Sunday, June 7, 2009

ٹراؤٹ اور طالبان !

وسعت اللہ خان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

گوریلا جنگ کے عظیم ماہر ماؤزے تنگ کے بقول چھاپہ مار وہ مچھلی ہے جو عوامی تائید کے تالاب میں ہی زندہ رہ سکتی ہے۔۔۔۔ اگر ماؤزے تنگ کا یہ قول برحق ہے تو پھر مالاکنڈ کا تالاب جو تیس لاکھ افراد کی نقلِ مکانی کے سبب خشک ہوچکا ہے، اس میں متحرک بیشتر چھاپہ مار مچھلیوں کو تو اب تک تڑپ تڑپ کر مرجانا چاہیے تھا۔مگر محسوس یوں ہوتا ہے کہ مالاکنڈ کے دریاؤں اور تالابوں میں بہاؤ کے مخالف بہنے والی ٹراؤٹ مچھلیوں کی طرح اکثر طالبانی مچھلیاں بھی یا تو اوپر منتقل ہوگئی ہیں یا عوامی بہاؤ کے سنگ سنگ تالاب سے نکل گئی ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ مالاکنڈ میں فوجی ایکشن پہلے کی نسبت زیادہ تندہی اور سنجیدگی سے جاری ہے۔ لیکن جن لاکھوں بے گھروں کی بقا کے نام پر یہ کارروائی ہورہی ہے کیا انہیں بھی یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ رات کے بعد صبح ہونے والی ہے ؟؟؟

ہوسکتا ہے کہ کارروائی کے پیچھے بہترین نیت ہو لیکن کیا اس خوش نیتی کا عملی اقدامات کے ساتھ تال میل بھی بن رہا ہے یا نہیں؟

اگر تیس لاکھ نفوس نے نقلِ مکانی کی ہے اور ان میں سے صرف دو سے ڈھائی لاکھ لوگ ہی کیمپوں میں نظر آرہے ہیں تو باقی ساڑھے ستائیس لاکھ بے گھر سرکاری کاغذوں کے حساب سے کہاں کہاں ہیں ؟ کیا کوئی ادارہ ان ساڑھے ستائیس لاکھ بے خانماؤں کی ٹریکنگ کررہا ہے یا رجسٹریشن کر رہا ہے؟ ان متاثرین کے نام پر اندرون و بیرون ملک سے جو مدد آرہی ہے یا آئے گی کیا وہ ان سب تک پہنچانے کا کوئی بندوبست ترتیب پایا ہے ؟؟؟

اطلاعات تو یہ ہیں کہ اب تک جتنے اداروں نے بے گھروں کے سروے کئے ہیں ان میں سے کسی کے اعداد و شمار ایک دوسرے سے نہیں مل رہے، اور جتنے بھی بے گھر رجسٹر ہوئے ہیں ان میں سے محض آدھوں کو پچیس ہزار روپے کی مالی مدد کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ باقی کی دوبارہ چھان بین ہوگی۔

تو کیا یہ چھان بین وہی لوگ کریں گے جنہوں نے ان دربدروں کو پہلے رجسٹر کیا یا اب کہ غیر جانبدار مستعد لوگ اس کام پر لگائے جائیں گے ؟ اور کیا رجسٹریشن کرنے والے متاثرین تک پہنچیں گے یا متاثرین کو رجسٹریشن کی طویل قطاروں میں لگنے کے لیے ایک اور سفر درپیش ہوگا ؟

کیا بھیڑ، بکری، گدھے اور گھوڑے کو یکساں معاوضے کی لاٹھی سے ہانکا جائے گا یا پر جانی و املاکی نقصان کا انفرادی تخمینہ لگایا جائے گا؟؟؟؟

سیکرٹری دفاع کا اندازہ ہے کہ جاری آپریشن کے دوران چار ہزار کے لگ بھگ طالبان مارے گئے ہیں۔فوج کے ترجمان کا تخمینہ ہے کہ ایک ہزار سے بارہ سو کے درمیان طالبان کا صفایا ہوچکا ہے۔ایک سرکاری ذمہ دار کا خیال ہے کہ دو سے تین ماہ میں سب بے گھر واپس آسکیں گے۔ دوسرے ذمہ دار کا کہنا ہے کہ حالات معمول پر آتے آتے سال تو لگ ہی جائے گا۔

ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ جس میں ہر چوتھا آدمی پالیسی بیان جاری کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔یہ جانے بغیر کہ ان آنکڑے بازیوں کا ان لاکھوں بے گھر والدین پر کیا اثر ہوگا جو یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہورہے ہیں کہ آیا وہ دو تین ماہ کے لیے اپنے بچوں کا تعلیمی مستقبل معطل رکھیں یا پھر کم ازکم سال بھر کے انتظار کی سولی پر لٹکے رہیں۔

ان حالات میں اگر کوئی سواتی یہ کہتا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ اس کی دربدری کے ذمہ دار طالبان ہیں یا فوجی آپریشن ؟ اگر کوئی سواتی یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ سوات میں پرخلوص کارروائی ہورہی ہے یا ٹام اینڈ جیری شو جاری ہے ؟؟؟ اگر کوئی سواتی یہ سمجھتا ہے کہ یہ کیسا ناٹک ہے جس میں کرداروں سے زیادہ تماشائی مررہے ہیں ؟؟؟

تو ایسے سوالات پر نہ خفا ہونے کی ضرورت ہے ، نہ رونے کی نہ ہنسنے کی۔۔۔ضرورت ہے تو صرف اپنے اپنے گریبان میں منہ دینے کی !!!!!!


tags:Bbc nawaz musharaf taliban army pakistan

No comments:

Post a Comment