Thursday, June 4, 2009

قم باذن اللہ (1)



Updated at: Thursday,04 June 2009
کیا آرمی کے موجودہ آپریشن کے نتیجے میں ملاکنڈ ڈویژن اور صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں میں حکومتی عملداری (Gorvenment Writ)قائم ہوجائے گی ۔ عمل داری قائم کرنے کی اس کوشش میں کتنا عرصے لگے گا۔ آپریشن کے نتیجے میں جو تیس لاکھ لوگ بے سروسامانی اور خوف و اضطراب کی حالت میں بے گھر ہوگئے ہیں۔ ان کو واپس اپنے علاقوں میں آباد کرنے کی کوئی امید مستقبل قریب میں نظر آتی ہے۔ اپنے گھروں سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگوں میں جو ردعمل پیدا ہو رہاہے ۔ اس سے انتہا پسندی کو مزید تقویت تو نہیں ملے گی ؟اگرحکومتی عمل داری قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی جان ،مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے تو کیا جو طریقہ اس کے لئے اختیار کیاگیا ہے اس سے یہ مقاصد حاصل ہو رہے ہیں۔ اس طرح کے بے شمار سوالات متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے اور متاثرین کے واقعات سننے کے بعد ہر شخص کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپریشن سے قبل اور اس کے بعد واقعات کا تجزیہ کرنے والوں سے انتشار فکری اور کنفیوژن کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
شدت پسندی اور اسلحے اور طاقت کے بل پر اپنی بات منوانے والوں کی تمام تنظیموں کو ابتدائی طور پر کھڑا کرنے میں پاکستانی حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے ۔ یہ تنظیمیں بالآخر ان کے ہاتھ سے نکل جاتی ہیں اور پوری قوم کے لئے درد سربن جاتی ہیں۔ انہیں وجود میں لانے کا بنیادی مقصد برطانوی سامراج کا سکھایا ہوا حکومتی عمل داری قائم کرنے کا گر یہ ہے کہ عوام کو آپس میں لڑایا جائے۔ ایرانی انقلاب کے بعد امریکی تجزیہ نگاروں اور تھنک ٹینکس نے امریکی حکومت کو متنبہ کردیا کہ عالم اسلام میں ایرانی انقلاب کے طرز پر انقلابات نمو دار ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں اور اگر اس طرح کا انقلاب ترکی ،عالم عرب ،پاکستان یا انڈونیشیا میں نمودار ہوا تو مغربی دنیا کے لئے ان علاقوں کو اپنی زیر نگرانی رکھنے اور اس علاقے کے معدنی ذخائر خصوصاً تیل کے ذخائر پر کنٹرول قائم رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ اس طرح عوامی انقلاب کو روکنے کے لئے مغربی مفکرین نے عالم اسلام میں بڑے پیمانے پر انتشار پیدا کرنے کے منصوبوں پر عمل درآمد کرنا شروع کیا۔
1980ء میں میری ملاقات پیرس میں مقیم ایک بڑے مسلمان مفکر اور اللہ کے ولی ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے ہوئی ۔ پیرس کی ایک بڑی مسجد میں اس درویش مفکر نے مجھے بتایا کہ مغربی میڈیا کے منفی پراپیگنڈے اور اسلام کو دہشت گردی سے وابستہ کرنے کی کوششوں کے باوجود پیرس میں ہر ہفتے اوسطاً پانچ سفید فام فرانسیسی جو عموماً ذہین طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اسلام قبول کررہے ہیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فرانس اور یورپ کے بائیں بازو کے دانشور کیمونزم اور سوشلزم کے فلسفے سے مایوس ہو کر اسلام کو انسانیت کے لئے راہ نجات سمجھنے لگے تھے ۔ اس وقت اسلام کے روشن چہرے کو مسخ کرنے کی تدابیر زور پکڑنے لگیں۔ نبی رحمت حضور رحمتہ اللعالمین کے ایسے کارٹون جن میں نبی رحمت ۖکو خاکم بدہن دہشت گرد کے روپ میں پیش کیاگیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری کتاب ہدایت جس کا بنیادی سبق اللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس پیدا کرناہے ،کو دہشت گردی کی کتاب کے طور پر پیش کیاگیا۔ جہاد فی سبیل اللہ جس کا بنیادی مقصد فتنہ وفساد، استحصال اور ہر طرح کے ظلم کا خاتمہ اور نظام عدل و قسط اور انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر انسانوں کے رب کی غلامی میںدیناہے،کو مسخ کرکے قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کے راہ عمل کے طور پر پیش کیاگیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کے زیر اثر مسلمان دنیا کے ذرائع ابلاغ کا وطیرہ بن گیاکہ اسلام کی بنیادی اصطلاحات جہاد اور شریعت کو وحشت اور جہالت سے وابستہ کردیں۔ خود مسلمان ممالک میں اسلام کا چہرہ بگاڑنے کی کوششیں شروع کی گئیں اور دانستہ یا نادانستہ طور پر بہت سے مسلمان گروہ اس بڑے کھیل کا حصہ بن گئے ۔
مسلمانوں کی حکومتیں امریکی اتحاد میں شامل ہو کر مسلمانوں کواندر سے کھوکھلا کرنے کے اس بڑے کھیل میں شامل ہوگئیں۔ اس کھیل میں مغربی ذرائع ابلاغ عالمی مالیاتی ادارے ،ملٹی نیشنل تجارتی ادارے اور مغربی ممالک سے پیسہ اور ہدایات وصول کرنے والی این جی او ز(غیر حکومتی ادارے) مغرب کے بڑے ہتھیار ہیں۔ملک کا ہر حساس شہری اس بات پر پریشان ہے کہ کس طرح اسلام آباد کے دل میں واقع ایک عام مسجد (لال مسجد ) اور ایک عام مدرسے کے بارے میں یہ پراپیگنڈہ کیاگیا کہ یہاں بڑی تعداد میں غیر ملکی دہشت گرد قیام پذیر ہیں اس مسجد اور مدرسہ پر ایک کمانڈو بریگیڈ کا حملہ کروانے سے قبل مصالحت کی تمام کوششیں ناکام بنادی گئیں۔ اس مسجد اور مدرسہ کو کنٹرول کرنے کے لئے صرف اس کا پانی اور بجلی کا کنکشن کاٹنا ہی کا فی تھا لیکن اس میں سینکڑوں بچیوں اور معصوم طلبہ کو قتل کرکے امریکہ کو اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کرنا ضروری تھا۔
یہ سب کچھ کیوں کیاگیا ۔ اسلام اور مسلمانوں کی یہ تصویر کس نے ساری دنیا کو دکھائی کہ پردہ نشیں عورتوں اور طالبات کے روپ میں دہشت گرد تربیت حاصل کررہے ہیں اس میں کتنی حقیقت تھی اور کتنامبالغہ ۔ پھر ہمارے ملک میںجو لوگ ایک بچی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو دکھا کر پوری دنیا میں واویلا کرتے ہیں ۔ وہی لوگ سینکڑوں بچوں ، بچیوںکے قتل پر قاتلوں کو داد دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ یہ کس بڑے کھیل کا حصہ ہیں ۔ یہ سب کچھ کیا ہے ؟
جنرل ضیاء الحق صاحب بظاہر صوم و صلوٰةکے پابند مسلمان تھے لیکن ایک امریکی دانشور جان اسپازیٹو(John Esposito)نے انہیں عالم اسلام کے لئے امریکی پالیسی سازوں کا سب سے کامیاب مہرہ قرار دیا ہے جس نے خود اسلام کے نام سے اسلامی قوتوں کو گٹھے لگا دیا تھا۔ جماعت اسلامی کے مقابلے میں کراچی میں ایم کیو ایم کو ابھارنے ، طلبہ یونینز پر پابندی لگا کر اسلامی جمعیت طلبہ کے اثرات کو کم کرنے اور ٹریڈ یونین پر پابندی لگا کر جماعت اسلامی کی بڑی ٹریڈ یونینز کو ختم کرنے کا سہرا ان کے سر ہے۔ جناب جنرل ضیاء الحق صاحب اس کے دور میں جماعت اسلامی کے ایک رکن جودیر کی ضلع کونسل کے منتخب ممبر تھے اور افغان جہاد کے مویدین میں شمار ہوتے تھے اور ان دنوں کلاشنکوف ہاتھ میں لے کر خطبہ جمعہ دیا کرتے تھے کو سیاہ پگڑیاں باندھنے والے تحریک نفاذ شریعت محمدی کے رہنما کے طور پر جماعت کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا ۔ جمہوریت کفرہے اور ووٹ دینا حرام ہے کا نعرہ بھی اس دور میں ان کے منہ میں ڈال دیاگیا۔ اس دور میں ایرانی انقلاب کے زیر اثر پاکستان کے اہل تشیع ایک جوش اور جذبے سے اٹھے اور اسلام آباد کے دفاتر میں گھس کر فرقہ بندی پر مبنی اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے مقابلے میں سپاہ صحابہ منظم ہوگئی اور سپاہ صحابہ کے زور کو توڑنے کے لئے ایک دوسری عسکری شیعہ تنظیم سپاہ محمد کے نام سے منظم کردی گئی چنانچہ سپاہ محمد اور سپاہ صحابہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئیں۔ اسی دور کی بات ہے کہ لاہور شہر میں شاہی مسجد کے سامنے دوگروہ ایک دوسرے کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔(جاری ہے)

دونوں گروہوں کے سربراہوں کا تعلق محکمہ اوقاف کے تابع علماء کرام کے ساتھ تھا ۔ ایک گروہ شاہی مسجد لاہور میں ''یارسول اللہ ۖکانفرنس ''منعقد کرنا چاہتاتھاکہ دوسرا گروہ ''محمد رسول اللہ ۖکانفرنس ''منعقد کرناچاہتاتھا۔
یہ لڑائی اب بڑے پیمانے پر مسلح ہو کر لڑ ی جا رہی ہے ۔ کرم ایجنسی میں شیعہ سنی فساد گرم ہے۔ خیبر ایجنسی میں ایک گروہ توحید کے علمبردار بن کر درباروں اور مزاروں کے خلاف علم جہاد بلند کررہاہے ۔ ملاکنڈ ڈویژن میںاسلامی نظام عدل کے نفاذ کے نام سے حجاموں کی دکانوں کو نوٹس جاری کئے جاتے ہیں ۔ میوزک شاپس پر دھماکے کئے جاتے ہیں۔ حکومتی ادارے کچھ مدت تک اس طرح کے عناصر کی سرپرستی کرتے نظر آتے ہیں اور جب یہ خوب پر پرزے نکالتے ہیں تو ان پر حملہ کے بہانے ایک ایسااقدام کرتے ہیں جس کی زد میں بے گناہ لوگ آکر تباہی وبربادی کا نشانہ بنتے ہیں ۔یہ سب کارروائیاں اسلام کی اندرونی لڑائی (Islamic Internal Battle)کو گرم کرکے مسلمانوں میں اندرونی انتشار پھیلانے کے بڑے کھیل کا حصہ ہیں ۔
اب ان سوالات کی طرف آتے ہیں جو ابتداء میں پیش کئے گئے تھے۔ کیا موجودہ آرمی آپریشن کے نتیجے میں حکومتی رٹ اور حکومتی عملداری قائم ہوگی۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ جمہوری اور منتخب حکومت اپنی عمل داری قائم کرنے کے لئے ہمیشہ جمہوری طریقہ اختیار کرتی ہے جس طرز کا فوجی آپریشن ملاکنڈ ڈویژن میں روا رکھاگیاہے۔ اس سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہے ۔ علاقے کے نصف عوام اتنے گھر چھوڑ گئے باقی نصف کرفیو ، گولہ باری اور بمباری کی وجہ سے محصور ہیں جب کہ عسکریت پسند اپنے اسلحے سمیت اپنے علاقے اور مقامات بدلتے رہتے ہیں۔ گندم اور پھلوں کی تیار فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ مویشی کوئی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے مررہے ہیں۔ اگلی فصل دھان ہے جس کے لئے زمین تیار کرنے کا وقت ہے لیکن آبادی کی منتقلی اور لوگوں کے محاصرے میں ہونے کی وجہ سے کھیتوں میں نکلنا ممکن نہیں ہے۔ تین فصلوں سے محروم ہونے کی وجہ سے سوات کے عوام کی اکثریت غربت اور افلاس کے گھیرے میں آکر بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ایک غیرت مند ، خود دار اور محنت کش قوم کو اس حالت میں دیکھ کر کون محب وطن اطمینان محسوس کرسکتاہے۔ ہزاروں نوجوان سخت صدمے سے دوچار ہو کر کسی بھی انتہائی اقدام پر آمادہ ہو رہے ہیں ۔
میں تین روز تک ملاکنڈکے فوجی آپریشن کے خلاف اسلام آبادکے ایک کیمپ میں بیٹھا تھا ۔مجھے دیر اور سوات کے نوجوانوں کی زبانی کئی روح فرساواقعات سننے کا موقع ملا۔ ایک نوجوان نے بتایا کہ ان کے گھر کے سولہ افراد جن میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی ایک ٹرک میں بیٹھ کر بونیر سے نکلنے کی تیاری کررہے تھے کہ ان کے ٹرک پر ایک مارٹر گولہ گرا اوران کے چھ افراد جن میں ایک بہن ایک چچاز اد بہن ایک پھوپھی شامل تھیں فوت ہوگئیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر مجھے تحریک اسلامی کی تربیت سہارا نہ دیتی تو میں خود کش حملہ آور وں کے جتھے میں شامل ہوجاتا۔ اخبارات میں کھانا لینے کے لئے برتن اٹھائے ہوئے اور اشیائے ضرورت کے لئے ہاتھ پھیلائے ہوئے خواتین ، مردوں اور بچوںکی جو تصویریں شائع ہوتی ہیں یہ بے گناہ اور معصوم اور خود دار اور عزت نفس رکھنے والے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔
کیا پاکستان کے قیام کامقصد یہ تھاکہ امریکہ اور برطانیہ کی وفاداری کے عہد پر قائم ایک ایسی ریاست قائم کی جائے جو امریکہ کی صف اول کی اتحادی بنے ، ان کے عالمی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور ان کے عالمی مفادات کی خاطر اپنی قوم سے لڑے ۔ ان کی آرزوئوں کا خون کرے اور اپنی قوم کی ترجمانی کی بجائے غیروں کا ترجمان بن جائے۔ غیر ملکی تہذیب و تمدن کو فروغ دینے کے لئے اپنے ذرائع ابلاغ کو استعمال کرے اور اپنی تہذیب کا مذاق اڑائے ،پاکستان کے لبرل حلقوں کو قائد اعظم کی ساری تقریر وں میں سے ان کے گیارہ ستمبر1947ء کی تقریر کا یہ اقتباس بہت ہی پسند آگیا ہے۔ بالآخر پاکستان میں سیاسی حوالے سے نہ مسلمان مسلمان رہے گا اور نہ ہندو ہندو رہے گا بلکہ یہ ایک ملک کے برابر کے آزاد شہری ہوں گے۔ اس کو لبرل طبقے (Jinnah's Vision)جناح کا تصور پاکستان کہتے ہیںاور اس طرح پاکستان کی اساس ، اسلامی فکر اور اسلامی نظریے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کی یہی سوچ فساد کی جڑ ہے ۔ اسلام کے رشتے کوکاٹنے کے بعد وہ کونسارشتہ ہے جو بلوچ ، پختون ،پنجابی ، سندھی ،مہاجر کو متحد رکھ سکتاہے۔یہ پاکستان کی اساس پر تیشہ چلانے والی بات ہے ، اے این پی کے ''بابائے اعظم ''باچا خان آخری دم تک پختونوں کو یہی سمجھاتے رہے کہ ''پاکستان '' کے نام سے دھوکہ نہ کھائیں۔یہ دراصل ''پاکستان '' نہیں بلکہ ''پنجاب ''ہے۔ افغانستان سے واپس آنے کے بعد تہکال بالا میں ان کی ایک تقریر سننے کے بعد میرے ایک برخوردار ہنستے ہوئے آئے اور ان کی نقل اتار کر کہنے لگے کہ طنزیہ لہجے میں پاکستان ، پاکستان کہنے کے بعد لوگوںسے کہنے لگے ''نیک بختو پنجاب ہے پنجاب ''
ہمارے بلوچ اور سندھی نیشلسٹ ہمیں ہمیشہ یہی سمجھاتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کررہاہے ۔ انہیں اسلامی نظام ، اسلامی بھائی چارے اور اسلام کے نظام عدل کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پاکستانی فوج کو پنجاب کی فوج قرار دیا جا رہاہے۔ بلوچستان میں پہلے ہی قومی ترانہ اور قومی جھنڈے کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اب وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ IDPیعنی اندرونی طور پر بے دخل ہونے والے افراد کو پورے ملک میں پھیلنے سے روک دیا جائے۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اتحاد اور یکجہتی کے خلاف مزید ردعمل پیدا ہوگا۔ مظلوم ،بے سہارا اور بے گناہ ،بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو سندھ میں داخل ہونے سے روک دیاگیا۔ پنجاب میں کیمپ بنانے سے گریز کیا جا رہاہے اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا لیا جائے گا کہ یہ ایک قوم نہیں بلکہ کئی اقوام کا مجموعہ اور ہر قوم اپنے علاقے میں کسی دوسری قوم کے آنے پر معترض ہے ۔
ہم سے پوچھا جاتاہے کہ تمہارے پاس کیا علاج ہے ۔ کیا عسکریت پسندوں کو یا طالبان کو موقع فراہم کردیاجائے کہ وہ ولوگوں کو یرغمال بنادیں اور اپنی پسند کا اسلامی ایڈیشن لوگوں پر مسلط کردیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ جو لبرل طبقہ اگر انہیں لبرل کہنا صحیح ہو حالانکہ مغربی اصطلاح کے تحت بھی یہ طبقہ ہرگز لبرل نہیں ہے بلکہ مغربی مفادات کی حفاظت کرنے والا ان کا آلہ کار ایک کرپٹ اور خود غرض طبقہ ہے جو بد قسمتی سے ملک پر قابض ہے ۔ یہ طبقہ اس ملک کی حفاظت میں قطعاًناکام ہوچکاہے۔ اس طبقے کی باگ ڈور اس ملک کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کے پاس ہے ۔ جس کی کرپشن اور غلط سوچ کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکاہے۔ یہ اس ملک کے نفس پرست اور خود غرض سیاسی قیادت کو وجود میں لانے والا ہے اور اس کے ساتھ مل کر ملک و قوم کو برباد کررہاہے ۔ اس پورے طبقے کے ہاتھ میں ملک محفوظ نہیں ہے ۔ انہیں اپنی ناکامی تسلیم کرلینی چاہیے۔ ملک کو ایک دیانتدار اور امین قیادت کی ضرورت ہے۔ امانت و دیانت قیادت کی پہلی صفت ہے۔ایک جرات مند قیادت جو امریکہ سے کہہ سکے کہ وہ امریکی جنگ کو اپنی قوم پر مسلط کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے ۔ اپنی قوم سے لڑنا ممکن نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے اس قیادت کو دستبردار ہونا چاہیے۔ سول ملٹری ،بیوروکریسی سمیت نا م نہاد بڑی جماعتیں ملک کو ایک رکھنے میں ناکام ہیں۔ امریکی پالیسی کے تابع چلنے والے لوگ بالآخر ہمیں ایک ایسے انجام سے دوچار کردیں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کی بجائے بھارت کے زیر اثر بلوچوں ، پختونوں ،سندھیوں اور پنجابیوں کے نیم خودمختارعلاقے ہوں گے جو اندرونی افراتفری کا شکار اور قومی عزت نفس سے محروم ہوں گے۔ ہماری سیاسی قیادت بودی ہے اور اس انجام سے قطعاً بے خبر امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئی ہے ۔ قوم میں جو زبردست جذبہ جہاد اور شوق شہادت پایا جاتاہے ہمارا دشمن اس جذبے کو خود ہمارے خلاف استعمال کرنے میںکامیاب ہے ۔ اگر حکومت ملاکنڈ میں نظام عدل نافذ کرنے میں مخلص تھی اور اس نے امریکہ کے کہنے پر اس معاہدے کو سبوتاژ نہیں کیا تویہ حکومت پورے ملک میں موجودہ فرسودہ عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کے لئے انقلابی اقدامات سے کیوں گریزکررہی ہے ۔ آج پاکستان میں انصاف کا کوئی دروازہ کھلانہیں ہے۔ این آراو کے تحت بڑی کرپشن کو معاف کردیاگیاہے۔ ملک و قوم کی باگ ڈور ایک نفس پرست طبقے کے ہاتھ میں ہے جو اپنے ذاتی مفادات سے ایک قدم آگے سوچنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ پریس پر ان عناصر کا کنٹرول ہے جن کے لئے قلم کا استعمال اور اپنی فنی مہارت مال تجارت ہے اور وہ مغربی سرمایے ،ملٹی نیشنل کمپنیوں اور این جی او ز کے آلہ کار ہیں۔ مغرب اپنے سرمایے اور تنظیمی قوت کو استعمال میں لا کر ہمارے تمام قومی اداروں کو اپنے مفادات میں استعمال کررہاہے۔ ایسے میں ایک صحت مند ، بیدار مغز قیادت کی ضرورت ہے جو عوام الناس کی امنگوں اور آرزوئوں کو بیدار کرکے ایک عظیم الشان عوامی انقلاب برپا کردے۔ یہ اس ملک کو بچانے کا واحد راستہ ہے ۔قیادت عوام کے اندر میں سے ابھرے گی ۔ اس قیادت کے لئے سٹیج تیار ہو رہاہے۔ فوج کو بار بار آزمایا گیا اس نے ملک کے جمہوری اداروں اور دستو ر کو تباہ کرنے کے سوا قوم کو کچھ نہیں دیا۔ ایسے میں قوم و وطن اور اسلام کے شیدائیوں کا امتحان ہے ۔ ایک نئے ولولے کے ساتھ اٹھیں ۔ امریکہ ،بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کے مقابلے میں اپنی قومی سالمیت کی حفاظت کے لئے کھڑے ہوجائیں۔

Courtesy:dailyausaf

No comments:

Post a Comment