Friday, June 26, 2009

ڈاکٹر سرفراز نعیمی کا قتل اور طالبان مخالف اتحاد


عون علی
12
جون بروز جمعہ لاہور کے علاقے گڑھی شاہو میں معروف دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ کے اندر ایک
خود کش بم دھماکے میں جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی سمیت پانچ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ڈاکٹر سرفراز نعیمی مسجد سے متصل اپنے دفتر میں طالب علموں سے ملاقات کر رہے تھے کہ اس دوران ایک نو عمر لڑکا وہاں آیا جس نے مولانا نعیمی کی موجودگی کی تصدیق کی اور اس کے ساتھ ہی خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ مرحوم سرفراز نعیمی کو بروز ہفتہ سرکاری اعزاز کے ساتھ جامعہ نعیمیہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے عزیز و اقارب نے واضح کیا کہ مرحوم کو گزشتہ کئی ہفتوں سے دھمکی آمیز پیغامات موصول ہو رہے تھے۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے قتل کی ایف آئی آر میں ان کے بیٹے راغب حسین نعیمی نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان کے والد کالعدم تنظیم تحریک طالبان کی وطن دشمن اور ملکی سلامتی کے منافی سرگرمیوں پر شدید تنقید کر رہے تھے، انہوں نے دیگر علما کے ساتھ مل کر خود کش حملوں کے خلاف ایک فتویٰ بھی دیا تھا جس پر طالبان ان سے سخت نالاں تھے۔ مدعی راغب حسین نعیمی کے مطابق ان کے والد کو بیت اللہ محسود کی ایما پر قتل کیا گیا ہے۔ 12 جون ہی کے روز درہ آدم خیل کے علاقے میں طالبان کماندار حکیم اللہ محسود کے مبینہ نائب سعید حافظ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ سعیدحافظ نے برطانوی خبررساں ادارے کو فون پر بتایا کہ یہ حملہ طالبان اور خود کش حملوں کے خلاف بیانات کا ردعمل تھا۔
14 مئی کو برطانوی اخبار”دی ٹائمز“ میں شائع ہونے والے انٹرویو میں مولانا سرفراز نعیمی کا کہنا تھا ”طالبان اسلام کے نام پر بد نما داغ ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم طالبان کاقلع قمع کرنے کے لیے حکومت اور فوج کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کے بقول اگر ایک کمرے میں سو آدمی بیٹھے ہوں اور ایک کے پاس بندوق ہو تو وہ بندوق والا آدمی دوسروں کی نسبت نمایاں نظر آئے گا۔ طالبان کا بھی یہی حال ہے وہ تعداد میں اتنے زیادہ نہیں ہیں تا ہم اسلحے کے زور پر وہ اسلام کی شناخت پر غالب نظر آتے ہیں“۔
ملک میں کسی مذہبی رہنما کی جانب سے طالبان کی اس طرح دوٹوک مخالفت کی بہت کم مثالیں سامنے آئی ہیں۔ تا ہم چھ مئی کے بعد یہ صورت حال بڑی حد تک تبدیل ہو گئی جب اہل سنت کی 22 نمائندہ تنظیموں اور سیاسی جماعتوں نے طالبان کی مخالفت اور مالا کنڈ ڈویژن اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں فوجی کارروائی کی حمایت کرتے ہوئے لاہور میں ” سنی اتحاد کونسل“ کے نام سے ایک مشترکہ اتحاد قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ مولانا سرفراز نعیمی اس اتحاد کے بانی ارکان میں سے تھے ۔ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے طالبان کی مخالفت اور مالاکنڈ ڈویژن اور دیگر علاقوں میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کی غرض سے لاہور اور اسلام آباد سمیت متعد د شہروں میں ریلیاں نکالیں اور کانفرنسیں منعقد کیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شامل بعض جماعتوں نے طالبان کے خلاف جنگ میں فوج کو رضا کار مہیا کرنے کے حوالے سے بھی بیانات دیے۔ ملک کے اکثریتی مذہبی دھڑے کی طرف سے طالبان کی دو ٹوک مخالفت کی غالباً یہ پہلی مثال ہے۔ تا ہم طالبان مخالف اتحاد قائم کرنے اور سوات یا دیگر علاقوں میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت سے بظاہر یہ امر واضح ہے کہ ملک کی معتدل مزاج مگر خاموش مذہبی اکثریت طالبان کے حوالے سے فیصلہ کن نتیجے پر پہنچ چکی ہے۔
6 مئی کو لاہور میں اہل سنت کی نمائندہ تنظیموں کے اجتماع میں ملکی سطح پر طالبان مخالف مظاہروں اور ”پاکستان بچاﺅ، طالبان بھگاﺅ“ کے نام سے ایک مہم چلانے، وزیراعظم، ممبران پارلیمان اور چیف آف آرمی سٹاف کو خطوط ارسال کرنے اور جمعے کے خطبوں میں طالبان کی حقیقت عوام پر آشکار کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔اہلسنت تنظیموںکے اس اجتماع میں شامل تنظیموں کی طرف سے17 مئی کو اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس منعقد کروانے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اس دوران مذہبی رہنماﺅں نے طالبان کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے صوفی محمد اور بیت اللہ محسود کی گرفتاری کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لانے پر زور دیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ مٹھی بھر مذہبی انتہا پسندوں نے افغان جہاد کے نام پر امریکی اور سعودی امداد کے بل بوتے پر ملک میں مسائل کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ اس دوران جماعت اہل سنت کے سربراہ مظہر سعید کاظمی کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غداروں اور محب وطن لوگوں میں فرق کرے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ مسلح افواج اور خفیہ اداروں کو طالبان کے حامیوں سے پاک کیا جائے۔ جماعت اہل سنت کے سربراہ کا کہنا تھا ” محب وطن اہل سنت ملک کو طالبان شرپسندوں سے نجات دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے“۔ اس دوران سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری کا کہنا تھا کہ اگر طالبان نے اپنی سرگرمیاں ختم نہ کیں تو اہل سنت جماعتوں پر طالبان کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کرنے کے لیے زور ڈالا جائے گا۔اس کانفرنس میں تنظیم مدارس اہل سنت کے اعلیٰ عہدیداروں، جمعیت علمائے پاکستان، نظام مصطفی پارٹی، عالمی تنظیم اہل سنت، کاروان اسلام، انجمن خدام صوفیا، مصطفائی تحریک، تحریک مشائخ اہل سنت، انجمن طلبا اسلام ، جماعت رضائے مصطفی، تحفظ ختم نبوت فاﺅنڈیشن، جماعت اہل سنت کونسل سمیت ملک بھر سے متعدد اہل سنت رہنماﺅں نے شرکت کی۔
آٹھ مئی کو لاہور پریس کلب میں میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے اہل سنت جماعتوں کے طالبان مخالف دھڑے ”سنی اتحاد کونسل“ کی طرف سے طالبان کے خلاف فیصلہ کن فوجی آپریشن کے مطالبے کو ایک مرتبہ پھر دہرایا گیا۔ طالبان کو اسلام دشمن طاقتوں کا ہتھکنڈا قرار دیتے ہوئے سنی رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ طالبان مسلمانوں میں نفاق پیدا کرنے اور دنیا بھر میں اسلام کو بد نام کرنے کی سازش کا حصہ بن چکے ہیں۔اس دوران سنی رہنماﺅں نے طالبان پر الزام عائد کیا کہ وہ صوبہ سرحد میں اب تک دس کے قریب مزاروں کو تباہ اور ہزاروں سنی مسلمانوں کو قتل کر چکے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شریک جماعتوں کے سربراہوں نے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ طالبان کی غیر اسلامی سرگرمیوں کے باعث دنیا بھر میں مذہب اسلام کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ سنی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ عوام کو چاہئے کہ وہ طالبان کے طرز عمل اور دہشت گردی کی تعلیمات کو مسترد کردیں۔ پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں دینی مدرسوں میں طالبان کے حامیوں کے اثرورسوخ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دینی مدارس کے ذمہ داران کو اس طرز عمل کا خاتمہ یقینی بنا نے کے لیے بھر پور کو ششیں کرنی چاہئیں۔
اگرچہ گزشتہ برس اکتوبر میں لاہور میں متحدہ علما کونسل کے ایک اجتماع میں بھی خود کش حملوں کو غیر اسلامی اور حرام قرار دیا گیا تھا تا ہم 17 مئی کو اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والی” کل پاکستان علما و مشائخ کانفرنس “خود کش حملوں کو محض غیر اسلامی فعل قرار دینے کے علاوہ ملک بھر میں طالبان مخالف جذبات کو باقاعدہ صورت بھی عطا کرتی ہے۔ اس کانفرنس کے دوران علما کے قتل اور مذہبی مقامات کی تضحیک کی بھی مذمت کی گئی اور مزاروں کو طالبان کی دست برد سے بچانے کا مطالبہ کیا گیا۔ جمعیت علمائے پاکستان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے اس اجتماع میں سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ اس علاقے سے شر پسندوں کے مکمل خاتمے تک آپریشن جاری رکھا جائے۔ مقررین کا کہنا تھا کہ طالبان نے اسلام کو بد نام کیا ہے، طالبان کا ایجنڈا اسلام مخالف اور سرگرمیاں شریعت سے متصادم ہیں۔ ان کے خلاف تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنا ہو گا۔ اس کانفرنس میں قرار داد منظور کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ہم خود ساختہ نام اور نہاد شرعی قوانین کے ذریعے غیر انسانی وغیر اخلاقی سزاﺅں کی مذمت کرتے ہیں اور ان اقدامات کو شریعت سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں۔
لاہور اور اسلام آباد میں طالبان مخالف مظاہرے بھی سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آئے۔ سنی اتحاد کونسل کی طرف سے یہ آوا ز اس وقت اٹھائی گئی جب جماعت اسلامی سمیت ملک کی کئی مذہبی اور سیاسی جماعتیں سوات میں آپریشن بند کرنے اور مذاکرات شروع کرنے کی بے وقت راگنی آلاپ رہی تھیںاور دبے الفاظ میں حکومت پر یہ تنقید بھی کی جارہی تھی کہ صوفی محمد کے ساتھ امن معاہدے اور نظام عدل کے معاہدے پر عمل در آمد یقینی بنایا جائے۔ 3 جون کو تحفظ ناموس رسالت محاذ کے زیر اہتمام لاہور میں داتا دربار سے لے کر ریگل چوک تک ایک ریلی نکالی گئی ۔” پاکستان بچاﺅ، طالبان بھگاﺅ“ نامی اس ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس ریلی کی قیادت تحفظ ناموس رسالت محاذ کے سربراہ مرحوم ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی نے کی جبکہ مفتی محمد خان قادری، خواجہ قطب الدین فریدی، محمد اطہر القادری، پیر سیف الرحمن، مولانا غلام محمد سیالوی، میاں محمد حنفی، ڈاکٹر عابد سیفی، عبدالرسول قادری اور سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری بھی اس ریلی میں شریک تھے۔ ریلی کے شرکا طالبان بھگاﺅ، ملک بچاﺅ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس موقع پر ڈاکٹر سرفراز نعیمی مرحوم کا کہنا تھا کہ ملک میں کسی صورت امریکی شریعت نافذ نہیں ہونے دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ”پاکستان بچاﺅ ریلی“ کامقصد سوات اور دیگر علاقوں میں طالبان مخالف فوجی آپریشن کی حمایت ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فضل اللہ، صوفی محمد اور بیت اللہ محسود اسلام اور قوم کے مجرم اور آئین پاکستان کے غدار ہیں اس لیے دہشت گردوں کے مکمل صفایا کے لیے ضروری ہے کہ فوجی آپریشن جاری رکھا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے والے عناصر نام نہاد طالبان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اس ریلی کے دوران یہ اعلان بھی کیا گیا کہ دس جون کو لاہور میں ایوان اقبال میں علما مشائخ سیمینار منعقد کیا جائے گا۔
دس جون کو لاہور میں ایوان اقبال میں تحفظ ناموس رسالت محاذ کے زیر اہتمام پاکستان بچاﺅ کنونشن منعقد کیا گیا۔ اس کنونشن کے مشترکہ اعلامیہ میں سوات میں جاری فوجی آپریشن کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیاگیا کہ حکومت سیاسی قائدین، دینی جماعتوں اور پاکستان دشمن عناصر کے دباﺅ میں آ کر طالبان کے خلاف جاری فوجی آپریشن میں وقفہ نہ کرے بلکہ اسے منطقی انجام تک پہنچائے۔ اس کنونشن میں مرحوم ڈاکٹرمحمد سرفراز نعیمی کے علاوہ صاحبزادہ فضل کریم، پیر عتیق الرحمن، ثروت اعجاز قادری، حاجی حنیف طیب، علامہ فرحت شاہ، مولانا نعیم نوری، میجر (ر) یعقوب سیفی، علامہ قطب الدین اور دیگر کئی رہنماﺅں نے شرکت کی۔ کنونشن کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ امریکہ پاکستان کو ختم کرنے کے لیے پاکستان مخالف عناصر کااستعمال کر رہا ہے۔اس سلسلے میں امریکہ کو اپنے منصوبوںکی تکمیل کے لیے آلہ کار مل گئے جو فرقہ واریت کی سازش کو پروان چڑھا کر اس سازش کی تکمیل کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ ہم ملکی بقا کے لیے فوجی آپریشن کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے سرحدوں کے محافظین سے توقع کرتے ہیں کہ وہ طالبان کے خلاف جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچاکر دم لیں گے۔اس کانفرنس کے اعلامیہ میں واضح طور پر کہا گیا کہ بیرونی سرمائے کی تقسیم پر طالبان اور نفاذ شریعت کے گروہ میں قتل و غارت نے تمام شکوک و شہبات کو یقین میں بدل دیا ہے کہ یہ گروہ ذاتی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔مزید یہ کہ پاکستان کو صوفی محمد کی ڈنڈا بردار شریعت نہیں چاہیے اورپوری اسلامی تاریخ میں کبھی بھی منہ چھپا کر جہاد نہیں کیا گیا۔ اس اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ پا نچ ہزار خانقاہوں کے مشائخ نے اپنے لاکھوں مریدوں سمیت طالبانائزیشن کے خلاف مزاحمت اور قیام امن کے لیے ملک گیر تحریک شروع کرنے کااعلان کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں 15 جون سے ملک بھر میں پاکستان بچاﺅ مہم کا آغاز کیا جائے گا ۔
سنی تحریک کے سربراہ محمد ثروت اعجاز قادری کے مطابق ایک خاص طبقے کی طرف سے مذہب کے نام پر مذہب کے بنیادی اصولوں کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جارہا ہے اسے محض تماشائی بن کر برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی شر پسندی نے ان کی حقیقت واضح کر دی ہے۔ ثروت اعجاز قادری کے بقول طالبان کی صورت میں پیدا ہونے والا مسئلہ ہمارے مقتدر اداروں کی تین دہائی قبل کی سنگین غلطی کا نتیجہ ہے، اگر اب بھی اس صورت حال سے بہتر طور پر نہ نمٹا گیا تو مستقبل میں اس پر قابو پانا شاید ممکن نہ رہے۔سنی تحریک کے سربراہ کا کہنا تھا کہ 90ء کی دہائی سے مساجد پر قبضے کے واقعات شروع ہوئے اور اب تک ملک بھر میں ہزاروں مساجد پر اسلحے کے زور پر قبضے کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کی بنیاد کس نے اور کس غرض سے رکھی اور اس کے لیے سرمایہ کہاں سے فراہم کیا جارہا ہے۔ثروت اعجاز قادری کے بقول ہم مصلحت پسندی کا شکار تھے تا ہم اب وقت آ گیا ہے کہ دو ٹوک لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ حساس اداروں کی دستاویزات اس بات کی گواہ ہیں کہ ملک میں دہشت گردی کے 80 فیصد سے زیادہ واقعات میں ایک خاص نظریے کے لوگ ملوث ہیں۔ یہ لوگ فرقہ واریت کو ہوا دے کر ملک کو غیر مستحکم اور بیرونی قوتوں کو ملک میں مداخلت کا جواز فراہم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ ثروت قادری کے بقول حالیہ کچھ عرصے میں سوات اور صوبہ سرحد کے دیگر کئی شہروں میں دس کے قریب مزاروں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ سنی تحریک کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سوات اور صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں میں طالبان کے اثرو رسوخ کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں کا امن و امان داﺅ پر لگ چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج اور دیگر اداروں کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور طالبان کے ہمدرد عناصرسے خود کو پاک کر لینا چاہیے۔ ثروت قادری کے بقول کراچی میں اندازے کے مطابق چھ سے دس ہزار کے قریب لوگ طالبان کے لیے کام کر رہے ہیں۔ شاہ فیصل کالونی اور شہر کے دیگر کئی علاقوں میں ان عناصر کے مراکز قائم ہیں جن پر حکومتی اداروں کو کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتہا پسندوں کی طرف سے کئی اکابرین کی جان کو سخت خطرہ ہے، اگر حکومت کی طرف سے انہیں تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت جیسے مزید واقعات پیش آنے کا اندیشہ ہے ۔ ان کے بقول ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کے بعد سنی اتحاد کونسل اور پاکستان بچاﺅ تحریک اپنے اصولی مؤقف سے کنارہ کش نہیں ہو گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں اگلے چند روز میں پشاور میں ایک کانفرنس منعقد کی جائے گی اور ہم اسے سلسلے کو وہیں سے شروع کریں گے جہاں ڈاکٹر نعیمی کی شہادت کے بعد یہ رکا تھا۔
Courtesy :weekly Humshehri

No comments:

Post a Comment