Sunday, June 7, 2009

ویزا نہ آتا تو اچھا تھا!




آصف فاروقی

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دبئی


کمرہ ہے پر دو چارپائیوں کے لیے چھوٹا، چھت بارش میں ٹپکتی ہے، چارپائی پر بستر نہیں ہے، بجلی کا جنریٹر تو ہے لیکن پٹرول کے پیسے نہیں، جائے رفع ہے لیکن غسل خانہ نہیں، میس کا کھانا ملتا ہے لیکن کھانے کے قابل نہیں اور دبئی ہے پر دیکھا نہیں۔

یہ ہیں وہ حالات جن میں ’دبئی چلو‘ کے خواب کے تعاقب میں یہاں پہچنے والے انڈیا، پاکستان اور بھارت سے آئے بعض مزدور اپنی زندگی کے اچھے برے دن گزار رہے ہیں۔

ویسے تو دبئی کی تعمیر میں مصروف غیر ملکی مزدوروں کی رہائش کے لیے ٹھیکے دار کمپنیوں کو سخت قوانین کے تحت مناسب بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ دبئی کے مضافات میں سونا پور اور القوض کے علاقوں میں اس نوعیت کے بے شمار مزدور کیمپ موجود ہیں جہاں دن بھر کی محنت کے بعد یہ کارکن رات گزارنے کے لیے آتے ہیں۔

دبئی میں دو ہفتوں کے دوران درجنوں کیمپوں کے معائنے کے بعد یہ تسلیم کرنا پڑا کہ دبئی کے بیشتر کیمپ مزدوروں کو مناسب رہائشی سہولت دیتے ہیں۔

ائیرکنڈیشنڈ کمرے (گو کہ حجم کے اعتبار سے یہ بہت بڑے نہیں ہوتے)، صفائی کا مناسب بندوبست، کھانا پکانے کے لیے تمام لوازمات کے ساتھ باورچی خانہ اور اگر کھانے کا انتظام بھی کمپنی کے سپرد ہے تو معیار اور مقدار کے حساب سے مناسب کھانا، مشترکہ لیکن صاف غسل خانے۔

لیکن دبئی میں کام کرنے والے تمام مزدوروں کے نصیب میں یہ ’عیاشی‘ نہیں ہے۔

دبئی کے تعمیراتی علاقے برشا (جنوبی) میں بنے متعدد مزدور کیمپ اس حقیقت کی ثبوت ہیں جہاں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سے آئے سینکڑوں مزدور ایسے حالات میں رہ رہے ہیں جنہیں غیر انسانی کہا جا سکتا ہے۔

دبئی میں ایک دوست کے ہمراہ جب ایسے ہی ایک مزدور کیمپ میں انتظامیہ کی اجازت کے بغیر پہنچا تو وہاں عجب منظر دیکھا۔

لکڑی کا ایک بے ہنگم سا کمرہ بنا ہے جس کے باہر چار نوجوان لکڑی جلا کر کھانا بنانے کو کوشش کر رہے ہیں۔

سکھ بیر سنگھ، تلک راج، وتر سنگھ اور سون سنگھ کا تعلق بھارتی پنجاب ہے۔ وہ دو برس سے اس ایک کمرے میں رہائش پذیر ہیں۔

میرے استفسار پر تلک راج نے بتایا کہ میس سے کھانا تو آتا ہے لیکن اسے کھانے کا دل نہیں چاہتا۔ ’کبھی سالن میں تیرتی ہوئی بھنڈی کھائی ہے آپ نے۔ ہم سے بھی نہیں کھائی جاتی تو جس دن ’کھانا` کھانے کا من کرتا ہے خود ہی کچھ پکا لیتے ہیں‘۔

سکھ بیر سنگھ نے بتایا کہ برشا میں بننے والے ولاز کی تعمیر کے لیے ایک بھارتی ٹھیکے دار نے انہیں ملازمت دے رکھی لیکن زندگی بہت مشکل بنا دی ہے۔

’چند دن پہلے بارش ہوئی تو کمرے میں پڑا سامان بھیگ گیا۔ اس میں راشن بھی تھا سب برباد ہو گیا‘۔

جب میں نے اس عجیب سے لکڑی کے ڈبے کو کمرہ تسلیم کرنے سے انکار کیا تو سکھ بیر جذباتی ہو گیا۔ ’کیا کریں صاحب، گھر والوں نے کتنی مشکل سے پال پوس کر بڑا کیا اور پتا نہیں کہاں سے پیسے جوڑ کر ہمیں یہاں بھیجا۔ اب ان کے لیے کچھ دن مشکل میں کاٹ لیں تو کیا برا ہے‘۔

سون سنگھ نے بتایا کہ ٹھیکے دار نے چار لوگوں کے لیے دو چارپائیاں اور ایک یہ کمرہ دیا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کمرے میں دونوں چارپائیاں پوری نہیں آتیں۔ اگر آجائیں تو باقی سامان کی جگہ نہیں بچتی اس لیے ایک چارپائی باہر پڑی رہتی ہے۔


’تو دو جنے اندر سوتے ہیں اور دو باہر‘۔ یعنی دو لوگ فی چارپائی۔

میرے اصرار پر مجھے کمرے کا معائنہ کرنے کے لیے اندر لے جایا گیا۔ پتہ چلا موم بتی نہیں ہے لیکن انڈیا سے آیا ٹارچ والا موبائیل فون کام آیا۔

چارپائی بھی عجیب سی لگی۔ ’خود بنائی ہے صاحب‘ سون سنگھ نے شرما کر بتایا اور اس پر پڑی ایک میلی سے موٹی چادر کو سون سنگھ نے بستر قرار دیا۔

’بغیر بجلی کے گرمی نہیں لگتی؟‘ میرے اس سوال کے جواب میں چاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر چاروں طرف پھیلی ریت پر ایک نظر ڈالی۔سکھ بیر نے بتایا کہ رات کو جب گرمی سے نیند نہ آئے تو قریب ہی لگے نلکے پر کپڑوں سمیت نہا لیتے ہیں۔

وتر سنگھ نے جو خاصی دیر سے خاموش بیٹھا تھا بتایا کہ اس نے ایک دن ٹھیکے دار سے ان سب باتوں پر احتجاج کیا تھا۔ ’اس نے دو راستے بتائے۔ ایک یہ کہ تین سو درہم ماہانہ کٹوا لو تو اچھی جگہ رہائش مل جائےگی، یا کام چھوڑ دو‘۔

’آٹھ سو درہم ملتے ہیں۔ تین سو ادھر ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ پانچ سو گھر بھیجتے ہیں جن میں سے مزید تین سو گئے تو گھر کیا بھیجیں گے؟‘۔

سون سنگھ کا کہنا تھا کہ ایجنٹ نے بارہ سو درہم کا وعدہ کیا تھا لیکن دبئی پہنچنے کے بعد آٹھ سو ملے۔

’اب تو اوور ٹائم بھی ختم ہو گیا ہے۔ ٹھیکے دار کہتا ہے کام نہیں ہے۔ بس جتنا ملتا ہے کرو ورنہ مزدور اور بہت مل جاتے ہیں‘۔

دبئی کی سیر اور گھومنے پھرنے کے بارے میں سوال پر سب کے سب قہقہہ لگا کر ہنسے اور دیر تک ہنستے رہے۔ تلک راج نے کہا کہ اتنے پیسے ہیں اور نہ وقت۔ ’سون سنگھ کے پیچھے پیدا ہونے والے بیٹے کی تصویر جبل علی میں انڈیا سے آنے والے ایک رشتہ دار کے پاس پڑی ہے۔ اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اسے لے آئیں جا کے، آپ گھومنے کی بات کرتے ہیں۔`

پھر بھی کچھ تو دیکھا ہو گا۔ ’ٹیکسی کا کرایہ بہت زیادہ ہے اس لیے ایک دن پیدل دبئی میرینا گئے تھے۔ رات کو واپس آئے تو اگلے دن کام پر نہیں جا سکے اتنے تھک گئے تھے۔ اس دن توبہ کر لی۔ ایک سال ہو گیا پھر اس ریگستان سے باہر نہیں نکلے‘۔

سون سنگھ نے کہا کہ اس طرح کے حالات میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اردگر بہت سے ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کیمپ ہیں جو پاکستانی اور انڈین ٹھیکے داروں نے غیر قانونی طور پر بنا رکھے ہیں۔’شام کے وقت جب دل کبھی بہت اداس ہو تو بہت سارے مل بیٹھتے ہیں اور ایک دوسرے سے مذاق کرتے ہیں‘۔

سکھ بیر نے بتایا کہ ایسے میں سب اپنے اپنے قصے سناتے ہیں کہ انڈیا میں دبئی جانے کے شوق میں ایجنٹ کے دفتر کے کتنے چکر لگائے، کس کو رشوتیں دیں اور ویزے کے لیے کیا کیا منتیں مانگیں۔

’اب میں کبھی سوچتا ہوں کہ کچھ دن اور دبئی کا ویزا نہ آتا تو کتنا اچھا ہوتا‘۔

No comments:

Post a Comment