Tuesday, June 30, 2009

فرقہ پرستی کے ذمہ دار کون؟ طالبان یا حکومت؟




عامر حسینی

آپریشن راہ راست مالاکنڈ میں جیسے جیسے کامیابی کے مراحل طے کر رہا ہے ویسے ویسے مذہبی دہشت گردوں کی صفوں میں کھلبلی کے آثار نظر آ رہے ہیں، حکومت پاکستان نے فوج کو جنوبی وزیرستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا حکم دیا ہے۔ جانی خیل میں ایف سی کا قلعہ دوبارہ کنٹرول میں آگیا ہے۔ جنوبی وزیرستان میں بیت اللہ محسود کے ہیڈ کوارٹر مکین کے گرد بھی فوج اور ایف سی گھیرا تنگ کر رہی ہیں۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی دہشت گردی کے خلاف یہ فیصلہ کن لڑائی جہاں”تحریک طالبان“ کی کمر توڑ رہی ہے وہیں ان کو بے نقاب کرنے میں بھی ممدو معاون ثابت ہو رہی ہے۔ ”تحریک طالبان“ نے پہلے تو ”میڈیا“ پر اپنا غصہ نکالا اور اسے میڈیا سے یہ شکایات پیدا ہو گئیں کہ وہ انہیں منفی طور پر پیش کر رہا ہے۔ پھر وہ ان علما اور مذہبی سکالرز کے دشمن ہو گئے جو پاکستان میں ” تحریک طالبان“ کو فساد فی الارض کا مرتکب قرار دے رہے تھے۔ بیت اللہ محسود کے رفیق خاص خود کش حملہ آوروں کے تربیت کنندہ قاری حسین محسود کے ایک فدائی نے جامعہ نعیمیہ میں ممتاز سنی عالم دین ڈاکٹر سرفراز نعیمی سمیت 5 علما وطلبا کو شہید کر ڈالا۔ ایک دوسرے فدائی نے اپنے جذبہ جہاد اور اسلام سے محبت کا ثبوت اس طرح سے دیا کہ وہ نوشہرہ کی جامعہ مسجد میں جا گھسا اور وہاں نماز جمعہ پڑھنے والوں پر بارود کی بارش کر دی۔ اس سے اگلے دن جب پورے ملک میں احتجاج ہو رہا تھا تو جذبہ جہاد سے سر شار ایک اور فدائی ڈیرہ اسماعیل خان کی منڈی تجارت گنج میں جا گھسا اور اس نے وہاں ایک کار میں بم نصب کیا اور اسے اڑا دیا۔ تحریک طالبان سوات، تحریک طالبان خیبر ایجنسی، تحریک طالبان وزیرستان، تحریک طالبان باجوڑ، تحریک طالبان اورکزئی، تحریک طالبان کرم ایجنسی سب کے سب ایک طرف تو شیعہ، بریلوی، وہابی مسالک کے عوام، ان کی مساجد، امام بارگاہوں اور مدارس کو نشانہ بنائے ہوئے ہے تو دوسری طرف وہ بلامتیاز ان علما کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جو خود کش حملوں کو نا جائز کہہ رہے ہیں، جنہوں نے آپریشن راہ راست کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ وزیر ستان میں تحریک طالبان کی بنیاد رکھنے کی سب سے پہلی مخالفت مفتی نظام الدین شامزئی نے کی تھی۔ دارالعلوم کراچی بنوریہ ٹاﺅن کے مفتی نظام الدین شامزئی ” تحریک طالبان افغانستان“ سے گہرے روابط رکھتے تھے۔ وہ آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل محمود کے اس وفد میں شامل تھے جو طالبان کے سربراہ ملا محمد عمر سے 9/11 کے بعد ملا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مفتی نظام الدین شامزئی طالبان پر زور دے رہے تھے کہ وہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو اقوام متحدہ کے حوالے کر دیں یا پھر انہیں افغانستان سے نکل جانے کا کہیں۔ اس موقع پر جنرل محمود نے ”طالبان“ کو مفتی نظام الدین شامزئی کی طرف سے دیے جانے والے مشورے کو مان لینے کا کہنے کی بجائے ڈٹ جانے کا کہا۔ مفتی نظام الدین شامزئی طالبان کے غیر حقیقت پسندانہ رویے سے مایوس ہوئے تھے۔ بعد ازاں جب کوہستان اور وزیر ستان میں عسکریت پسندوں نے جمع ہو کر پاکستان کے اندر” جہاد“ کا نعرہ لگایا اور خود کش حملے ہونا شروع ہوئے تو مفتی نظام الدین شامزئی نے اس کی سخت مخالفت کی اور ایسے حملوں کو خلاف اسلام اور حرام قرار دے دیا۔ اس فتویٰ کے فوراً بعد مفتی نظام الدین شامزئی کو شہید کر دیا گیا۔ مولانا حسن جان جو کہ دیو بندی مسلک کے صوبہ سرحد میں سب سے بڑے عالم تھے انہوں نے جب خود کش حملوں کے حرام ہونے اور ” تحریک طالبان“ کی طرف سے پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام کے خلاف لڑنے کے اعلان کو ناجائز قرار دیا تو انہیں بھی خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا۔

بیت اللہ محسود، قاری حسین محسود، مولوی فضل اللہ نے صرف یہی نہیں کہ خود کش حملوں کو غیر شرعی قرار دینے والے علما کو بلا لحاظ مذہب و مسلک شہید کیا بلکہ ان مسلح گروپوں کے ساتھ بھی جنگ کی اور کر رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کے اندر کسی قسم کی عسکریت پسند کارروائی کرنے سے انکار کیا۔ کمانڈر مولوی نذیر، کمانڈر بہادر گل، کمانڈر قاری زین عثمان کے گروپوں سے بیت اللہ محسود کا کئی بار خون ریز تصادم ہوا۔ کہا جا رہا ہے کہ شمالی وزیرستان کے اندر کام کرنے والے عسکری گروپوں نے بیت اللہ محسود کی پاکستان کے اندر کارروائیوں پر شدید اعتراض کیا ہے۔ خود جنوبی وزیرستان میں اس کے خلاف عسکریت پسندوں میں بغاوت کے آثار نظر آ رہے ہیں۔

اصل میں دیکھا جائے تو صورت حال ایسی ہے کہ وزیرستان سے لے کر باجوڑ ایجنسی تک قبائل کے یہ علاقے عملاً جنگی وار لارڈز کے قبضے میں ہیں اور یہ وار لارڈز اس پورے علاقے میں اپنی متوازی حکومت قائم کر کے اسلحہ، منشیات، اجناس و دیگر اشیا کی سمگلنگ کے پورے نیٹ ورک کو اپنے لیے دولت، طاقت اور پاور سٹیٹس قائم کرنے کا ذریعہ بنا چکے ہیں۔ ان کا پہلا نشانہ حکومتی عمال، ملک، لنگی سردار اور وہ تمام قبائل تھے جو ان کی راہ کا پتھر تھے۔ انہوں نے اپنی طاقت کے جواز کے لیے ایک مذہبی لبادہ بھی اوڑھ رکھا ہے اور یہ لبادہ خاص مسلک کا ہے اس لیے اس لبادے کے تقاضے نبھانے کے لیے اور لوگوں میں اپنی طاقت کا جواز پیدا کرنے کے لیے دیگر مسالک کے ماننے والوں پر ظلم و ستم لازم تھا۔ ان کا قتل، ان کی املاک کی لوٹ مار، ان کے مدارس و مساجد اور مقدس مقامات پر قبضہ ضروری تھا۔ ان علاقوں پر اپنی عملداری قائم رکھنے کے لیے اور ریاست کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی فوجی کارروائی کو ناکام بنانے کے لیے ان جنگی وار لارڈز نے ایک طرف تو امریکی سامراجیت کے خلاف پائی جانے والی ایک عمومی نفرت کی فضا سے فائدہ اٹھایا۔ دوسری طرف فرقہ وارانہ جذبات بھی ابھارے، تحریک طالبان وزیرستان ہو یا تحریک طالبان سوات دونوں نے بڑی چالاکی سے خود کو ” دیو بندی مسلک“ کا ترجمان خود ساختہ بنا لیا اور اپنی کارروائیوں اور پراپیگنڈے سے یہ فضا بنانے کی کوشش کی کہ بریلوی اور شیعہ مسلک کے علما و مشائخ اور اس سے تعلق رکھنے والے دیگر دانشور سب کے سب امریکی لائن فالو کر رہے ہیں۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ تحریک طالبان کا سب سے بڑا حامی پرچہ ضرب مومن اور روزنامہ اسلام کہتا ہے۔ اس کے کالم نگار کہتے ہیں کہ بریلوی و شیعہ علما کا ” جہاد“ سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ تو محض دارالعلوم دیو بند سے وابستہ علما کا شیوا رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ طالبان کے یہ مذہبی رہنما اور حامی مولانا فضل حق خیر آبادی، مفتی صدر الدین آزردہ ، شاہ عبدالعزیز دہلوی، مرزا مظہر جان جاناں دھلوی شہید، جنرل بخت خان روہیلہ، مفتی عنایت اللہ کافی شہید، مولوی احمد اللہ مدراسی شہید کو بھی ” دیو بندی“ قرار دیتے ہیں حالانکہ جن ادوار سے ان صاحبان علم و دانش و سپاہ گروں کا تعلق ہے اس وقت دارالعلوم دیو بند دارالعلوم بریلوی کا وجود ہی نہیں تھا۔ اور یہ سارے احباب صاحبان طریقت تھے اور طالبان جن اعمال کی بنا پر بریلویوں کے خون کو مباح ٹھہراتے ہیں ان کا بڑے ذوق و شوق سے اہتمام کرتے تھے۔

طالبان کے حامی نام نہاد دانشوروں، صحافیوں اور مذہبی لبادہ اوڑھے سیاسی نابغے الٹی گنگا بہاتے ہیں۔ وہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت گری کرنے والے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے علما و مشائخ کو ” فرقہ پرستی پھیلانے“ کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔ وہ ان علما و مشائخ کی طرف سے اپنے ارادت مندوں کے اندر” تحریک طالبان“ کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کے عمل کو امریکا نوازی قرار دے رہے ہیں گویا وہ یہ چاہتے ہیں کہ ” طالبان“ یونہی لوگوں کو بے گناہ مارتے رہیں، شیعہ، بریلوی اور وہابی علما و مشائخ اور عوام کا قتل ہوتا رہے ان کے مزارات اور امام بارگاہیں نشانہ بنتی رہیں اس پر وہ خاموشی اختیار کریں یا پھر یہ کہہ کر جان چھڑالیں کہ یہ طالبان نہیں بلکہ کوئی اور لوگ ہیں۔ مولوی فضل اللہ، بیت اللہ محسود، قاری حسین محسود سمیت قاتلوں کو ہیرو کا خطاب دے دیں تو یہ عمل عین اسلام اور بمطابق شریعت ہو گا لیکن اگر ان کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا اور شر پسندوں کے چہروں سے نقاب نوچے تو پھر یہ فرقہ پرست ہوں گے۔ امریکا نواز ہوں گے ان کا قتل عین جہاد اور عمل باعث ثواب ہو گا۔

پروفیسر منور حسن امیر جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمن امیر جمعیت العلمائے اسلام، سی آئی فنڈڈ جہاد افغانستان کے انسٹرکٹر جنرل (ر) حمید گل، سابق چیف آف آرمی سٹاف مرزا اسلام بیگ، آمروں کی کاسہ لیسی میں مشاق ریٹائرڈ بیورو کریٹ روئیداد خان، صدر تحریک انصاف عمران خان سمیت درجنوں لوگ ایسے ہیں جو مظلوموں کی آہ و پکار اور ان کے چیخنے چلانے پر بھی پابندی لگانا چاہتے ہیں یہ سب کے سب طالبان کے ہاتھوں عوام کے مارے جانے پر فوراً یہ توضیح پیش کرتے ہیں کہ یہ سب امریکی حملوں کا رد عمل ہے اور اپنے تئیں اسے انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جو لوگ خود کش یا ٹائم بم دھماکے کرتے ہیں ان کے پاس دفاع نہیں فقط انتقام اور غصہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپریشن بند ہو جائے اور ڈرون حملے نہ ہوں تو خود کش بم دھماکے نہیں ہوں گے۔ امن ہو جائے گا لیکن یہ لوگ یہ نہیں بتاتے کہ آخر ” فوج“ کو ان علاقوں میں کیوں جانا پڑا۔ 9/11 سے قبل ملک بھر میں جو فرقہ وارانہ قتل ہو رہے تھے وہ کس چیز کا رد عمل تھے۔ بعد ازاں پورے ملک میں معصوم شہریوں کو بھرے بازار میں بم دھماکے سے اڑانا کس امریکی مفاد کو زک لگانے کے مترادف تھا۔

القاعدہ اور تحریک طالبان سمیت مذہبی دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کا ریکارڈ اٹھایا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کی انتقامی کارروائیوں کا سب سے زیادہ نشانہ معصوم مسلمان شہری، عورتیں، بچے، بوڑھے اور نوجوان بنے ہیں اور یہ کتنے سفاک اور ظالم لیڈر ہیں جو کمسن نو عمر بچوں کو بارود میں بدل کر بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ ان کا نظام انصاف عجب جزا و سزا کے ضابطے رکھتا ہے۔ یہ فرد جرم کسی پر لگاتے ہیں اور جرم کی سزا کسی اور کو دیتے ہیں۔ یعنی امریکی فضائیہ کے بم اور گولیاں بھی عراقیوں اور افغانیوں پر برسیں اور اس جرم کی پاداش میں خود کش بم دھماکوں سے مریں بھی مقتولوں کے رشتے دار، عزیز و اقارب اور ہم وطن اور نعرے لگیں برگ بر امریکا، برگ بش، قاتل،قاتل امریکا، خونی خونی بش، بش اور حملے نہتے معصوم شہریوں پر۔ انصاف کا یہ نظام اپنی مثال آپ ہے۔ عوام، حکومت اور فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی اس ہم آہنگی کی فضا کو سبو تاژ کرنے کے لیے تحریک طالبان اور اس کے حامی” فرقہ پرستی“ کا خطرناک حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ تحریک طالبان کو حمایت دینے والے نام نہاد مذہبی رہنما طالبان کے خلاف علما و مشائخ کے اندر اٹھنے والی مزاحمتی لہر کو کسی خاص مسلک کے خلاف مہم قرار دینے کے لیے کوشاں ہیں اور عجیب گورکھ دھندا ہے کہ لوگوں کو عقیدے کی بنیاد پر قتل کر دینے والے اور مقدس مذہبی مقامات کی بے حرمتی کرنے والوں کی حمایت کرنے والے بریلوی، دیو بندی، شیعہ فساد کا واویلا کر رہے ہیں۔ گو یا چور مچائے شور والا معاملہ ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بین المذاہب امن کانفرنس کاانعقاد ہو اور اس میں ” گستاخ خاکے“ بنانے والے شر پسندوں یا ’فتنہ‘ جیسی بد نام زمانہ فلم بنانے والے پروڈیوسر کو مدعو نہ کیا جائے اور وہاں ایسے افراد کی مذمت ہو اور ان کے حامی یہ شور مچانے لگیں کہ کانفرنس کے منتظمین امن کے خواہاں نہیں ہیں وہ مذاہب کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں۔

پاکستان میں مسالک کے درمیان امن اور افہام و تفہیم کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس امن کو خراب کرنے والے تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، کالعدم سپاہ محمد، جیش محمد کو بلایا جائے جن کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں جن کو بلانے کا مقصد گویا قاتلوں کو منصف ٹھہرانا ہے۔ سوات میں معاہدہ امن کے بعد مولانا صوفی محمد نے برملا اعلان کیا تھا کہ کسی طالب کو یا مولوی فضل اللہ کو قاضی طلب نہیں کرے گا نہ ہی تحریک طالبان نے سوات میں جو مظالم ڈھائے ہیں ان پر باز پرس ہو گی۔ یعنی مولانا صوفی محمد قاتلوں کے لیے فسادیوں کے لیے ” این آر او“ جاری کرنا چاہتے تھے اور ان کے حامیوں کا دوغلہ پن دیکھیے وہ مشرف کے این آر او کو بڑا سانحہ کہتے نہیں تھکتے جو فوج داری مقدمات اور سنگین جرائم پر مبنی مقدمات سے کوئی واسطہ نہیں رکھتا اور نہ ہی اس میں مطلوب لوگوں کو کوئی رعایت دیتا ہے۔ جبکہ یہاں ”Henions crimes“ کے لیے عام معافی طلب کیے بغیر خود کو ہر سوال و جواب سے ماورا قرار دیا جا رہا تھا۔ جماعت اسلامی، جے یو آئی سمیت سوات وزیرستان میں آپریشن کو روک دینے کا مطالبہ کرنے والوں سے پوچھنا چاہیے کہ اگر بالفرض ایسا کر بھی لیا جائے تو کیا مولوی فضل اللہ، بیت اللہ محسود، مولوی فقیر محمد، حکیم اللہ محسود، قاری حسین محسود سمیت وہ تمام طالبان جن پر سینکڑوں لوگوں کو قتل کرنے کا الزام اور پرچے درج ہیں کیا وہ خود کو قانون کے حوالے کریں گے اور مقدمات کا سامنا کریں گے؟ طالبان کے حامی مذہبی سیاستدانوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ اپنی سکیورٹی کے لیے حکومت سے پہلے سے موجود سکواڈ میں مزید سکواڈ کا اضافہ مانگتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس کمانڈوز کی ایک گارڈ اور تین حفاظتی بم پروف، بلٹ پروف گاڑیاں موجود ہیں وہ مزید گاڑیاں، اسلحہ اور سکیورٹی گارڈ مانگ رہے ہیں۔ پروفیسر سید منور حسن، عمران خان، جنرل حمید گل، مرزااسلم بیگ سمیت کوئی بھی شورش زدہ علاقوں میں معاہدوں کے دوران اور معاہدے ٹوٹنے کے بعد دورہ نہیں کر سکا۔ عوام میں جہاد پراجیکٹ کے فساد ہونے کی قلعی کھلتی جا رہی ہے۔ اس بے وقعتی اور بے عزتی کا واضح ثبوت ہمیں فروری 2008ء کے انتخابات میں مل سکتا تھا لیکن جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کا ڈرامہ رچا دیا اب شاید اسی لیے جماعت اسلامی کے امیر پروفیسر منور حسن اپنے بیانات میں بار بار کہتے ہیں کہ انتخابات اور جمہوریت مسئلے کا حل نہیں ہے وہ ”مڈٹرم الیکشن“ کو بھی اب اپنے لیے فائدہ مند تصور نہیں کرتے کیونکہ مسلم لیگ ن ان کے داﺅ میں نہیں آ سکی۔ گویا انگور کھٹے ہیں والا معاملہ ہے۔


Courtesy:Humshehri

No comments:

Post a Comment