں جمعہ اور عیدین کے علاوہ اوسطاً چار سے پانچ نمازی باقاعدگی سے عبادت کرتے البتہ سار اگاؤں، بیساکھی، دیوالی، دسہرہ اور کرسمس کے مواقع پر انہیں اناج یا نقدی کی صورت میں تحائف وغیرہ ضرور دیتا۔ ہندو اور عیسائی خاندانوں میں شادی بیاہ وغیرہ پر تمام مسلمان گھرانے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈالتے اور یہ شادی کسی ہندو لڑکی کی نہیں بلکہ گاؤں کی ایک بیٹی کی شادی تصور کی جاتی۔

1992ء کا سال ختم ہونے تک اس گاؤں کے ہندو سہم چکے تھے کیونکہ دو مرتبہ انہیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلی مرتبہ پانچ فروری کو دوسری مرتبہ بابری مسجد کے واقعے کے بعد لیکن مسلمانوں نے انہیں بھر پور تحفظ فراہم کیا۔ جو ہندو لڑکے سیالکوٹ شہر میں ملازمت وغیرہ کرتے اور روزانہ گاؤں سے شہر جاتے تھے انہوں نے شہر جانا چھوڑ دیا اور گھروں پر چھوٹا موٹا کام کرنے لگے۔ رتووال کے ہندو باسی کرشن داس نے مجھے بتایا کہ کام پر انہیں عدم تحفظ کا شدید احساس ہوتا اوریہ خدشہ لاحق رہتا کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔

آج اس گاوٴں میں 5ہندو خاندان آباد ہیں جو معاشی مجبوریوں کے باعث بھارت نقل مکانی نہیں کر سکتے۔ 18ہندو خاندان گزشتہ برسوں میں بھارت جا چکے ہیں اور وہاں ان کا کوئی پر سان حال نہیں۔ وہ گاوٴں کے ہر مسلمان خاندان کو خط لکھتے ہیں اور بھارت جانے کے فیصلے کو سب سے خوفناک فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ ان 18خاندانوں کے 12افرادبھارت میں انتقال کر چکے ہیں۔ آخری خط گاوٴں کے ہر دلعزیز سنت رام کا جنوری 2008ء میں موصول ہوا جو اس نے جالندھر کے کسی ہسپتال سے لکھا تھا جس میں اس نے رتووال میں مرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ بھارت میں انہیں کوئی نہیں جانتا اور ان کے معاشی حالات بہت برے ہیں اور وہ سب چاہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اگر وہ رتو وال واپس

آجائیں تو اگر کوئی جہادی گروپ وہاں قتل بھی کر دے تو کوئی ہرج نہیں وہ رتووال میں آنے والی موت کو خوشی سے قبول کرلیں گے۔ مارچ میں سنت رام کی موت کی اطلاع اس کے بیٹے ہریش چندنے رتو وال والوں کو دی۔

رتووال کے ہندو کسی بیرونی حملہ آور کے خوف سے شاید کبھی بھی بھارت نہ جاتے لیکن ان کی نقل مکانی کا سبب وہ مقامی نوجوان جہادی تھے جنہوں نے کشمیر اور افغانستان کے ٹریننگ کیمپوں سے ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ہرپال، آنولہ، سیلم، بینی سلہریاں، جودھے والی، کرشنا والی، باجبڑہ گڑھی، میندروال، راموچک، اکھنور، بھلور، چوبارہ اور ضلع سیالکوٹ کے دیگر دیہات کے ہندو باسیوں کو مذہب تبدیل کرنے یا بھارت چلے جانے کا حکم دیا۔

جہادیوں کی خصوصی توجہ رتووال پر مرکوز رہی اور ایک رات کو تین نوجوان ہندو لڑکیوں کملیش ونتی، لاجونتی اور گنگا کو اغوا کر لیا گیا۔ مقامی تھانہ سبز پیر نے ہندو خاندانوں کا مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا اور اغوا کاروں کو پیغام پہنچایا گیا کہ وہ مغویوں کو لے کر کسی دوسرے شہر چلے جائیں۔ تین دن بعد خبر ملی کہ تینوں لڑکیوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ ایک جہادی گروپ کے مسلح افراد نے گاوٴں میں مٹھائی تقسیم کی اور ہوائی فائرنگ کی۔ دو ہفتے کے بعد معلوم ہوا کہ لاجونتی اور گنگا نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی ہے جبکہ کملیش ونتی اپنے شوہر کے ساتھ پشاور چلی گئی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق دونوں لڑکیوں کو قتل کیا گیا کیونکہ ان کا اصرار تھا کہ وہ مذہب تبدیل نہیں کریں گی اور انہیں اپنے گھروں کو جانے کی اجازت دی جائے۔ اس بار مقتول لڑکیوں کے لواحقین نے تھانے سے رجوع نہیں کیا اور اپنے گھروں کا سامان اور مویشی بیچنے لگے۔

ایک دن رتو وال کے باسیوں نے دیکھا کہ 18ہندو خاندان اپنے مکانات چھوڑ کر وہاں سے جاچکے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد گاوٴں والوں کو خط موصول ہوئے جن میں لکھا تھا کہ یہ خاندان بھارت کے شہر جالندھر پہنچ چکے ہیں۔ ان کے چھوڑے ہوئے مکانات پر حسب طاقت مقامی لوگوں نے قبضہ کر لیا اور امی چند خاندان جو پانچ ایکڑ زرعی اراضی کا مالک تھا اس کی زمین پر رینجر ز نے قبضہ کر لیا۔

رتو وال کے واحد احمدی خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تھوڑا مختلف ہے۔ خاندان کا سربراہ جو ایک رٹیائرڈ سکول ٹیچر تھا اور گاوٴں کے معزز افراد میں اس کا شمار ہو تا تھا جب اس کا انتقال ہوا تو اہل گاوٴں نے ایک جہادی تنظیم سے رجوع کرکے یہ فتویٰ حاصل کیا کہ انتقال کرجانے والے کو گاوٴں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جاسکتا۔ اس جہادی تنظیم نے شام کو جلوس نکالا اور دھمکی دی کہ اگر متوفی کو گاوٴں کے مسلمان قبرستان میں دفن کیا گیاتو اس کی لاش کو قبر سے نکال کر آگ لگا دی جائے گی۔ اگلے روز یہ احمدی خاندان گھر کے سامان اور ایک تابوت کے ساتھ رتو وال سے چلا گیا۔ کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ یہ خاندان ربوہ میں ایک مکان کرائے پر حاصل کر کے وہاں رہائش پذیر ہو گیا ہے۔

اب رتو وال کی عیسائی برادری کی باری تھی، گوجرانوالہ اورسمندری میں توہین رسالت کے واقعات نے غریب عیسائیوں کو خوفزدہ کر دیا کیونکہ ہندوؤں اور احمدی کا انجام ان کے سامنے تھا۔ جب گاؤں سے گزرنے والی سڑک پر ایک طلبہ تنظیم اور جہادی گروپ کے مسلح نوجوانوں نے ناموس رسالتﷺ کے حق میں جلوس نکالا اور ملزمان کو قتل کردینے کا مطالبہ کیا تو عیسائی برادری نے فیصلہ کیا کہ رتو وال کو چھوڑ دینا چاہیے۔ آٹھ میں سے چھ خاندان وہاں سے نقل مکانی کر گئے۔ جو دو خاندان ابھی تک وہاں رہائش پذیر ہیں ان کے معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کہیں اور جاکر رہائش اختیار کر لیں۔

گاوٴں کے معززین اور پر جوش نوجوانوں کا مؤقف ہے کہ ہندو محض اس لئے گاوٴں چھوڑ گئے کہ اِنہیں بیٹیوں کے لیے رشتے نہیں مل رہے تھے اور انہوں نے لڑکیوں اور لڑکوں کی شادیوں کے لیے بھارت نقل مکانی کی۔ احمدی خاندان کی نقل مکانی کو وہ اس کا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں جو اپنی مقدس سرزمین پر چلا گیا اور عیسائی خاندانوں کی نقل مکانی کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ ایک عیسائی نوجوان نے ایک مسلمان لڑکی کو اغوا کر لیا تھا اس لیے انہیں گاؤں سے نکال دیا گیا۔

-اس گاؤں میں اب تین مساجد ہیں اور ایک امام بارگاہ ہے۔ بڑی جامع مسجد کے نوجوان خطیب نے مجھے بتا یا کہ اب ماشاء اللہ ہمارا گاؤں ایک مثالی گاؤں ہے جہاں صرف مسلمان بستے ہیں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کی اکثریت یہاں سے جا چکی ہے جو باقی بچ گئے ہیں وہ بھی جلد یہاں سے چلے جائیں گے۔ رتووال کے کیس کو میں نے اس قدر وضاحت کے ساتھ اس لیے پیش کیا ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے 30برس اس گاؤں میں بسر کیے ہیں۔ اور اس گاؤں کا ہر واقعہ میں نے خود دیکھا ہے۔ میری دائی مائی گنگا ہندو تھی اور میرے لیے اس کا درجہ ایک ماں کا ساہے۔ میں نے گزشتہ سال ستمبر میں جب اس کا پتہ معلوم کر کے خط لکھا تو مجھے دو ہفتوں کے بعد جواب موصول ہوا جس میں مائی گنگا نے صرف یہ لکھا کہ میں مرنے کے قریب ہوں اور کوئی ہے جو مجھے رتو وال لے چلے تاکہ میں اپنی مٹی میں مر سکوں۔ اطلاعات کے مطابق گاؤں کے جہادی نوجوان اس کانام تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور فروری کے انتخابات میں انہوں نے ایک امیدوار کو محض اس لیے ووٹ دیے کہ اس نے گاؤں کا نام تبدیل کروانے کا وعدہ کیا تھا۔

یہ تو تھی رتو وال کی کہانی۔ ضلع سیالکوٹ کے تقریباً چونسٹھ دیہات میں صدیوں سے رہائش پذیر ہندو تقریباً ایسی ہی صورت حال کا شکار ہیں اور تیزی کے ساتھ بھارت اور اندرون سندھ نقل مکانی کر رہے ہیں۔ دیہاتی کلچر کی تبدیلی کے سوتے ضیا الحق آمریت، افغانستان جہاداور جہاد کشمیر سے پھوٹتے ہیں۔ جبکہ اس میں شدت 1990ء کے بعد دیکھنے میں آتی ہے۔ اچانک دیہات میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی جو سخت گیر مؤقف کے حامل تھے اور وہ نوجوان لڑکوں کو تبلیغ کرتے کہ جہاد ہی وہ راستہ ہے جو امت مسلمہ کو مسائل سے چھٹکارا دلوا سکتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دیہات کی مساجد جو روایتی طور پر بریلوی مکتبہ فکر کی مساجد سمجھی جاتی تھیں وہاں پر تبلیغی جماعت جو کہ دیوبندی مکتبہ فکر کے افراد کی جماعت ہے اس کے دورے بڑھ گئے اور دیہات میں جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی عموماً بہت کم دیکھنے کو ملتی تھی لوگ تقسیم ہونے لگے۔

ابتدا میں جہاد افغانستان کے لیے بھرتی مراکز جماعت اسلامی کے اثر ورسوخ والے علاقوں میں قائم ہوئے اور جنوبی پنجاب کے اضلاع میں دیو بندی اکثریت والے دیہات میں افغان جہاد کے لیے نوجوانوں کو تیار کیا جانے لگا۔ رحیم یار خان، بہاولپور، بہاولنگر اور ملتان جیسے اضلاع میں شدت پسند دیوبندی جماعتوں نے ان علاقوں میں شدت پسندی کو فروغ دیا اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جوق درجوق جہاد افغانستان کے لیے تربیت حاصل کرنے لگی۔ سیالکوٹ، گجرات، گوجرانوالہ، اوکاڑہ، قصور، فیصل آباد، جھنگ کے اضلاع میں جہاد افغانستان کے لیے زیادہ لوگوں کو اپنی طرف مائل نہ کیا جاسکا۔ لیکن جہاد کشمیر کے لیے ان علاقوں سے بہت زیادہ بھرتی کی گئی۔




ایک تربیت یافتہ نوجوان جب کنٹر، خوست اور قبائلی علاقوں سے واپس آتا تو وہ اپنے ہم عمر دوستوں میں سب سے ممتاز قرار دیا جاتا۔ نوجوان اس کی تربیت اور جدید ترین اسلحہ چلانے کی مہارت سے متاثر ہوتے اور ان میں سے کئی جہاد کے لیے تیار ہو جاتے۔ ان دیہات اور شہروں میں اگرچہ شدت پسند لوگوں کی تعداد زیادہ نہ تھی لیکن عام نوجوانوں خصوصاً دیہاتی نوجوانوں کو تیزی کے ساتھ جہاد کی تربیت اور عملی جہاد کی طرف مائل کیا جانے لگا۔ بچوں اور نوجوان لڑکوں کی بڑی تعداد ایسے مدارس کا رخ کرنے لگی جو شدت پسند نظریات کے حامل افراد اور جماعتوں نے قائم کر رکھے تھے۔

جیسے جیسے مدارس میں طلبا کی تعداد بڑھتی گئی جہاد کے لیے اور مختلف علاقوں میں ایک طرح کی ثقافتی تطہیر کے لیے عملی اقدامات کا آغاز کیا گیا۔ دیہات میں مدارس کے فارغ التحصیل نوجوانوں کی تعداد بڑھنے لگی جو تربیت یافتہ تھے اور ایک خاص جذبے کے تحت نہ صرف کشمیرمیں بھارت کو سبق سکھانا چاہتے تھے بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں ماحول کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنا چاہتے تھے۔

تربیت یافتہ اور جہاد سے ایک غازی کی حیثیت سے واپس لوٹے ہوئے نوجوان سب سے پہلے اپنے گھروں، رشتہ داروں اور عزیزواقارب کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کے ساتھ چونکہ ایک طاقت کا احساس وابستہ تھا اس لیے انہوں نے شروع میں اپنی رشتہ دار اور عزیز خواتین اور سکول وکالج جانے والی لڑکیوں کو مجبور کیا کہ وہ شرعی پردے کا اہتمام کریں۔ 90ء کی دھائی کے شروع نصف تک شہروں اور دیہات میں برقع اور سر منہ ڈھانپ کر تعلیم کے لیے جانے والی لڑکیوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہونے لگا۔ اس دوران کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں جہادی بھائیوں نے

پردے سے انکار کرنے والی عزیز رشتہ دار لڑکیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ اخبارات میں اس طرح کی خبریں بھی شائع ہوئیں کہ بعض مقامات پر لڑکیوں کو پردے کی پابندی نہ کرنے پر ان کے بھائیوں نے جان سے مار دیا۔

اگر رتووال جیسے گاؤں اور اس کے قریبی دیہات کی مثال پیش کی جائے تو آسانی کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ 90ء کے آغاز تک اس گاؤں سے 25لڑکیاں قریبی دیہات کے ہائی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتی تھیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی برقع پوش یا نقاب پوش نہ تھی۔ وہ روایتی دوپٹہ یا چادر استعمال کرتیں لیکن 95ء تک ان لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو نے لگا جو برقع پہنتی تھیں یا نقاب اوڑھتی تھیں۔ آج یہ صورت حال ہے کہ صرف اس گاؤں سے 100سے زائد لڑکیاں سکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں اور ان میں ایک بھی ایسی نہیں جو نقاب یا برقع استعمال نہیں کرتی۔ یہی صورت حال تقریباً پنجاب کے زیادہ تر دیہاتی علاقوں میں ہے جہاں زیر تعلیم لڑکیوں کو نقاب یا برقع اوڑھنے پر مجبور کیا گیا۔

'جہادی سرگرمیوں کے آغا زسے پہلے دو سے تین فیصد گھروں سے بچے مدارس میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے تھے لیکن یہ تناسب 2000ء تک 5سے7فیصد تک پہنچ چکا تھا اور آج وسطی پنجاب کے دیہات میں مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کا رحجان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور یہ تناسب 10فیصد سے زیادہ ہے۔
Courtesy Weekly Humshehri

Debate Into Debate





Sunday, June 7, 2009

ویزا نہ آتا تو اچھا تھا!




آصف فاروقی

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دبئی


کمرہ ہے پر دو چارپائیوں کے لیے چھوٹا، چھت بارش میں ٹپکتی ہے، چارپائی پر بستر نہیں ہے، بجلی کا جنریٹر تو ہے لیکن پٹرول کے پیسے نہیں، جائے رفع ہے لیکن غسل خانہ نہیں، میس کا کھانا ملتا ہے لیکن کھانے کے قابل نہیں اور دبئی ہے پر دیکھا نہیں۔

یہ ہیں وہ حالات جن میں ’دبئی چلو‘ کے خواب کے تعاقب میں یہاں پہچنے والے انڈیا، پاکستان اور بھارت سے آئے بعض مزدور اپنی زندگی کے اچھے برے دن گزار رہے ہیں۔

ویسے تو دبئی کی تعمیر میں مصروف غیر ملکی مزدوروں کی رہائش کے لیے ٹھیکے دار کمپنیوں کو سخت قوانین کے تحت مناسب بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ دبئی کے مضافات میں سونا پور اور القوض کے علاقوں میں اس نوعیت کے بے شمار مزدور کیمپ موجود ہیں جہاں دن بھر کی محنت کے بعد یہ کارکن رات گزارنے کے لیے آتے ہیں۔

دبئی میں دو ہفتوں کے دوران درجنوں کیمپوں کے معائنے کے بعد یہ تسلیم کرنا پڑا کہ دبئی کے بیشتر کیمپ مزدوروں کو مناسب رہائشی سہولت دیتے ہیں۔

ائیرکنڈیشنڈ کمرے (گو کہ حجم کے اعتبار سے یہ بہت بڑے نہیں ہوتے)، صفائی کا مناسب بندوبست، کھانا پکانے کے لیے تمام لوازمات کے ساتھ باورچی خانہ اور اگر کھانے کا انتظام بھی کمپنی کے سپرد ہے تو معیار اور مقدار کے حساب سے مناسب کھانا، مشترکہ لیکن صاف غسل خانے۔

لیکن دبئی میں کام کرنے والے تمام مزدوروں کے نصیب میں یہ ’عیاشی‘ نہیں ہے۔

دبئی کے تعمیراتی علاقے برشا (جنوبی) میں بنے متعدد مزدور کیمپ اس حقیقت کی ثبوت ہیں جہاں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آئے سینکڑوں مزدور ایسے حالات میں رہ رہے ہیں جنہیں غیر انسانی کہا جا سکتا ہے۔

دبئی میں ایک دوست کے ہمراہ جب ایسے ہی ایک مزدور کیمپ میں انتظامیہ کی اجازت کے بغیر پہنچا تو وہاں عجب منظر دیکھا۔

لکڑی کا ایک بے ہنگم سا کمرہ بنا ہے جس کے باہر چار نوجوان لکڑی جلا کر کھانا بنانے کو کوشش کر رہے ہیں۔

سکھ بیر سنگھ، تلک راج، وتر سنگھ اور سون سنگھ کا تعلق بھارتی پنجاب ہے۔ وہ دو برس سے اس ایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں۔

میرے استفسار پر تلک راج نے بتایا کہ میس سے کھانا تو آتا ہے لیکن اسے کھانے کا دل نہیں چاہتا۔ ’کبھی سالن میں تیرتی ہوئی بھنڈی کھائی ہے آپ نے۔ ہم سے بھی نہیں کھائی جاتی تو جس دن ’کھانا` کھانے کا من کرتا ہے خود ہی کچھ پکا لیتے ہیں‘۔

سکھ بیر سنگھ نے بتایا کہ برشا میں بننے والے ولاز کی تعمیر کے لیے ایک بھارتی ٹھیکے دار نے انہیں ملازمت دے رکھی لیکن زندگی بہت مشکل بنا دی ہے۔

’چند دن پہلے بارش ہوئی تو کمرے میں پڑا سامان بھیگ گیا۔ اس میں راشن بھی تھا سب برباد ہو گیا‘۔

جب میں نے اس عجیب سے لکڑی کے ڈبے کو کمرہ تسلیم کرنے سے انکار کیا تو سکھ بیر جذباتی ہو گیا۔ ’کیا کریں صاحب، گھر والوں نے کتنی مشکل سے پال پوس کر بڑا کیا اور پتا نہیں کہاں سے پیسے جوڑ کر ہمیں یہاں بھیجا۔ اب ان کے لیے کچھ دن مشکل میں کاٹ لیں تو کیا برا ہے‘۔

سون سنگھ نے بتایا کہ ٹھیکے دار نے چار لوگوں کے لیے دو چارپائیاں اور ایک یہ کمرہ دیا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کمرے میں دونوں چارپائیاں پوری نہیں آتیں۔ اگر آجائیں تو باقی سامان کی جگہ نہیں بچتی اس لیے ایک چارپائی باہر پڑی رہتی ہے۔


’تو دو جنے اندر سوتے ہیں اور دو باہر‘۔ یعنی دو لوگ فی چارپائی۔

میرے اصرار پر مجھے کمرے کا معائنہ کرنے کے لیے اندر لے جایا گیا۔ پتہ چلا موم بتی نہیں ہے لیکن انڈیا سے آیا ٹارچ والا موبائیل فون کام آیا۔

چارپائی بھی عجیب سی لگی۔ ’خود بنائی ہے صاحب‘ سون سنگھ نے شرما کر بتایا اور اس پر پڑی ایک میلی سے موٹی چادر کو سون سنگھ نے بستر قرار دیا۔

’بغیر بجلی کے گرمی نہیں لگتی؟‘ میرے اس سوال کے جواب میں چاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر چاروں طرف پھیلی ریت پر ایک نظر ڈالی۔سکھ بیر نے بتایا کہ رات کو جب گرمی سے نیند نہ آئے تو قریب ہی لگے نلکے پر کپڑوں سمیت نہا لیتے ہیں۔

وتر سنگھ نے جو خاصی دیر سے خاموش بیٹھا تھا بتایا کہ اس نے ایک دن ٹھیکے دار سے ان سب باتوں پر احتجاج کیا تھا۔ ’اس نے دو راستے بتائے۔ ایک یہ کہ تین سو درہم ماہانہ کٹوا لو تو اچھی جگہ رہائش مل جائےگی، یا کام چھوڑ دو‘۔

’آٹھ سو درہم ملتے ہیں۔ تین سو ادھر ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ پانچ سو گھر بھیجتے ہیں جن میں سے مزید تین سو گئے تو گھر کیا بھیجیں گے؟‘۔

سون سنگھ کا کہنا تھا کہ ایجنٹ نے بارہ سو درہم کا وعدہ کیا تھا لیکن دبئی پہنچنے کے بعد آٹھ سو ملے۔

’اب تو اوور ٹائم بھی ختم ہو گیا ہے۔ ٹھیکے دار کہتا ہے کام نہیں ہے۔ بس جتنا ملتا ہے کرو ورنہ مزدور اور بہت مل جاتے ہیں‘۔

دبئی کی سیر اور گھومنے پھرنے کے بارے میں سوال پر سب کے سب قہقہہ لگا کر ہنسے اور دیر تک ہنستے رہے۔ تلک راج نے کہا کہ اتنے پیسے ہیں اور نہ وقت۔ ’سون سنگھ کے پیچھے پیدا ہونے والے بیٹے کی تصویر جبل علی میں انڈیا سے آنے والے ایک رشتہ دار کے پاس پڑی ہے۔ اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اسے لے آئیں جا کے، آپ گھومنے کی بات کرتے ہیں۔`

پھر بھی کچھ تو دیکھا ہو گا۔ ’ٹیکسی کا کرایہ بہت زیادہ ہے اس لیے ایک دن پیدل دبئی میرینا گئے تھے۔ رات کو واپس آئے تو اگلے دن کام پر نہیں جا سکے اتنے تھک گئے تھے۔ اس دن توبہ کر لی۔ ایک سال ہو گیا پھر اس ریگستان سے باہر نہیں نکلے‘۔

سون سنگھ نے کہا کہ اس طرح کے حالات میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اردگر بہت سے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کیمپ ہیں جو پاکستانی اور انڈین ٹھیکے داروں نے غیر قانونی طور پر بنا رکھے ہیں۔’شام کے وقت جب دل کبھی بہت اداس ہو تو بہت سارے مل بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے مذاق کرتے ہیں‘۔

سکھ بیر نے بتایا کہ ایسے میں سب اپنے اپنے قصے سناتے ہیں کہ انڈیا میں دبئی جانے کے شوق میں ایجنٹ کے دفتر کے کتنے چکر لگائے، کس کو رشوتیں دیں اور ویزے کے لیے کیا کیا منتیں مانگیں۔

’اب میں کبھی سوچتا ہوں کہ کچھ دن اور دبئی کا ویزا نہ آتا تو کتنا اچھا ہوتا‘۔

ٹراؤٹ اور طالبان !

وسعت اللہ خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

گوریلا جنگ کے عظیم ماہر ماؤزے تنگ کے بقول چھاپہ مار وہ مچھلی ہے جو عوامی تائید کے تالاب میں ہی زندہ رہ سکتی ہے۔۔۔۔ اگر ماؤزے تنگ کا یہ قول برحق ہے تو پھر مالاکنڈ کا تالاب جو تیس لاکھ افراد کی نقلِ مکانی کے سبب خشک ہوچکا ہے، اس میں متحرک بیشتر چھاپہ مار مچھلیوں کو تو اب تک تڑپ تڑپ کر مرجانا چاہیے تھا۔مگر محسوس یوں ہوتا ہے کہ مالاکنڈ کے دریاؤں اور تالابوں میں بہاؤ کے مخالف بہنے والی ٹراؤٹ مچھلیوں کی طرح اکثر طالبانی مچھلیاں بھی یا تو اوپر منتقل ہوگئی ہیں یا عوامی بہاؤ کے سنگ سنگ تالاب سے نکل گئی ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ مالاکنڈ میں فوجی ایکشن پہلے کی نسبت زیادہ تندہی اور سنجیدگی سے جاری ہے۔ لیکن جن لاکھوں بے گھروں کی بقا کے نام پر یہ کارروائی ہورہی ہے کیا انہیں بھی یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ رات کے بعد صبح ہونے والی ہے ؟؟؟

ہوسکتا ہے کہ کارروائی کے پیچھے بہترین نیت ہو لیکن کیا اس خوش نیتی کا عملی اقدامات کے ساتھ تال میل بھی بن رہا ہے یا نہیں؟

اگر تیس لاکھ نفوس نے نقلِ مکانی کی ہے اور ان میں سے صرف دو سے ڈھائی لاکھ لوگ ہی کیمپوں میں نظر آرہے ہیں تو باقی ساڑھے ستائیس لاکھ بے گھر سرکاری کاغذوں کے حساب سے کہاں کہاں ہیں ؟ کیا کوئی ادارہ ان ساڑھے ستائیس لاکھ بے خانماؤں کی ٹریکنگ کررہا ہے یا رجسٹریشن کر رہا ہے؟ ان متاثرین کے نام پر اندرون و بیرون ملک سے جو مدد آرہی ہے یا آئے گی کیا وہ ان سب تک پہنچانے کا کوئی بندوبست ترتیب پایا ہے ؟؟؟

اطلاعات تو یہ ہیں کہ اب تک جتنے اداروں نے بے گھروں کے سروے کئے ہیں ان میں سے کسی کے اعداد و شمار ایک دوسرے سے نہیں مل رہے، اور جتنے بھی بے گھر رجسٹر ہوئے ہیں ان میں سے محض آدھوں کو پچیس ہزار روپے کی مالی مدد کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ باقی کی دوبارہ چھان بین ہوگی۔

تو کیا یہ چھان بین وہی لوگ کریں گے جنہوں نے ان دربدروں کو پہلے رجسٹر کیا یا اب کہ غیر جانبدار مستعد لوگ اس کام پر لگائے جائیں گے ؟ اور کیا رجسٹریشن کرنے والے متاثرین تک پہنچیں گے یا متاثرین کو رجسٹریشن کی طویل قطاروں میں لگنے کے لیے ایک اور سفر درپیش ہوگا ؟

کیا بھیڑ، بکری، گدھے اور گھوڑے کو یکساں معاوضے کی لاٹھی سے ہانکا جائے گا یا پر جانی و املاکی نقصان کا انفرادی تخمینہ لگایا جائے گا؟؟؟؟

سیکرٹری دفاع کا اندازہ ہے کہ جاری آپریشن کے دوران چار ہزار کے لگ بھگ طالبان مارے گئے ہیں۔فوج کے ترجمان کا تخمینہ ہے کہ ایک ہزار سے بارہ سو کے درمیان طالبان کا صفایا ہوچکا ہے۔ایک سرکاری ذمہ دار کا خیال ہے کہ دو سے تین ماہ میں سب بے گھر واپس آسکیں گے۔ دوسرے ذمہ دار کا کہنا ہے کہ حالات معمول پر آتے آتے سال تو لگ ہی جائے گا۔

ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ جس میں ہر چوتھا آدمی پالیسی بیان جاری کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔یہ جانے بغیر کہ ان آنکڑے بازیوں کا ان لاکھوں بے گھر والدین پر کیا اثر ہوگا جو یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہورہے ہیں کہ آیا وہ دو تین ماہ کے لیے اپنے بچوں کا تعلیمی مستقبل معطل رکھیں یا پھر کم ازکم سال بھر کے انتظار کی سولی پر لٹکے رہیں۔

ان حالات میں اگر کوئی سواتی یہ کہتا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کی دربدری کے ذمہ دار طالبان ہیں یا فوجی آپریشن ؟ اگر کوئی سواتی یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ سوات میں پرخلوص کارروائی ہورہی ہے یا ٹام اینڈ جیری شو جاری ہے ؟؟؟ اگر کوئی سواتی یہ سمجھتا ہے کہ یہ کیسا ناٹک ہے جس میں کرداروں سے زیادہ تماشائی مررہے ہیں ؟؟؟

تو ایسے سوالات پر نہ خفا ہونے کی ضرورت ہے ، نہ رونے کی نہ ہنسنے کی۔۔۔ضرورت ہے تو صرف اپنے اپنے گریبان میں منہ دینے کی !!!!!!


tags:Bbc nawaz musharaf taliban army pakistan

Nawaz Zaradri Mulaqat By Asad-Allah-Ghalib





Tags:zardar,nawaz,mqq,pml(n),pml(q),ppp,nazir naji,ather abbas,

Aj Ka Sawal By Ather Abbas (7 june 2009)




Thursday, June 4, 2009

Kidat Ka Khela(5 June 2009)

Aj Ka Sawal By Ather Abbas (5 june 2009)




قم باذن اللہ (1)



Updated at: Thursday,04 June 2009
کیا آرمی کے موجودہ آپریشن کے نتیجے میں ملاکنڈ ڈویژن اور صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں میں حکومتی عملداری (Gorvenment Writ)قائم ہوجائے گی ۔ عمل داری قائم کرنے کی اس کوشش میں کتنا عرصے لگے گا۔ آپریشن کے نتیجے میں جو تیس لاکھ لوگ بے سروسامانی اور خوف و اضطراب کی حالت میں بے گھر ہوگئے ہیں۔ ان کو واپس اپنے علاقوں میں آباد کرنے کی کوئی امید مستقبل قریب میں نظر آتی ہے۔ اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگوں میں جو ردعمل پیدا ہو رہاہے ۔ اس سے انتہا پسندی کو مزید تقویت تو نہیں ملے گی ؟اگرحکومتی عمل داری قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی جان ،مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے تو کیا جو طریقہ اس کے لئے اختیار کیاگیا ہے اس سے یہ مقاصد حاصل ہو رہے ہیں۔ اس طرح کے بے شمار سوالات متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے اور متاثرین کے واقعات سننے کے بعد ہر شخص کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپریشن سے قبل اور اس کے بعد واقعات کا تجزیہ کرنے والوں سے انتشار فکری اور کنفیوژن کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
شدت پسندی اور اسلحے اور طاقت کے بل پر اپنی بات منوانے والوں کی تمام تنظیموں کو ابتدائی طور پر کھڑا کرنے میں پاکستانی حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے ۔ یہ تنظیمیں بالآخر ان کے ہاتھ سے نکل جاتی ہیں اور پوری قوم کے لئے درد سربن جاتی ہیں۔ انہیں وجود میں لانے کا بنیادی مقصد برطانوی سامراج کا سکھایا ہوا حکومتی عمل داری قائم کرنے کا گر یہ ہے کہ عوام کو آپس میں لڑایا جائے۔ ایرانی انقلاب کے بعد امریکی تجزیہ نگاروں اور تھنک ٹینکس نے امریکی حکومت کو متنبہ کردیا کہ عالم اسلام میں ایرانی انقلاب کے طرز پر انقلابات نمو دار ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں اور اگر اس طرح کا انقلاب ترکی ،عالم عرب ،پاکستان یا انڈونیشیا میں نمودار ہوا تو مغربی دنیا کے لئے ان علاقوں کو اپنی زیر نگرانی رکھنے اور اس علاقے کے معدنی ذخائر خصوصاً تیل کے ذخائر پر کنٹرول قائم رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس طرح عوامی انقلاب کو روکنے کے لئے مغربی مفکرین نے عالم اسلام میں بڑے پیمانے پر انتشار پیدا کرنے کے منصوبوں پر عمل درآمد کرنا شروع کیا۔
1980ء میں میری ملاقات پیرس میں مقیم ایک بڑے مسلمان مفکر اور اللہ کے ولی ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے ہوئی ۔ پیرس کی ایک بڑی مسجد میں اس درویش مفکر نے مجھے بتایا کہ مغربی میڈیا کے منفی پراپیگنڈے اور اسلام کو دہشت گردی سے وابستہ کرنے کی کوششوں کے باوجود پیرس میں ہر ہفتے اوسطاً پانچ سفید فام فرانسیسی جو عموماً ذہین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اسلام قبول کررہے ہیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فرانس اور یورپ کے بائیں بازو کے دانشور کیمونزم اور سوشلزم کے فلسفے سے مایوس ہو کر اسلام کو انسانیت کے لئے راہ نجات سمجھنے لگے تھے ۔ اس وقت اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرنے کی تدابیر زور پکڑنے لگیں۔ نبی رحمت حضور رحمتہ اللعالمین کے ایسے کارٹون جن میں نبی رحمت ۖکو خاکم بدہن دہشت گرد کے روپ میں پیش کیاگیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری کتاب ہدایت جس کا بنیادی سبق اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس پیدا کرناہے ،کو دہشت گردی کی کتاب کے طور پر پیش کیاگیا۔ جہاد فی سبیل اللہ جس کا بنیادی مقصد فتنہ وفساد، استحصال اور ہر طرح کے ظلم کا خاتمہ اور نظام عدل و قسط اور انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر انسانوں کے رب کی غلامی میںدیناہے،کو مسخ کرکے قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کے راہ عمل کے طور پر پیش کیاگیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کے زیر اثر مسلمان دنیا کے ذرائع ابلاغ کا وطیرہ بن گیاکہ اسلام کی بنیادی اصطلاحات جہاد اور شریعت کو وحشت اور جہالت سے وابستہ کردیں۔ خود مسلمان ممالک میں اسلام کا چہرہ بگاڑنے کی کوششیں شروع کی گئیں اور دانستہ یا نادانستہ طور پر بہت سے مسلمان گروہ اس بڑے کھیل کا حصہ بن گئے ۔
مسلمانوں کی حکومتیں امریکی اتحاد میں شامل ہو کر مسلمانوں کواندر سے کھوکھلا کرنے کے اس بڑے کھیل میں شامل ہوگئیں۔ اس کھیل میں مغربی ذرائع ابلاغ عالمی مالیاتی ادارے ،ملٹی نیشنل تجارتی ادارے اور مغربی ممالک سے پیسہ اور ہدایات وصول کرنے والی این جی او ز(غیر حکومتی ادارے) مغرب کے بڑے ہتھیار ہیں۔ملک کا ہر حساس شہری اس بات پر پریشان ہے کہ کس طرح اسلام آباد کے دل میں واقع ایک عام مسجد (لال مسجد ) اور ایک عام مدرسے کے بارے میں یہ پراپیگنڈہ کیاگیا کہ یہاں بڑی تعداد میں غیر ملکی دہشت گرد قیام پذیر ہیں اس مسجد اور مدرسہ پر ایک کمانڈو بریگیڈ کا حملہ کروانے سے قبل مصالحت کی تمام کوششیں ناکام بنادی گئیں۔ اس مسجد اور مدرسہ کو کنٹرول کرنے کے لئے صرف اس کا پانی اور بجلی کا کنکشن کاٹنا ہی کا فی تھا لیکن اس میں سینکڑوں بچیوں اور معصوم طلبہ کو قتل کرکے امریکہ کو اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنا ضروری تھا۔
یہ سب کچھ کیوں کیاگیا ۔ اسلام اور مسلمانوں کی یہ تصویر کس نے ساری دنیا کو دکھائی کہ پردہ نشیں عورتوں اور طالبات کے روپ میں دہشت گرد تربیت حاصل کررہے ہیں اس میں کتنی حقیقت تھی اور کتنامبالغہ ۔ پھر ہمارے ملک میںجو لوگ ایک بچی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو دکھا کر پوری دنیا میں واویلا کرتے ہیں ۔ وہی لوگ سینکڑوں بچوں ، بچیوںکے قتل پر قاتلوں کو داد دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ یہ کس بڑے کھیل کا حصہ ہیں ۔ یہ سب کچھ کیا ہے ؟
جنرل ضیاء الحق صاحب بظاہر صوم و صلوٰةکے پابند مسلمان تھے لیکن ایک امریکی دانشور جان اسپازیٹو(John Esposito)نے انہیں عالم اسلام کے لئے امریکی پالیسی سازوں کا سب سے کامیاب مہرہ قرار دیا ہے جس نے خود اسلام کے نام سے اسلامی قوتوں کو گٹھے لگا دیا تھا۔ جماعت اسلامی کے مقابلے میں کراچی میں ایم کیو ایم کو ابھارنے ، طلبہ یونینز پر پابندی لگا کر اسلامی جمعیت طلبہ کے اثرات کو کم کرنے اور ٹریڈ یونین پر پابندی لگا کر جماعت اسلامی کی بڑی ٹریڈ یونینز کو ختم کرنے کا سہرا ان کے سر ہے۔ جناب جنرل ضیاء الحق صاحب اس کے دور میں جماعت اسلامی کے ایک رکن جودیر کی ضلع کونسل کے منتخب ممبر تھے اور افغان جہاد کے مویدین میں شمار ہوتے تھے اور ان دنوں کلاشنکوف ہاتھ میں لے کر خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے کو سیاہ پگڑیاں باندھنے والے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنما کے طور پر جماعت کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا ۔ جمہوریت کفرہے اور ووٹ دینا حرام ہے کا نعرہ بھی اس دور میں ان کے منہ میں ڈال دیاگیا۔ اس دور میں ایرانی انقلاب کے زیر اثر پاکستان کے اہل تشیع ایک جوش اور جذبے سے اٹھے اور اسلام آباد کے دفاتر میں گھس کر فرقہ بندی پر مبنی اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے مقابلے میں سپاہ صحابہ منظم ہوگئی اور سپاہ صحابہ کے زور کو توڑنے کے لئے ایک دوسری عسکری شیعہ تنظیم سپاہ محمد کے نام سے منظم کردی گئی چنانچہ سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئیں۔ اسی دور کی بات ہے کہ لاہور شہر میں شاہی مسجد کے سامنے دوگروہ ایک دوسرے کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔(جاری ہے)

دونوں گروہوں کے سربراہوں کا تعلق محکمہ اوقاف کے تابع علماء کرام کے ساتھ تھا ۔ ایک گروہ شاہی مسجد لاہور میں ''یارسول اللہ ۖکانفرنس ''منعقد کرنا چاہتاتھاکہ دوسرا گروہ ''محمد رسول اللہ ۖکانفرنس ''منعقد کرناچاہتاتھا۔
یہ لڑائی اب بڑے پیمانے پر مسلح ہو کر لڑ ی جا رہی ہے ۔ کرم ایجنسی میں شیعہ سنی فساد گرم ہے۔ خیبر ایجنسی میں ایک گروہ توحید کے علمبردار بن کر درباروں اور مزاروں کے خلاف علم جہاد بلند کررہاہے ۔ ملاکنڈ ڈویژن میںاسلامی نظام عدل کے نفاذ کے نام سے حجاموں کی دکانوں کو نوٹس جاری کئے جاتے ہیں ۔ میوزک شاپس پر دھماکے کئے جاتے ہیں۔ حکومتی ادارے کچھ مدت تک اس طرح کے عناصر کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں اور جب یہ خوب پر پرزے نکالتے ہیں تو ان پر حملہ کے بہانے ایک ایسااقدام کرتے ہیں جس کی زد میں بے گناہ لوگ آکر تباہی وبربادی کا نشانہ بنتے ہیں ۔یہ سب کارروائیاں اسلام کی اندرونی لڑائی (Islamic Internal Battle)کو گرم کرکے مسلمانوں میں اندرونی انتشار پھیلانے کے بڑے کھیل کا حصہ ہیں ۔
اب ان سوالات کی طرف آتے ہیں جو ابتداء میں پیش کئے گئے تھے۔ کیا موجودہ آرمی آپریشن کے نتیجے میں حکومتی رٹ اور حکومتی عملداری قائم ہوگی۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ جمہوری اور منتخب حکومت اپنی عمل داری قائم کرنے کے لئے ہمیشہ جمہوری طریقہ اختیار کرتی ہے جس طرز کا فوجی آپریشن ملاکنڈ ڈویژن میں روا رکھاگیاہے۔ اس سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہے ۔ علاقے کے نصف عوام اتنے گھر چھوڑ گئے باقی نصف کرفیو ، گولہ باری اور بمباری کی وجہ سے محصور ہیں جب کہ عسکریت پسند اپنے اسلحے سمیت اپنے علاقے اور مقامات بدلتے رہتے ہیں۔ گندم اور پھلوں کی تیار فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ مویشی کوئی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے مررہے ہیں۔ اگلی فصل دھان ہے جس کے لئے زمین تیار کرنے کا وقت ہے لیکن آبادی کی منتقلی اور لوگوں کے محاصرے میں ہونے کی وجہ سے کھیتوں میں نکلنا ممکن نہیں ہے۔ تین فصلوں سے محروم ہونے کی وجہ سے سوات کے عوام کی اکثریت غربت اور افلاس کے گھیرے میں آکر بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ایک غیرت مند ، خود دار اور محنت کش قوم کو اس حالت میں دیکھ کر کون محب وطن اطمینان محسوس کرسکتاہے۔ ہزاروں نوجوان سخت صدمے سے دوچار ہو کر کسی بھی انتہائی اقدام پر آمادہ ہو رہے ہیں ۔
میں تین روز تک ملاکنڈکے فوجی آپریشن کے خلاف اسلام آبادکے ایک کیمپ میں بیٹھا تھا ۔مجھے دیر اور سوات کے نوجوانوں کی زبانی کئی روح فرساواقعات سننے کا موقع ملا۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ ان کے گھر کے سولہ افراد جن میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی ایک ٹرک میں بیٹھ کر بونیر سے نکلنے کی تیاری کررہے تھے کہ ان کے ٹرک پر ایک مارٹر گولہ گرا اوران کے چھ افراد جن میں ایک بہن ایک چچاز اد بہن ایک پھوپھی شامل تھیں فوت ہوگئیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر مجھے تحریک اسلامی کی تربیت سہارا نہ دیتی تو میں خود کش حملہ آور وں کے جتھے میں شامل ہوجاتا۔ اخبارات میں کھانا لینے کے لئے برتن اٹھائے ہوئے اور اشیائے ضرورت کے لئے ہاتھ پھیلائے ہوئے خواتین ، مردوں اور بچوںکی جو تصویریں شائع ہوتی ہیں یہ بے گناہ اور معصوم اور خود دار اور عزت نفس رکھنے والے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔
کیا پاکستان کے قیام کامقصد یہ تھاکہ امریکہ اور برطانیہ کی وفاداری کے عہد پر قائم ایک ایسی ریاست قائم کی جائے جو امریکہ کی صف اول کی اتحادی بنے ، ان کے عالمی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور ان کے عالمی مفادات کی خاطر اپنی قوم سے لڑے ۔ ان کی آرزوئوں کا خون کرے اور اپنی قوم کی ترجمانی کی بجائے غیروں کا ترجمان بن جائے۔ غیر ملکی تہذیب و تمدن کو فروغ دینے کے لئے اپنے ذرائع ابلاغ کو استعمال کرے اور اپنی تہذیب کا مذاق اڑائے ،پاکستان کے لبرل حلقوں کو قائد اعظم کی ساری تقریر وں میں سے ان کے گیارہ ستمبر1947ء کی تقریر کا یہ اقتباس بہت ہی پسند آگیا ہے۔ بالآخر پاکستان میں سیاسی حوالے سے نہ مسلمان مسلمان رہے گا اور نہ ہندو ہندو رہے گا بلکہ یہ ایک ملک کے برابر کے آزاد شہری ہوں گے۔ اس کو لبرل طبقے (Jinnah's Vision)جناح کا تصور پاکستان کہتے ہیںاور اس طرح پاکستان کی اساس ، اسلامی فکر اور اسلامی نظریے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کی یہی سوچ فساد کی جڑ ہے ۔ اسلام کے رشتے کوکاٹنے کے بعد وہ کونسارشتہ ہے جو بلوچ ، پختون ،پنجابی ، سندھی ،مہاجر کو متحد رکھ سکتاہے۔یہ پاکستان کی اساس پر تیشہ چلانے والی بات ہے ، اے این پی کے ''بابائے اعظم ''باچا خان آخری دم تک پختونوں کو یہی سمجھاتے رہے کہ ''پاکستان '' کے نام سے دھوکہ نہ کھائیں۔یہ دراصل ''پاکستان '' نہیں بلکہ ''پنجاب ''ہے۔ افغانستان سے واپس آنے کے بعد تہکال بالا میں ان کی ایک تقریر سننے کے بعد میرے ایک برخوردار ہنستے ہوئے آئے اور ان کی نقل اتار کر کہنے لگے کہ طنزیہ لہجے میں پاکستان ، پاکستان کہنے کے بعد لوگوںسے کہنے لگے ''نیک بختو پنجاب ہے پنجاب ''
ہمارے بلوچ اور سندھی نیشلسٹ ہمیں ہمیشہ یہی سمجھاتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کررہاہے ۔ انہیں اسلامی نظام ، اسلامی بھائی چارے اور اسلام کے نظام عدل کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پاکستانی فوج کو پنجاب کی فوج قرار دیا جا رہاہے۔ بلوچستان میں پہلے ہی قومی ترانہ اور قومی جھنڈے کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اب وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ IDPیعنی اندرونی طور پر بے دخل ہونے والے افراد کو پورے ملک میں پھیلنے سے روک دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے خلاف مزید ردعمل پیدا ہوگا۔ مظلوم ،بے سہارا اور بے گناہ ،بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو سندھ میں داخل ہونے سے روک دیاگیا۔ پنجاب میں کیمپ بنانے سے گریز کیا جا رہاہے اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا لیا جائے گا کہ یہ ایک قوم نہیں بلکہ کئی اقوام کا مجموعہ اور ہر قوم اپنے علاقے میں کسی دوسری قوم کے آنے پر معترض ہے ۔
ہم سے پوچھا جاتاہے کہ تمہارے پاس کیا علاج ہے ۔ کیا عسکریت پسندوں کو یا طالبان کو موقع فراہم کردیاجائے کہ وہ ولوگوں کو یرغمال بنادیں اور اپنی پسند کا اسلامی ایڈیشن لوگوں پر مسلط کردیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ جو لبرل طبقہ اگر انہیں لبرل کہنا صحیح ہو حالانکہ مغربی اصطلاح کے تحت بھی یہ طبقہ ہرگز لبرل نہیں ہے بلکہ مغربی مفادات کی حفاظت کرنے والا ان کا آلہ کار ایک کرپٹ اور خود غرض طبقہ ہے جو بد قسمتی سے ملک پر قابض ہے ۔ یہ طبقہ اس ملک کی حفاظت میں قطعاًناکام ہوچکاہے۔ اس طبقے کی باگ ڈور اس ملک کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کے پاس ہے ۔ جس کی کرپشن اور غلط سوچ کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکاہے۔ یہ اس ملک کے نفس پرست اور خود غرض سیاسی قیادت کو وجود میں لانے والا ہے اور اس کے ساتھ مل کر ملک و قوم کو برباد کررہاہے ۔ اس پورے طبقے کے ہاتھ میں ملک محفوظ نہیں ہے ۔ انہیں اپنی ناکامی تسلیم کرلینی چاہیے۔ ملک کو ایک دیانتدار اور امین قیادت کی ضرورت ہے۔ امانت و دیانت قیادت کی پہلی صفت ہے۔ایک جرات مند قیادت جو امریکہ سے کہہ سکے کہ وہ امریکی جنگ کو اپنی قوم پر مسلط کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے ۔ اپنی قوم سے لڑنا ممکن نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے اس قیادت کو دستبردار ہونا چاہیے۔ سول ملٹری ،بیوروکریسی سمیت نا م نہاد بڑی جماعتیں ملک کو ایک رکھنے میں ناکام ہیں۔ امریکی پالیسی کے تابع چلنے والے لوگ بالآخر ہمیں ایک ایسے انجام سے دوچار کردیں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کی بجائے بھارت کے زیر اثر بلوچوں ، پختونوں ،سندھیوں اور پنجابیوں کے نیم خودمختارعلاقے ہوں گے جو اندرونی افراتفری کا شکار اور قومی عزت نفس سے محروم ہوں گے۔ ہماری سیاسی قیادت بودی ہے اور اس انجام سے قطعاً بے خبر امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئی ہے ۔ قوم میں جو زبردست جذبہ جہاد اور شوق شہادت پایا جاتاہے ہمارا دشمن اس جذبے کو خود ہمارے خلاف استعمال کرنے میںکامیاب ہے ۔ اگر حکومت ملاکنڈ میں نظام عدل نافذ کرنے میں مخلص تھی اور اس نے امریکہ کے کہنے پر اس معاہدے کو سبوتاژ نہیں کیا تویہ حکومت پورے ملک میں موجودہ فرسودہ عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کے لئے انقلابی اقدامات سے کیوں گریزکررہی ہے ۔ آج پاکستان میں انصاف کا کوئی دروازہ کھلانہیں ہے۔ این آراو کے تحت بڑی کرپشن کو معاف کردیاگیاہے۔ ملک و قوم کی باگ ڈور ایک نفس پرست طبقے کے ہاتھ میں ہے جو اپنے ذاتی مفادات سے ایک قدم آگے سوچنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ پریس پر ان عناصر کا کنٹرول ہے جن کے لئے قلم کا استعمال اور اپنی فنی مہارت مال تجارت ہے اور وہ مغربی سرمایے ،ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی او ز کے آلہ کار ہیں۔ مغرب اپنے سرمایے اور تنظیمی قوت کو استعمال میں لا کر ہمارے تمام قومی اداروں کو اپنے مفادات میں استعمال کررہاہے۔ ایسے میں ایک صحت مند ، بیدار مغز قیادت کی ضرورت ہے جو عوام الناس کی امنگوں اور آرزوئوں کو بیدار کرکے ایک عظیم الشان عوامی انقلاب برپا کردے۔ یہ اس ملک کو بچانے کا واحد راستہ ہے ۔قیادت عوام کے اندر میں سے ابھرے گی ۔ اس قیادت کے لئے سٹیج تیار ہو رہاہے۔ فوج کو بار بار آزمایا گیا اس نے ملک کے جمہوری اداروں اور دستو ر کو تباہ کرنے کے سوا قوم کو کچھ نہیں دیا۔ ایسے میں قوم و وطن اور اسلام کے شیدائیوں کا امتحان ہے ۔ ایک نئے ولولے کے ساتھ اٹھیں ۔ امریکہ ،بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کے مقابلے میں اپنی قومی سالمیت کی حفاظت کے لئے کھڑے ہوجائیں۔

Courtesy:dailyausaf

گوگل پیج رینک

پیج رینک ایک الگورتھم یا پروگرام ہے جسے اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں لیری پیج (Larry Page) نے تخلیق کیا (اور اسی کے نام پر اس الگورتھم کو ”پیج رینک“ کہا گیا)۔ بعد میں سرگی برن (Sergey Brin) بھی اس تحقیقی منصوبے کا حصہ بنے جو ایک نئی قسم کے سرچ انجن کے بارے میں تھا۔ یہ منصوبہ 1995ءمیں شروع ہوا اور 1998ءمیں ”گوگل“ کے نام سے پیش ہوا۔ بعد ازاں جلد ہی پیج اور برن نے گوگل انکارپوریٹیڈ کی بنیاد ڈالی۔

گوگل سرچ اس وقت تمام سرچ انجن میں سر فہرست ہے۔ مانا جاتا ہے کہ سرچنگ میں گوگل کا حصہ پچاس فیصد ہے یعنی انٹرنیٹ کی دنیا میں تلاش کیا جانے والا ہر دوسرا لفظ گوگل پر لکھا جاتا ہے۔ گوگل سرچ میں کئی عوامل کار فرما ہوتے ہیں جن میں پیج رینک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ پیج رینک گوگل کا ٹریڈ مارک ہے اور اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے نام پر پیٹنٹ ہے۔


پیج رینک کیا ہے؟

پیج رینک ایک عددی قدر ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ایک ویب پیج کتنا اہم ہے۔ اگرچہ اس بارے میں حتمی اور مکمل علم گوگل تک محدود ہے لیکن عام طور سے خیال کیا جاتا ہے کہ اس عمل کے لیے گوگل الگورتھم اسکیل استعمال کرتا ہے۔ ہمیں پیج رینک کے بارے میں تو معلومات ہیں لیکن گوگل کسی ویب پیج کی اہمیت کا تعین اور اس کی مدد سے کس طرح نتائج مرتب کرتا ہے، یہ گوگل کا تجارتی راز ہے جس سے کوئی واقف نہیں۔

پیج رینک صفر سے دس تک ہوتا ہے، یا یوں کہئے کہ گوگل ہرویب پیج کو ایک عددی قدر الاٹ کرتا ہے جو کہ صفر اور دس کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ عددی قدر ظاہر کرتا ہے کہ گوگل کی نظر میں اس ویب پیج کی کتنی اہمیت ہے۔ اگر کسی ویب پیج کا پیج رینک دس ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ صرف یا اس پر موجود مواد بہت اہم اور مفید ہے جبکہ پیج رینک کا صفر ہونا اس کے غیر اہم اور غیر ضروری ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔
گوگل ٹول بار استعمال کرنے والے قارئین نے یقینا اس کا پیج رینک فیچر ملاحظہ کیا ہوگا۔ اس فیچر کے تحت گوگل ٹول بار آپ کو ہر دیکھئے گئے ویب پیج کا پیج رینک ایک بار گراف کی شکل میں دکھاتا ہے۔ اکثر ویب پیج کا رینک دو سے چار تک ہوتا ہے جو کہ معمولی بات ہے۔ نئے ویب پیج کا پیج رینک عموماً صفر ہوتا ہے۔ بہت کم ایسی سائٹس ہوتی ہیں جن کے صفحات کا پیج رینک چھ (6) سے نو (9) تک ہو اور دس (10) پیج رینک کے حامل ویب پیجز تو بس گنتی ہی کے ہیں۔ البتہ گوگل نے تقریباً اکیس (21) ویب سائٹس کو دس پیج رینک دیا ہے جن میں ناسا، وائٹ ہاو¿س، ایپل کمپیوٹرز، دی نیو یارک ٹائمز، ایڈوبی سافٹ ویئر اور خود گوگل وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ بہت سی مشہور ویب سائٹس ایسی بھی ہیں جن کا رینک 9 یا 8 ہے۔ مائیکروسافٹ ڈاٹ کام اور یاہو ڈاٹ کام بھی دو ایسی ہی ویب سائٹس ہیں جن کا پیج رینک 9 ہے اور سی نیٹ ڈاٹ کام جیسی وسیع اور مشہور ویب سائٹ کا پیج رینک 8 ہے۔ پیج رینک کو PR سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔

پیج رینک کس طرح کام کرتا ہے؟

جب ایک ویب پیج کو دوسرے ویب پیج سے لنک کیا جاتا ہے تو گوگل کے نزدیک یہ ایک طرح سے پہلے ویب پیج کا دوسرے ویب پیج کی افادیت اور اہمیت کے لئے ”ووٹ کاسٹ“ ہوتا ہے۔ ایک ویب پیج کے لیے جتنے ووٹ کاسٹ ہوں گے، اس کا پیج رینک اتنا ہی بڑھے گا۔ مزید گوگل کے نزدیک اس بات کی اہمیت بھی ہوتی ہے کہ جو صفحہ کسی دوسرے صفحہ کے لیے ووٹ کاسٹ کررہا ہے، خود اس کی اہمیت کیا ہے؟ آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ جب آپ کسی ویب پیج کا لنک دیتے ہیں تو عین اسی وقت آپ گوگل سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو اس صفحے پر بھروسا ہے یا آپ سمجھتے ہیں کہ اس پر اہم/ دلچسپ/ مفید مواد موجود ہے۔ بصورتِ دیگر آپ اسے لنک نہیں کرتے یعنی کہ آپ اس صفحے کو ووٹ دے رہے ہیں۔ لہٰذا لوگوں کی کثیر تعداد کا آپ کی ویب سائٹ کو لنک کرنا (ووٹ دینا) آپ کے لیے زیادہ پیج رینک کے حصول کا سبب بنے گا۔
اس مثال کو اگر حقیقی زندگی میں ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ فرض کریں امجد صاحب محلے کی ہر دل عزیز اور معتبر شخصیت ہیں اور تقریباً سارا محلہ ہی ان سے واقف ہے۔ لیکن خورشید صاحب محلے کی گم نام شخصیت ہیں اور چند ہی لوگ ان سے واقف ہیں۔ اگر آپ کے سامنے امجد صاحب کسی انجان شخص کی تعریف کریں تو آپ امجد صاحب کی بات پر فوراً یقین کرتے ہوئے اس انجان شخص کے اہمیت کے قائل ہوجائیں گے۔ لیکن اگر اسی شخص کی تعریف خورشید صاحب کرتے تو شاید آپ کو ان کی بات کا یقین نہ آتا۔
دوسرے الفاظ میں اسے یوں سمجھیں کہ امجد صاحب کا پیج رینک اپنے قابل بھروسا اور مشہور ہونے کی وجہ سے زیادہ ہے۔ اگر وہ کسی شخص کی تعریف کرتے ہیں تو اپنے پیج رینک کی وجہ سے یہ اس شخص کے پیج رینک میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں خورشید صاحب گم نام ہونے کی وجہ سے کم پیج رینک رکھتے ہیں لہٰذا ان کا تعریف کردہ شخص بھی کم پیج رینک کا حامل ہوگا۔
بالکل یہی عمل گوگل پیج رینک کے ساتھ ہے۔ اگر آپ کو ایک ایسی ویب سائٹ/ ویب پیج لنک کرے جس کا پیج رینک دس (10) ہو تو یہ آپ پر گوگل کے اعتماد میں اضافہ کا سبب ہوگا، مقابلے میں اس کے کہ ایسی سو (100) ویب سائٹس آپ کو لنک کریں جن کا اپنا پیج رینک صفر یا ایک/ دو ہو۔
آپ انٹرنیٹ کی ایک چھوٹی سی دنیا فرض کیجئے جو کہ صرف چار ویب پیج ”الف“، ”ب“، ”ج“ اور ”د“ پر مشتمل ہے اور صفحہ ”الف“ کو صفحات ”ب“، ”ج“ اور ”د“ لنک کرتے ہیں۔ یوں صفحہ ”الف“ کے پیج رینک کی صورتحال یہ ہوگی:
PR (الف) = PR (ب) + PR (ج) + PR (د)
کیا آپ اسے بہت آسان خیال کرتے ہیں؟ نہیں! یہ اتنا آسان نہیں، کچھ حد تک پیچیدہ ہے۔ جیسے میں نے پہلے ذکر کیا کہ اگر صفحہ ”الف“ کو صفحہ ”ب“لنک کررہا ہے تو یہ صفحہ ”الف“ کے پیج رینک کے لیے ایک طرح کا ووٹ کاسٹ کر رہا ہے لیکن دوسری طرف گوگل اس بات کو بھی مدنظر رکھتا ہے کہ خود صفحہ ”ب“ یعنی ووٹ کاسٹ کرنے والے صفحے کا اپنا پیج رینک کیا ہے؟
دو اہم باتیں:
یہاں دو باتوں کی وضاحت کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔ پہلی بات، شاید یہ سوال سر اُٹھائے کہ اگر صفحہ ”الف“ کو صفحہ ”ب“ بذریعہ لنک ووٹ کرتا ہے تو کیا صفحہ ”ب“ کے اپنے پیج رینک پر کوئی اثر پڑے گا؟ کیا وہ اپنا پیج رینک کھودے گا؟ نہیں! ایسا نہیں ہوتا۔ یہ صرف ووٹ کاسٹ کرنے کا عمل ہے۔ یہ عمل پیج رینک کو ٹرانسفر نہیں کرتا۔ ہاں البتہ کچھ دوسرے عوامل ضرور ہوتے ہیں جن کے باعث ویب پیج اپنا پیج رینک کھودیتا ہے۔ لیکن اگر آپ نے اپنی ویب کا ڈھانچہ صحیح رکھا ہے تو ایسا نہیں ہوگا۔ اس بارے میں مزید نکات آگے آئیں گے۔
دوسری بات یہ کہ یقینا ایک اچھے پیج رینک کا حامل ویب پیج آپ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھے گا اگر اس میں آپ کی مطلوبہ تلاش موجود نہ ہو۔ لہٰذا گوگل نے پیج رینک اور ٹیکسٹ میچنگ ٹیکنالوجی کو یکجا کردیا ہے۔ یوں آپ اگر کچھ تلاش کرتے ہیں تو گوگل ٹیکسٹ میچ اور پیج رینک، دونوں کے مشترک عمل سے تلاش کے بعد نتائج دیتا ہے ۔ اور یہی گوگل کی کامیابی کا راز ہے۔ گوگل کے دیکھا دیکھی اب دیگر سرچ انجنز بھی ان ٹیکنالوجیز سے ملتی جلتی ٹیکنالوجیز کو استعمال کررہے ہیں۔

اچھا پیج رینک کیا ہے؟

زیادہ اچھا پیج رینک حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ ابتداءمیں آپ کے بنائے ہوئے ویب پیج کا پیج رینک صفر ہوتا ہے۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنے پھیلاﺅ اور شہرت کی وجہ سے بڑھتا ہے۔ پیج رینک ایک (1) یا دو (2) ہونا معمول کی بات ہے اور ویب پیج بنانے کے کچھ عرصے بعد اگر آپ نے اسے کچھ ویب سائٹ پر مشتہر کیا ہے تو ایک یا دو پیج رینک حاصل ہوہی جاتاہے۔ عموماً ہوم پیج (فرنٹ پیج/ انڈیکس پیج) کا پیج رینک تین (3) ہوتا ہے۔ اگر آپ کا پیج رینک چار ہے تو یہ اچھا ہے اور اگر پانچ ہے تو واقعی اچھا ہے۔ اگر آپ کا پیج رینک پانچ سے بڑھ کر ہے تو یقین کیجئے، آپ اچھا جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر foxnews.com کا پیج رینک سات (7) ہے۔پاکستان کی مشہور ترین ویب سائٹس کا پیج رینک بھی زیادہ سے زیادہ 5دیکھنے میں آیا ہے۔
اچھا پیج رینک کیسے؟

گوگل سے باہر کا کوئی شخص نہیں جانتا کہ پیج رینک کا اصل اسکیل کیا ہے تاہم کئی تحقیقی مقالات میں مختلف دلائل اور شواہد کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ الگورتھم اسکیل ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پیج رینک کا لیول بڑھانے کے لیے ہمیں کئی ووٹ درکار ہوں گے۔ اس کے علاوہ ویب ماسٹر کے لیے اپنے ویب اسٹرکچر کی بنیاد ٹھیک رکھنا بھی اہم ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ووٹ پوری ویب سائٹ کے لیے کاسٹ نہیں ہوتا بلکہ ایک خاص ویب پیج کے لیے کاسٹ ہوتا ہے(یعنی جس پیج سے لنک کیا جاتا ہے، ووٹ صرف اسی پیج کے لیے ہوتا ہے)۔ اگر ہم اپنی حقیقی زندگی والی مثال پر واپس آئیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اگر امجد صاحب نے کسی انجان شخص کی تعریف کی ہے تو یہ صرف اس شخص کے مخصوص ہے۔ ہوسکتا ہے اس شخص کا بھائی کوئی غنڈہ ہو۔
لہٰذا اگر ویب ماسٹر اپنا ویب اسٹرکچر اس طرح رکھے کہ زیادہ سے زیادہ لنک اس کے کسی ایک خاص صفحے (عام طور سے ہوم پیج) کے لیے ہوں تو پیج رینک بڑھانے میں مدد ملے گی۔ لیکن ایسا کیسے ہوگا؟
اچھی بنیاد پر کھڑی مستند ویب سائٹس کو دیکھیں تو ان کا پہلا صفحہ (انڈیکس پیج) زیادہ پیج رینک رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ صفحہ سب سے زیادہ لنک کیا جاتا ہے اور اگر کوئی اس سائٹ کا لنک دیتا ہے تو وہ لنک عموماً اسی انڈیکس پیج (index.html، index.htm، index.php وغیرہ) کا ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ ہم ایسا کس طرح کرسکتے ہیں؟
فرض کیجئے کہ آپ کی ویب سائٹ کے تین مدارج ہیں۔ پہلے درجے پر انڈیکس/ فرنٹ پیج ہے۔ اگلے درجے پر تعارف، ہمارے بارے میں، رابطہ، خبریں، اعلانات، مصنوعات وغیرہ کے صفحات ہیں۔ تیسرے اور آخری درجے پر تفصیلی صفحات ہیں۔ ایک اچھے اور بہترین ویب ڈھانچے میں انڈیکس پیج کا تمام بنیادی منیو پیجز سے لنک ہوتا ہے اور پھر وہ منیو پیجز مزید تفصیلی صفحات سے منسلک ہوتے ہیں۔ یوں پہلا صفحہ چھ سے سات تک کا پیج رینک رکھتا ہے، دوسرے درجے کے صفحے چار سے پانچ اور تیسرے درجے کے صفحات دو یا تین پیج رینک رکھتے ہیں۔ یہ ایک اچھی ویب سائٹ کی علامت ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل نکات کا خیال رکھنا بہتر ہوگا:

یقین کرلیں کہ آپ کا بنیادی صفحہ (انڈیکس پیج) آپ کے ثانوی درجے کے صفحات سے لنک ہے۔
یہ بھی یقین کرلیں کہ تمام ثانوی صفحات آپس میں ایک دوسرے سے لنک ہیں۔
ثانوی درجے کے صفحات کو تیسرے درجے کے صفحات سے لنک کردیں۔
تیسرے درجے کے صفحات کو واپس ان ہی ثانوی درجے کے صفحات سے لنک کردیں۔
اس امر کو یقینی بنالیں کہ تیسرے درجے کے صفحات کا آپس میں زیادہ لنک نہ ہو۔
اگر مزید چوتھے درجے کے صفحات بھی ہوں تو ان کے لیے بھی ان ہی اصولوں پر عمل کریں گے۔
“rel=nofollow” کے فوائد:

اپنے ویب پیج کے پیج رینک میں اضافے کے لیے لوگوں نے غلط طریقوں کا استعمال شروع کردیا اور مختلف میسج بورڈز/ فورمز پر پوسٹس میں یا بلاگز پر تبصروں کی صورت میں اپنے ویب پیج کا لنک دینا شروع کردیا اور اسپیم بڑھنے لگے۔ یہ ایک سردرد اور مصیبت کا سبب بنا۔
2005ءکے اوائل میں گوگل نے ایچ ٹی ایم ایل لنکس کے rel ایٹری بیوٹ کے لیے ایک نئی ویلیو ‘nofollow’ متعارف کرائی۔ اس کی مدد سے بلاگرز اور میسج بورڈز/ فورمز کے ایڈمنسٹریٹرز لنکس کو گوگل کے پیج رینک کے لیے غیرفعال کرسکتے ہیں یعنی جس لنک پر rel=”nofollow” کا ایٹری بیوٹ سیٹ ہوگا، گوگل اسے پیج رینک کے لیے نہیں لے گا اور وہ لنک یا ووٹ کاسٹ نہیں کریں گے۔ یوں ایڈمنسٹریٹرز ایک کوڈ جنریٹ کرسکتے ہیں جو ہر ہائپرلنک پر ‘nofollow’ کی ویلیو اپلائی کردے گا اور اسپیمر اپنے مقاصد میں ناکام ہوں گے۔

گوگل بومب

گوگل پیج رینک کا ذکر چل رہا ہے تو سوچا آپ کو گوگل کی اس کامیابی کے ساتھ تفریح کرنے والے کے بارے میں بھی کچھ معلومات فراہم کی جائے۔ اب تک آپ یہ بات ہضم کرچکے ہیں کہ کسی ”کی ورڈ“ کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے نتائج میں سب سے اوپر وہی ویب پیج ظاہر ہوتا ہے جس کا پیج رینک سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
گوگل بومبنگ میں کسی مخصوص ویب پیج کو ایک خاص کی ورڈ جو کہ اس ویب پیج سے مطابقت بھی نہیں رکھتا، کے حوالے سے اتنی بار مختلف جگہوں پر لنک کیا جاتا ہے کہ اس کا پیج رینک خود بخود بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح جب بھی وہ کی ورڈ گوگل میں تلاش کی جاتا ہے تو وہ ویب پیج سب سے اوپر ظاہر ہوتا ہے۔ اس طرح کی حرکات کا مقصد سیاسی یا صرف تفریح ہوتاہے۔
پہلا گوگل بومب جسے عوامی شہرت حاصل ہوئی وہ مائیکروسافٹ کے متعلق تھا۔ اس عرصے میں جب گوگل پر more evil than Satan himself کے کی ورڈ سے سرچنگ کی جاتی تھی تو جواب میں سب سے پہلا لنک مائیکروسافٹ کی ویب سائٹ ظاہر ہوتا تھا۔ اس طرح سال پہلے یعنی 29ستمبر 2006ءکو جب گوگل پر miserable failure یا صرف Failureلکھ کر سرچ کیا جاتا تھا تو سب سے اوپر امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی بائیوگرافی کا لنک ظاہر ہوتا تھا۔ اس طرح کے گوگل بومب آئے دن ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے بچاو¿ کے لئے گوگل نے کئی اقدامات کئے ہیں لیکن اپنے سرچ الگورتھم کی خوبی ہی میں موجود خامی سے مکمل چھٹکارا پانا فی الحال ممکن نہیں۔

اختتامی نکات:

پیج رینک شمار کرنے کا عمل تقریباً مہینے میں ایک بار ہوتا ہے۔
پیج رینک پوری ویب سائٹ کا نہیں بلکہ ہر ویب کا اپنا انفرادی پیج رینک ہوتا ہے۔
پیج رینک جاننے کے لیے کئی ٹول بار موجود ہیں۔لیکن ان کا استعمال گوگل کی نظر میں ممنوع ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے گوگل کہتا ہے کہ گوگل کے سرورز کی کمپیوٹنگ پاور صرف اس کی پراپرٹی ہے جس کے استعمال کا حق صرف گوگل کے پاس ہے۔ تھرڈ پارٹی ٹولز جو پیج رینک جاننے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، گوگل کے سرورز کو مختلف مقامات سے نتائج کے لئے Query کرتے ہیں۔ اس دوران کمپیوٹنگ پاور کا ایک بڑا حصہ اس غیر اہم مقصد کے لئے صرف ہوتا ہے۔ لہٰذا گوگل کے مطابق یہ ٹول گوگل کی کمپیوٹنگ پاور پر ڈاکے مارتے ہیں۔
کسی ویب پیج کا اصل پیج رینک صرف گوگل جانتا ہے۔ عام طور سے نظر آنے والے پیج رینک کو 100 فیصد درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔اس میں فرق ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا، گوگل کا نظام بہت پیچیدہ ہے۔ اس نظام کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اسے دھوکا دینا تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن اس نظام کی حقیقت ہم سے پوشیدہ ہے۔ لہٰذا عام طور پر ظاہر ہونا والا پیج رینک ہمارے لئے قابل بھروسہ نہیں ہوسکتا۔
اس کی ایک مثال مائیکروسافٹ اور ایڈوبی کی ویب سائٹ کی ہے۔ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ایڈوبی کی ویب سائٹ کا پیج رینک دس اور مائیکروسافٹ کی ویب سائٹ پیج رینک 9ہے۔ جبکہ یہ بات ہم سب ہی بخوبی جانتے ہیں کہ ایڈوبی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تعداد میں مائیکروسافٹ کے ویب پیجز کے لنکس دنیا بھر میں اربوں ویب پیجز پر موجود ہیں۔ جبکہ مائیکروسافٹ کی شہرت ایڈوبی سے زیادہ بھی ہے۔
تجارتی مقاصد کی وجہ سے گوگل تین سے چار ماہ پرانا پیج رینک ظاہر کرتا ہے (اسی لیے اگر آپ کی ویب سائٹ نئی ہے تو اس کا پیج رینک اگلے کئی ماہ تک صفر رہ سکتا ہے)۔
پیج رینک میں ترقی اور تنزلی میں دیگر کئی عوامل بھی کارفرما ہوتے ہیں۔ ان عوامل کے بارے میں بھی حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں۔
یہ تھا پیج رینک کا مختصر سا جائزہ۔ یہ نہ تو بہت زیادہ مشکل ہے اور نہ ہی کچھ آسان۔ اگر اس بارے میں تحقیق کی جائے تو مزید کئی صفحات بھر جائیں، کئی پیچیدہ ریاضیاتی مساوات ہیں جو پیج رینک کا عمل سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں لیکن میرے نزدیک ابتدائی اور بنیادی تعارف کے طور پر یہ نکات کافی ہیں۔



courtesy:

ماہنامہ کمپیوٹنگاردو زبان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا واحد مستند جرید

حجاموں کو کام مل گیا

ذیشان طفر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام ، رنگمالا ، مالاکنڈ ٹاپ

صوبہ سرحد کے ضلع سوات سے نقل مکانی والے لاکھوں افراد اپنے علاقے سے دور مختلف کیمپوں میں بغیر کسی روز گار کے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ تاہم ان کیمپوں میں آنے والے کچھ لوگوں کو آزادی سے اپنا روزگار شروع کرنے کا موقع بھی ملا ہے اس لیے وہ دوسرے لوگوں کے برعکس قدرے مطمئن بھی دکھائی دیتے ہیں۔

یہ لوگ حجام ہیں جنہوں نے طالبان کی دھمکیوں کے بعد سوات میں لوگوں کی داڑھیاں مونڈنا( شیو) بند کر دیا تھا۔

مالاکنڈ ٹاپ کے علاقے رنگمالا میں سوات کے متاثرین کے لیے امدادی کیمپ قائم کیا گیا ہے جہاں سوات کے صدر مقام مینگورہ سے آئے ہوئے تقریباً سات کے قریب حجام بھی رہائش پذیر ہیں۔ان کو گھر سے دوری کا دکھ تو ہے لیکن یہاں انہیں اپنا کام آزادی سے کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔

ان میں شوکت علی بھی ہیں جو سوات کے صدر مقام مینگورہ سے نقل مکانی کر کے کیمپ پہنچے ہیں جہاں انہوں نے اتوار کو تقریباً آٹھ ماہ کے بعد پہلی بار تین لوگوں کی شیو کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سوات میں ایک سو سے زائد حجام کی دوکانیں تھیں جنہیں مقامی طالبان کی جانب سے ہدایت ملی تھیں کہ کسی کی داڈھی مونڈنا غیر شرعی ہے اس لیے آپ لوگ فوری طور پر یہ کام بند کر دیں ۔ جس کے بعد خوف کی وجہ سے حجاموں نے لوگوں کی شیو کرنا بند کر دی تھی اور صرف بال تراشنے کا کام کرتے تھے۔


انھوں نے کہا کہ تقریباً آٹھ ماہ کے بعد انہیں شیو بنانے پر خوشی ہوئی ہے اور کیمپ میں رہائش پذیر دوسرے لوگوں کے برعکس انہیں کچھ نہ کچھ آمدن بھی ہو جاتی ہے۔

ایک دوسرے حجام فرمان علی کی مینگورہ میں اپنی دوکان تھی لیکن اب وہ رنگملا کیمپ کے باہر کھلی جگہ پر بال تراشنے اور شیو بنانے کا کام کرتے ہیں تاہم وہ بغیر دوکان کے کام کرنے پر بھی خوش نظر آتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سوات میں طالبان کی جانب سے شیو بنوانے پر پابندی سے پہلے وہ روزانہ پندرہ سے بیس شیو روزانہ کرتے تھے لیکن اچانک طالبان کی طرف سے پابندی لگانے کے بعد ان کا کام کافی متاثر ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی جانب سے شیو بنانے والے حجام کو دھمکی دی جاتی تھی کہ اس کی دوکان یا گھر کو تباہ کر دیا جائے۔

فرمان علی نے کہا کہ نے کہا کہ کیمپ میں وہ روزانہ صرف شیو بنانے سے پچاس سے سو روپے کما لیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سوات سے تقریباً تمام ہیئر ڈریسر نقل مکانی کر چکے ہیں اور اب وہ مختلف کیمپوں میں مکمل آزادی سے اپنا کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ کیمپ میں اگرچہ وہ کافی عرصے کے بعد آزادی سے اپنا کام کر رہے ہیں لیکن انہیں اس دن کے انتظار ہے جب وہ واپس اپنے شہر جا کر مکمل آزادی اور خوف کے بغیر اپنا کام کر سکیں گے۔

سوات کے شہر مینگورہ سے تعلق رکھنے والے اکبر شیو بنوا رہے تھے انہوں نے بتایا کہ ایک سال کے بعد وہ حجام سے شیو بنوا رہے ہیں کیونکہ مینگورہ میں طالبان کے خوف سے کوئی حجام شیو نہیں بناتا تھا۔ اور لوگ بھی حجام کی دوکانوں میں جانے سے اجتناب کرتے تھے۔ لیکن ایک روز پہلے وہ سوات سے نقل مکانی کر کے کیمپ میں پہنچے ہیں اور آج ایک سال کے بعد انہوں نے حجام سے داڑھی منڈوائی ہےاور انہیں اچھا لگ رہا ہے کیونکہ گھر میں شیو بنانا مشکل لگتا تھا۔

واضع رہے کہ سوات میں طالبان میں جہاں لڑکیوں کے سکول جانے ، موسیقی سننے لگا رکھی تھی وہیں داڑھی مونڈوانے پر پابندی تھی۔لیکن مبصرین کے مطابق حالیہ فوجی آپریشن اس صورت میں کامیاب ہو گا جب لوگوں اپنے علاقوں میں واپس جا کر مکمل آزادی اور بغیر خوف کے اپنا اپنا روز گار شروع کر سکیں گے۔

آج سگریٹ نہ پیئیں: اقوام متحدہ

ارمان صابر

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں تمباکو نوشی کرنے والوں پر زور دیا ہے کہ وہ آج یعنی اتوار کے دن سگریٹ نہ پیئیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق 2020 تک تمباکو نوشی ہلاکتوں اور معذوری کی سب سے بڑی وجہ بن جائے گی۔ اتوار کو ’تمباکو نوشی ترک کرنے کا عالمی دن‘ منایا جارہا ہے جس کا مقصد تمباکو نوشی کے مضر اثرات پر روشنی ڈالنا ہے۔

پاکستان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں تمباکو استعمال کرنے کے رجحان میں کمی جبکہ تیسری دنیا کے ممالک میں اس رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔چین میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد امریکہ کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے۔

پاکستان میں تمباکو کے استعمال کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک میں ہر دوسرا شخص تمباکو کا استعمال کرتا ہے اور اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ پاکستان اینٹی سموکنگ سوسائٹی کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اکتیس کمپنیوں کے پاس سگریٹ بنانے کے اڑتیس کارخانے موجود ہیں اور سگریٹ کی فروخت کی مد میں حکومت ٹیکسوں کے ذریعے تقریباً چَالیس اَرب روپے سالانہ وصول کرتی ہے۔

پاکستان میں تمباکو کا استعمال سگریٹ، پان، اور دیگر طریقوں سے کیا جاتا ہے جبکہ ملک میں تمباکو کی سالانہ فروخت ایک لاکھ ٹن ہے۔

ماہرِامراض سینہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید خان نیشنل الائنس فار ٹوبیکو کنٹرول آف پاکستان کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ مغربی ممالک میں تمباکو کے استعمال پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں جن پر سختی سے عملدرآمد بھی کیا جارہا ہے اور یہ اقدامات وہاں تمباکو کے استعمال کے رجحان میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر جاوید خان کے مطابق مغربی دنیا میں پابندیوں کے باعث سگریٹ بنانے والی کمپنیاں پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں اپنی مصنوعات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کررہی ہیں، اور یہاں پر مناسب قانون بھی نہیں ہے اور اگر ہے تو ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا، پھر یہاں ناخواندگی زیادہ ہے اور تمباکو کے نقصانات کے بارے میں لاعلمی زیادہ ہے، لہذٰا سگریٹ بنانے والی کمپنیوں کے لیے یہاں اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے ماحول سازگار ہے اور نوجوان اس لت میں گرفتار ہورہے ہیں۔

ان کے بقول اس وقت ملک میں بتیس فیصد نوجوان اور آٹھ فیصد خواتین سگریٹ پیتی ہیں لیکن اگر اس میں پان، چھالیہ، گٹکا، نسوار، شیشہ اور دیگر اقسام کو شامل کرلیا جائے تو ملک کے چوّن فیصد عوام تمباکو کے نشے میں گرفتار ہیں۔


پاکستان چیسٹ سوسائٹی کے نائب چئرمین اور جناح ہسپتال کراچی میں چیسٹ میڈیسن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ندیم رضوی کہتے ہیں کہ پچیس سے زیادہ مہلک بیماریاں تمباکو کے استعمال سے ہوتی ہیں۔ ان کے بقول نوے فیصد پھیپھڑے کے سرطان تمباکو نوشی کی وجہ سے ہوتے ہیں، اسی طرح دمہ اور سینے کے انفیکشن کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

ان کے بقول ایسے لوگ جو دن میں پچیس سے زیادہ سگریٹ پیتے ہیں، ان کو دل کا دورہ پہلے گھنٹے میں ہی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے، جبکہ سگریٹ نوشی دماغ کی شریانوں میں خون کی گردش رکنے کا سبب بھی بن سکتی ہے جس سے فالج ہوسکتا ہے، اسی طرح اور بھی کئی بیماریاں ہیں جو تمباکو کے استعمال سے ہوتی ہیں۔

ماہرِ امراض سینہ پروفیسر ڈاکٹر جاوید خان کا کہنا ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے واضح گائڈ لائن دے دیں ہیں کہ کس طرح تمباکو کے بڑھتے ہوئے استعمال کو روکا جاسکتا ہے۔

ان کے بقول سب سے پہلے تو تمباکو پر ٹیکس میں اضافہ کرنا پڑے گا، کیونکہ ملک میں سگریٹ اتنی سستی ہے کہ سات روپے میں دس سگریٹیں مل جاتی ہیں، دوسرے یہ کہ تمام پبلک مقامات کو اسموک فری یعنی تمباکو نوشی سے پاک ہونا چاہیے جو یہاں پر نہیں ہے، اور تیسری اہم بات جو حکومت کے کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ سگریٹ کے پیکٹ پر تصویری ہیلتھ وارننگ ہونی چاہیے جو کہ ابھی صرف لکھنے کی حد تک محدود ہے۔

ان کے بقول مغربی ممالک میں تصویر کے ذریعے بتایا جارہا ہے کہ تمباکو نوشی کتنی خطرناک چیز ہے جبکہ ہمارے پڑوسی ممالک نے بھی اس پر عملدرآمد شروع کردیا ہے جبکہ ہم ابھی بہت پیچھے ہیں۔

Tuesday, June 2, 2009

شمالی کوریا کا جوہری تجربہ اور مغرب (Weekly Humshehri)


ڈاکٹر مجاہد مرزا
روس اور یورپی اتحاد کی مشترکہ سمٹ روس کے مشرق بعید میں سائبیریا کے دوسرے بڑے شہر خبارووسک (Khabarovsk) میں منعقد کرنے کا مقصد بتاتے ہوئے صدر روس دمتری مدویدیو نے بتایا تھا کہ اس نوعیت کی گذشتہ سمٹ کوہِ یورال کے ایک شہر خانتی مانسک (Khantimansinsk) میں ہوئی تھی تو یورپ کے تمام سربراہ کراہ رہے تھے کہ ”اف“ کس قدر دور ہے۔ ماسکو سے ساڑھے پانچ گھنٹے کا مزید ہوائی سفر کرنا پڑا ”مذاق میں کہا گیا کہ آئندہ یہ فورم کسی اور شہر میں منعقد نہ کر لیا جائے، سب نے ہنسی خوشی اتفاق کر لیا تو ہم (روسیوں) نے یہ سوچا کہ یورپی سربراہوں کو دکھایا جائے کہ اگرچہ یورپ کی جغرافیائی سرحدیں تو کوہِ یورال تک ہیں لیکن اس کی سیاسی سرحد بہت ہی دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ یوں خبارووسک یورپ کے سربراہان کا عارضی مسکن بنا جو ریل کے راستے ماسکو سے 8523 کلومیٹر دور ہے، بذریہ طیارہ بھی ماسکو سے نیو یارک کے سفر کی نسبت زیادہ وقت لگتا ہے اور ماسکو اور خبارووسک کے وقت میں آٹھ گھنٹوں کا فرق ہے، اتنا ہی جتنا ماسکو اور نیو یارک کے وقت میں البتہ نیو یارک کے لیے ماسکو کے وقت میں سے آٹھ گھنٹوں کو منہا کرنا ہوتا ہے، اس کے برعکس خبارووسک کے لیے ماسکو کے وقت میں آٹھ گھنٹوں کا اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ سمٹ میں روس اور یورپی اتحاد کے موقف متضاد رہے لیکن پھر بھی بحث سفارتی زبان میں تعمیری رہی کیونکہ وہ ساری بات ہی توانائی کے وسائل بالخصوص گیس کی فراہمی سے متعلق موجود میثاق توانائی کے بارے میں تھی جس میں روس نہ صرف شریک نہیں ہے بلکہ اس میثاق کو ازکاررفتہ اور غیر موثر سمجھتا ہے۔ دمتری مدویدیو نے اس سلسلے میں ایک نیا بین الاقوامی میکانزم وضع کرنے کی تجویز دی ہے جو توانائی کے وسائل پیدا کرنے والے، انہیں استعمال کرنے والے اور ترسیل کے لیے گزر گاہ فراہم کرنے والے ممالک سبھی کے مفادات کا یکساں طور پر تحفظ کر سکے۔

22 مئی کو خبارووسک میں یہ سمٹ تمام ہوئی۔ 23 اور 24 ہفتہ اور اتوار روس سمیت تمام یورپ میں تعطیل کے ایام ہوتے ہیں۔ 25 مئی کو علی الصبح خبارووسک کے زلزلہ پیما مرکز میں زیر زمین جھٹکے ریکارڈ کیے گئے جن کا مقام وقوعہ روس کی عوامی جمہوریہ کوریا یعنی شمالی کوریا کے ساتھ سرحد سے محض 130 کلومیٹر کی دوری پر شمالی کوریا کی سرزمین پر ایسا مقام تھا جہاں اس ملک کا عسکری ٹھکانہ ہے اور دن چڑھتے ہی شمالی کوریا نے اعلان کر دیا کہ اس نے زیر زمین جوہری تجربہ کیا ہے۔ ہلچل مچ گئی اور حسب معمول بڑے بڑے جوہری وار ہیڈز کے مالک ممالک اور ان کے حواریوں کو شدید تشویش لاحق ہو گئی۔

جزیرہ نما کوریا کا بالائی حصہ جو شمالی کوریا کے نام سے موسوم ہے کی زیادہ سرحد عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ منسک ہے مگر ایک چھوٹی سی پٹی خبارووسک سے چند سو کلو میٹر کی دوری پر روس کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے۔ ریل گاڑی کے ذریعے اسی سرحد سے گزر کر شمالی کوریا کے سربراہ کم اِل جُنگ دو چار بار روس بھی آ چکے ہیں کیونکہ موصوف ہوائی سفر سے نفسیاتی طور پر خائف ہیں۔ کوریا 1945 ءسے دو حصوں میں تب سے منقسم ہے جب سے اسے ہار جانے والے جاپان کے قبضے سے دوسری جنگ عظیم میں آزاد کرایا گیا تھا۔ پھر کوریا کی جنگ شروع ہوئی جس میں ہاتھ رنگ کر پاکستان کے بھی چند گھرانے بے حد امیر ہوئے تھے۔ 25 جون 1950ءکو شروع ہونے والی اس جنگ کو 27 جولائی 1953ءمیں فائر بندی کے ایک معاہدے کے تحت روکا گیا تھا مگر ان منقسم خطوں میں مخاصمت کبھی ختم نہیں ہوئی۔ جنگ عظیم کے بعد جاپان امریکہ کے قبضے میں تھا اور سمندر کے راستے کم اِل سنگ کے حامیوں کی مخالفت میں لڑنے والوں کو امریکہ اور اس کے حواریوں سے امداد ملتی رہتی تھی۔ کم ال سنگ کی مدد چین کرتا اور کسی حد تک سوویت یونین نے بھی کی تھی۔ کم ال سنگ ایک عرصہ چین میں رہے تھے اور یوں ان کا سوویت یونین پر اعتماد متزلزل رہا تھا لیکن بہر حال سوویت یونین بھی چین کی طرح ایک سوشلسٹ ملک تھا اس لیے شمالی کوریا کو سرد جنگ کے ادوار میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک جاپان اور جنوبی کوریا سے خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا، یہ دونوں ممالک اس کے ہمسایہ ممالک ہیں۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ واحد عسکری طاقت بن گیا تھا، جرمنی کو متحد کیے جانے سے شمالی کوریا کو بھی خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں انہیں بھی زبردستی متحد نہ کر دیا جائے۔ شمالی کوریا کی فوج بہت منظم اور جری ہے مگر امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر اس کی زمینی سرحد کے عین نزدیک اور جاپان کے ساتھ مل کر اس کی سمندری سرحدوں کے ساتھ فوجی مشقیں سرانجام دیتا رہتا ہے۔ 2009ءکے نیو یارک ٹوِن ٹاورز کے سانحے کے بعد بش صاحب نے ایران اور لیبیا کے ساتھ شمالی کوریا کو بھی ”بدی کے محور“ میں شامل کر دیا۔

ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی خاطر عراق اور افغانستان میں فوجیں اتار دیں، مگر ایران نہ صرف تیل پیدا کرنے اور بیچنے والا بڑا ملک ہے بلکہ اس کے جغرافیائی سیاسی حالات شمالی کوریا کی نسبت بالکل ہی مختلف ہیں۔ پھر بھی مغرب نے ان دونوں ممالک کے جوہری مسئلے کو ایک ہوا بنا دیا۔ ایران پر عائد کردہ پابندیوں کا اثر اس لیے بھی کم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تیل کے وسائل کو کام میں لاتا ہے، دوسرے وہ عراق اور لبنان میں اپنے حامیوں کی ایک بڑی تعداد ہونے کے باعث امریکہ کو زچ کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ روس کے معاشی مفادات بھی ایران سے بندھے ہوئے ہیں اس لیے ایران کو روس کا سہارا کسی نہ کسی شکل میں مل ہی جاتا ہے۔ شمالی کوریا میں قطعی مطلق العنان حکومت ہے۔ فوج کو چاق و چوبند رکھنے اور اپنے نظام کے گن گانے کے پروپیگنڈے کے اخراجات کے باعث باقی عوام کے لیے روٹی بھی کم پڑ جاتی ہے، شمالی کوریا نے جھوٹ سچ اپنے جوہری مسئلے کو خود بھی بہت ہوا دی کیونکہ اس طرح وہ مغرب سے ’ڈیل‘ کرنا چاہتا تھا۔ چھ ممالک پر مشتمل مذاکرات کی داغ بیل ڈالی گئی جن میں شمالی اور جنوبی کوریا کے علاوہ جاپان، امریکہ ، روس اور چین شامل تھے۔ اس سے پہلے 9 اکتوبر 2006 ءکو شمالی کوریا نے اعلان کر دیا تھا کہ اس نے اپنا پہلا جوہری تجربہ کر لیا ہے۔ جاپان کے زلزلہ پیما مراکز نے ریکٹر سکیل پر 4.2 درجے کا جھٹکا ریکارڈ کیا تھا مگر بعد میں ماہرین کے مطابق یہ دھماکہ حقیقی جوہری بم کی خاطر کیے جانے والے دھماکے کی طرح کا ثابت نہیں ہوا تھا۔ شش فریقی مذاکرات میں بڑی مشکل سے طے ہوا کہ شمالی کوریا اپنا یون بین (Yun bin) کا جوہری ٹھکانہ تلف کر دے گا، اپنا جوہری پروگرام ترک کر دے گا جس کے عوض امریکہ، یورپی ممالک، چین اور روس اسے خام تیل کے علاوہ دیگر معاشی رعایات دیں گے اور بجلی بنانے کے لیے لائٹ واٹر ری ایکٹرز بھی فراہم کریں گے۔ روس اور چین نے اپنی ذمہ دارایاں نبھائیں۔ شمالی کوریا نے بھی اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے کام شروع کر دیا مگر امریکہ اور یورپ اپنا وعدہ وفا نہ کرنے پر تلے رہے۔

کچھ عرصہ قبل شمالی کوریا نے دعویٰ کیا کہ اس نے خلا میں سیارہ پہنچائے جانے کی خاطر راکٹ چھوڑا ہے، بس پھر کیا تھا واویلا مچ گیا کہ سیارچے کی آڑ میں شمالی کوریا بین البراعظمی راکٹ چھوڑے جانے کا تجربہ کر رہا ہے۔ اس کشیدگی کے باعث مغرب نے شمالی کوریا پر پابندی عاید کیے جانے کی بات کی اور شمالی کوریا نے احتجاجاً شش فریقی مذاکرات میں عدم شرکت کا اعلان کر دیا۔ گذشتہ ماہ اپریل میں افواہیں گرم ہو گئیں کہ شمالی کوریا جوہری ہتھیار بنانے کا مکمل طور پر اہل ہو چکا ہے جس کی تائید میں عالمی ایجنسی برائے جوہری توانائی کے سربراہ محمد البرادی نے بھی بیان دیا۔ بالآخر 25 مئی کو شمالی کوریا نے تجربہ کر ڈالا۔

تصدیق تو ہوتی رہے گی کہ یہ واقعی درست تجربہ تھا یا نہیں لیکن دیکھنا یہ چاہیے کہ امریکہ اور روس 1991ءمیں کیے گئے سٹارٹ ون نامی معاہدے کے تحت اب تک اپنے جوہری وارہیڈز کی تعداد کو دس ہزار فی ملک سے گھٹا کر چھ ہزار فی ملک کر سکتے ہیں مگر خوف میں مبتلا ممالک کے جوہری تجربے پر ایسے بدکتے ہیں جیسے ان پر جوہری وار کر دیا گیا ہو۔ کوئی بھی صحیح العقل شخص جوہری ہتھیار بنائے جانے کے حق میں نہیں ہو سکتا مگر کمزور ممالک کو یا تو اس قدر معاشی امداد دی جائے کہ ان کا انفراسٹرکچر صحیح ہو اور لوگ خوشحال ہو کر درست قیادت کو سامنے لائیں یا پھر جوہری ہتھیاروں کے مالک بڑے ممالک کو اپنے اس نوع کے ہتھیاروں کو انتہائی کم کرنا ہو گا۔ پاکستان، جس کے پاس ایسے وار ہیڈز کی تعداد پچاس کے نزدیک ہے، اس کے عدم استحکام اور جوہری وار ہیڈز دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جانے کے خدشے کا اس قدر شور مچایا جاتا ہے جیسے جوہری وار ہیڈز نہ ہوا دستی بم ہوا، اٹھایا اور دے مارا، مگر اسرائیل کی بات ہی گول کر جاتے ہیں۔ ضمناً بتاتا چلوں کہ اتوار کے روز ریڈیو ماسکو پر دیے گئے تبصرے میں جوہری وار ہیڈز کے بارے میں درست معلومات فراہم کرنے والوں میں انگلستان اور فرانس، نہ کرنے والوں میں چین، ہندوستان، پاکستان اور اسرائیل کا نام تھا لیکن سوموار کے روز بعینہ اس طرح کے تبصرے سے اسرائیل کا نام حذف کر دیا گیا تھا۔ کچھ سمجھے آپ؟ مغرب کے دوہرے معیار رہے تو شمالی کوریا تو ایک طرف شاید سری لنکا کو بھی جوہری تجربہ کرنا پڑے۔