Monday, June 1, 2009

پاکستان میں زرعی اصلاحات ۔ ایک تجزیہ


وجاہت مسعود
جاگیرداری کے عفریت نے ہماری معیشت، سیاست اور معاشرت کی تمام جہتوں میں پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ چنانچہ زرعی اراضی کی ملکیت کے موجودہ نمونوں میں بنیادی تبدیلی لائے بغیرہماری اجتماعی قسمت میں کوئی بامعنی تبدیلی ممکن نہیں۔ جدید معیشت کی بنیاد میں نجی ملکیت اور ذاتی منفعت جیسے تصورات کارفرما ہیں۔ واپڈا، ٹیلی کمیونیکیشن اور ریلوے جیسے سرکاری اداروں کی نجکاری کا بہت چرچا ہے البتہ ارباب بست و کشاد اس وضاحت کے مکلف نہیں کہ اس زرعی ملک میں جہاںزراعت سے وابستہ ہر پانچ میں سے چار افراد سرے سے بے زمین ہیں، کھلی منڈی کی معیشت کیسے متعارف ہوسکے گی؟ کیا شخصی منفعت کی مہیج سے معیشت کو مستفید کرنے کا استحقاق صرف سرمایہ داروں کو ہے، صدیوں سے پرائی زمینوں پر پسینہ بہانے والے ہاریوں کو نجی ملکیت سے سرفراز نہیں کیا جائے گا؟ جمہوریت کے دعوے بجا مگر مشتبہ حربوں سے ہتھیائی لاکھوں ایکڑ اراضی کے مالک مٹھی بھر دیہہ خداں اور بالشت بھر زمین سے بھی محروم لاکھوں افتادگان خاک میں جمہوری مکالمہ کیسے ہوگا؟ جس ملک میں جاگیرداری اخلاقیات کی عقیم ٹہنیوں پر لاکھوں پوچ مقدمات کے کانٹے اگے ہیں وہاں کمپیوٹر کا انقلاب کیسے آئے گا؟ زرعی اصلاحات کے بغیر فتح دین کمہار اور چودھری ابن الوقت خاں کے مابین سیاسی، معاشی اور سماجی مساوات کی صورت کیا ہوگی؟ چوہدری گڑ شکر کا بیٹا پیدائشی وزیر سہی، مصلی اخلاص پورکے بچے کو بھی کتاب ملنی چاہیے۔ بیگم سو سو کا سیمینار سلامت مگر نور بی بی کے دوپٹے پر سے تھانہ محرر کا جوتا بھی ہٹانا چاہیے۔ پیر ٹنگ ٹگور شاہ کا آستانہ قندیلوں سے جگمگاتا رہے لیکن مرید نحیف و ضعیف الاعتقاد کے بے نور چراغوں کو بھی ضیا بخشی جائے۔سماجی ذمہ داری احسا س شرکت سے جنم لیتی ہے۔ ہماری معیشت کی بدحالی، سیاست کی خانماں بربادی اور معاشرت کی پسماندگی کا خاتمہ اسی صورت میںممکن ہو سکتا ہے کہ جو ہاتھ ہل کی ہتھی پر ہے وہی ہاتھ گندم کی بالی پر ہو۔ ہمارے اجتماعی جسد کا ننگ زرعی اصلاحات کی قباہی سے ڈھانپا جاسکتا ہے۔

1947ءمیں پاکستان کی معاشی بنیاد زراعت کے شعبے پر تھی۔ صنعتی ڈھانچے کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ سیاسی اداروں پر بھی جاگیردار چھائے ہوئے تھے۔ اس طبقے نے گزشتہ 62برس میں اپنی تمام تر توانائیاں جاگیرداری کے استحکام پر صرف کی ہیں جس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ ہم قومی ترقی، عوامی خوشحالی اور ملکی اداروں کے استحکام میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ مفاد پرستی اور مٹھی بھر استحصالی ٹولے کی اجارہ داری برقرار رکھنے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ ملک پر غیر نمائندہ نظام حکومت مسلط رکھا جائے جو عوام کو جواب دہ نہ ہو، پسماندہ طبقات کی ترقی کا راستہ روک سکے اور کروڑوں شہریوں کو قومی مستقبل کی صورت گری میں اپنا کردار ادا کرنے سے محروم رکھے۔

پاکستان کے سترہ کروڑ عوام کے لیے زرعی ڈھانچے کی پسماندہ، استحصالی اور غیر مستحکم ساخت کا مسئلہ وہی اہمیت رکھتا ہے جو انقلاب فرانس کے وقت مطلق العنان بادشاہت کے سوال کو حاصل تھی۔ پاکستان کے زرعی ڈھانچے میں اصلاح کے بغیر ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشی اداروں میں بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔

ہمارے زرعی ڈھانچے کی ساخت ہماری سیاسی، معاشی اور سماجی تاریخ سے پیوست ہے۔ پاکستان کا زرعی ڈھانچہ تفریق اور عدم مساوات پر مبنی ہے جس کی خاصیت براہ راست پیداواری عمل میں شریک کروڑوں افتادگان خاک اور ذرائع پیداوار (یعنی زمین اور سرمائے) پر قابض مراعات یافتہ ٹولے کے درمیان عدم مساوات ہے۔ زرعی شعبے میں استحصال اور امتیاز کا یہ نظام زرعی اصلاحات کی تین بڑی کوششوں یعنی1952ء، 1959ءاور 1972ءکی اصلاحات کے باوجود مستحکم ہوا ہے۔ سیاسی عوامل، منڈی کی قوتوں اور جدید ٹیکنالوجی نے استحصال کی جڑیں مزید مضبوط کی ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں مغربی اِستعمار کے تسلط سے قبل زمین کسی کی نجی ملکیت نہ تھی۔ گاﺅں کی پنچایت ہر کسان کو اس کے خاندان کی ضرورت کے مطابق زمین مہیا کرنے، گاﺅں کے انتظامی امور کی دیکھ بھال اور دست کاروں کو رواج کے مطابق پیداوار کا مقررہ حصہ بطور مالیہ ادا کرنے کے فرائض انجام دیتی تھی۔ وسیع و عریض قطعات اراضی کو زیر کاشت لانے میں ملک کا کوئی قانون ، رواج، اخلاق یا مذہبی عقیدہ مانع نہیں تھا۔ پیداوار کا ایک حصہ کاشت کار کو ملتا تھا اور دوسرا مالیے کی شکل میں فرمانروا کا حق قرار پاتا تھا۔ عرب، تاتار، ترک اور منگول حکمرانوں کے ادوار میں یہ نظام بنیادی طور پر انہیں خطوط پر استوار رہا۔ ہندوﺅں کے عہد میں مالیے کی مقدار کل پیداوار کے بارہویں سے چھٹے حصے تک تھی جبکہ اکبر کے وزیر مال ٹوڈرمل نے کل پیداوار کا ایک تہائی بطور مالیہ وصول کرنا شروع کیا۔ چنانچہ مغربی استعمار پسندوں کی آمد سے قبل اس خطے کے باشندے بڑی بڑی جاگیروں پر مسلط موروثی ملکیت کے دعویدار جاگیرداروں کے وجود سے ناآشنا تھے۔ البتہ وفادار راجواڑوں، نوابوں خوانین، شاہ پرستوں، اعلیٰ حکومتوں ، افسروں، دیوانوں اور قبائلی سرداروں کا ایک طبقہ ضرو ر تھا جو تخت کے نمائندوں کی حیثیت سے علاقے کی حفاظت اور انتظام کرتا تھا۔ علاوہ ازیں یہی طبقہ کاشتکاروں سے مالیہ وصول کر کے نظم و نسق اور تعمیرات کے لیے درکارمنہا کر کے باقی مالیہ دارالحکومت روانہ کر دیتا تھا۔

تاہم انیسویں صدی کے وسط میں برصغیر پر مرکزی حکومت قائم کرنے والا فرنگی اپنے مقاصد میں واضح طور پر سابقہ حکمرانوں سے اختلاف رکھتا تھا۔ جدید تاجر ہونے کی حیثیت سے گورے صاحب کا بنیادی مقصد اپنے کارخانوں کے لیے کچا مال خریدنا، اپنی مصنوعات کے لیے منڈیاں حاصل کرنا اور مقامی وسائل کو ممکنہ حد تک غصب کرنا تھا۔ برصغیر کا مروجہ خود کفیل زرعی ڈھانچہ ان کے اس مقصد کی کامیابی میں حائل ہوا۔ چنانچہ انگریزوں نے اسے درہم برہم کر کے اپنے مفادات سے مطابقت رکھنے والا نو آبادیاتی نظام قائم کیا جس کی بنیادی خصوصیات درج ذیل تھیں۔

-1 مالیہ ادا کرنے کی ذمہ داری گاﺅں یا قبیلے کی بجائے امرا پر عائد کی گئی۔ زمین کو ذاتی ملکیت بنانے کی طرف یہ پہلا قدم تھا۔

-2 قبل ازیں کل پیداوار کا ایک مقررہ حصہ مالیے کے طور پر وصول کیا جاتا تھا۔ نیز مالیہ عموماً جنس کی شکل میں ادا کیا جاتا تھا۔ انگریزی حکمرانوں نے رقبہ اور زمین کی زرخیزی کو مالیہ کی بنیاد بنایا نیز مالیہ بطور زر نقد ادا کرنا قانونی طور پر لازم قرار پایا۔ نقدی کی صورت میں مالیہ ادا نہ کرنے پر زمین ضبط کر لی جاتی تھی۔ سکہ رائج الوقت میں مالیہ ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھنے والے لاکھوں کسان راتوں رات قبائلی سرداروں اور سابق سرکاری افسروں کے مزارعے بن گئے۔

-3 زرعی پیداوار سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے انگریزوں نے ریونیو کھاتے کی بنیاد رکھی۔ زمین کے ریکارڈ کا باقاعدہ اندراج ہونے لگا۔ مزید برآں زمین کی سرکاری یا غیر سرکاری بنیادوں پر تقسیم یا الاٹمنٹ ہونے لگی۔

-4 پٹے دار، مختار کار، پٹواری، نمبردار، مقدم اور ڈپٹی کمشنر جیسے بااختیار حکام نیز پولیس کی مدد سے فرمانبردار افراد کا ایک گروہ پیدا کیا گیا جو اپنے متعلقہ علاقوں میں سیاہ و سفید کا مالک قرار پایا۔ اس بھتے دار گروپ نے اپنے آقاﺅں کے مفادات کی پاسداری میں مادر وطن کے بیٹوں پر جو ظلم ڈھائے ان کی گواہی نامور مورخ ایڈ منڈ برک نے برطانوی پارلیمنٹ میں وائسرائے وارن ہیسٹنگر کے خلاف مقدمے میں تقریر کرتے ہوئے دی تھی۔

عوام کو نو آبادیاتی نظام کی زنجیروں میں جکڑنے اور اس نظام کو عوامی شورش سے محفوظ رکھنے کے لیے غیر ملکی حکمرانوں کو ہندوستانیوں کے ایک مختصر مگر مضبوط گروہ کی سرگرم حمایت درکار تھی چنانچہ اس ضمن میں ایسے لوگوں کا انتخاب کیا گیا۔

-i جنہوں نے نئے حکمرانوں کو ملک فتح کرنے میں مدد دی تھی۔

-ii جنہوں نے سرکش قبیلوں اور بغاوتوں کو کچلنے میں انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔

-iii جنہوں نے عوام کے خلاف حکومتی ہتھکنڈوں کو کامیاب بنانے میں ہاتھ بٹایا تھا۔

چنانچہ ان شرائط پر پورا اترنے والے راجے، نواب، قبائلی سردار، سابقہ سول اور فوجی حکام، پیر، سجادہ نشین، خدمت گار، جبلی وفادار اور عادی مجرم حکمرانوں کے سایہ عاطفت میں چلے آئے۔ ان قوم فروشوں کو نوازنے کے لیے چار طریقے اختراع کیے گئے۔

-1جاگیریں

(الف) ایسٹ انڈیا کمپنی نے ابتدائی طور پر بنگال میں اپنے کارندوں کے ذریعے مالیہ وصول کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی کے بعد ’دیوانی‘ نیلام کرنے کا طریقہ اختیار کیا ۔ نیلامی میں بولی دینے والے دیوان کہلاتے تھے۔ 1773ءمیں لارڈ کارنوالس کے ’بندوبست دیوانی‘ کے بعد یہی مالیہ وصول کرنے والے ایجنٹ (مستاجر) جاگیردار اور زمیندار کہلانے لگے۔ ان کے ساتھ مالیے کی رقم طے ہوتی تھی اور یہ مقررہ مالیے کا گیارہواں حصہ بطور حق خدمت اپنے لیے رکھنے کے حقدار تھے۔ قانونی طور پر یہ نام نہاد زمیندار زمین کے مالک نہیں تھے لیکن انھیں جن زمینوں کا مالیہ وصول کرنے پر مامور کیا گیا انہوں نے خود کو ان زمینوں کا مالک قرار دینا شروع کر دیا۔

(ب) جاگیروں کی دوسری شکل پنجاب، سندھ اور سرحد میں سامنے آئی۔ یہ علاقہ 1888ءتک لق و دق صحرا تھا۔ بارش کی سالانہ اوسط بمشکل 5سے 15انچ تھی۔ کھیتی باڑی کے قطعات کم تھے۔ زیادہ علاقہ چراگاہوں پر مشتمل تھا۔ اس خطے میں نہروں کی کھدائی کے بعد انگریزوں نے سارے علاقے کو بلا دعویٰ قرار دے کر اس پر قبضہ کر لیا۔ 25، 25 ایکڑ کا مربع بنایا اور اسے منظور نظر لوگوں میں بانٹ دیا۔ مزید نہروں کی کھدائی کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی ملکیت میں اضافہ ہوتا رہا۔

مارچ 1949ءمیں حکومت پنجاب کی طرف سے ملک فیروز خان نون کی سربراہی میں زرعی تحقیقاتی کمیٹی نے تسلیم کیا تھا کہ اس علاقہ میں شاید ہی کوئی بڑا زمیندار ہو جو اپنی مملوکہ زرعی اراضی پر اپنا قبضہ 1857ءسے قبل بھی ثابت کر سکے۔ ان طرہ پوشوں کی زمینداریاں فرنگی آقاﺅں کے لطف نظر کا قصہ ہیں ۔

-2مخصوص مراعات

مسلمہ ضمیر فروشوں کو مروجہ قوانین بالائے طاق رکھتے ہوئے مخصوص مراعات سے نوازا گیا۔ مثال کے طور پر پنجاب میں نوابوں اور ٹوانوں کو نجی نہریں جاری کرنے اور کاشتکاروں سے کل پیداوار کا ایک چوتھائی بطور آبیانہ وصول کرنے کی اجازت دی گئی۔ نیز تمام جاگیرداروں کو اپنے مزارعوں سے مختلف جاگیر شاہی ٹیکس مثلًاشلوار ٹیکس اور مونچھ ٹیکس وصول کرنے کی اجازت دی گئی ۔اگر جاگیردار کو حج کا شوق چراتا تو اس کا خرچ بھی ”گنہگار“ مزارعوں کو اٹھانا پڑتا تھا۔ پنجاب اور سندھ کے کئی حصوں میں غریب مزارعے کی بیٹی اپنی شادی کی رات زمیندار کی حویلی میں اپنے والدین کی غربت کے تاوان کے طور پر گزار کر اپنے شوہر کے پاس پہنچتی تھی۔

-3خطابات اور سندیں

ابنائے وطن سے غداری اور فرنگی سے وفاداری کی یہ بامہر شہادتیں مقامی حکام سے مراعات کے حصول کا موثر ذریعہ قرار پائیں۔

-4انتظامی اختیارات

نمبرداری، ذیلداری، اور آنریری مجسٹریٹی جیسے عہدے ان نمک خواروں کے لیے مخصوص قرار پائے۔ نیز ان کے خواندہ بیٹوں اور بھتیجوں کو فوج، پولیس ، مال ، نہر اور دیگر سرکاری محکموںمیں اعلیٰ عہدوں پر ترجیح دی گئی۔ ایوب خان کے والد رسالدار میجر تھے۔ جنرل حبیب اللہ کے والد علی قلی خان افغانستان کے حکمران امان اللہ کے خلاف سازش میں کرنل لارنس کے رفیق سفر تھے۔

انگریز عہد میں سندھ کی زرعی صورت حال پنجاب کی نسبت زیادہ دگر گوں رہی۔ 1886ءمیں دیوانی عدالتوں کے معرض وجود میں آنے کے بعد دھڑا دھڑ مسلمان کاشتکاروں کے زیر قبضہ زرعی اراضی ہندو ساہوکاروں کے پاس جانے لگی۔ 1843ءمیں سندھ کی سو فیصد زرعی اراضی پر مسلمانوں کا قبضہ تھا جبکہ 1936ءمیں ایک تہائی سے بھی زیادہ زرعی رقبہ قرقیوں کی صورت میں ہندو ساہوکاروں کے پاس پہنچ چکا تھا۔ دوسری طرف 1901ءمیں قانون تحفظ اراضی پاس ہونے سے پنجاب میں کسی غیر کاشتکار کے لیے زرعی اراضی کا حصول ممکن نہ رہا۔ ادھر سندھ میں ناقص نظام آب پاشی کے باعث کمزور زرعی پیداوار کے پیش نظر انگریزوں نے دور رس منصوبے شروع کیے۔ 1923ءمیں سکھر بیراج کی تعمیر شروع ہوئی اور 1932ءمیں یہ منصوبہ مکمل ہونے پر 18357 کلو میٹر طویل نہریں جاری ہو گئیں۔ چنانچہ سندھ کے زیر کاشت رقبے میں 71گنا اضافہ ہوا۔ چھوٹے کاشتکاروں اور ہاریوں کی امید بندھی کہ زرعی خوشحالی شاید ان کے دروازوں پر دستک دے مگر ان کے دھان سوکھے ہی رہے۔ سندھ میں وسیع پیمانے پر غیر سندھیوں کی آمد شروع ہو گئی۔ دوسری طرف تنصیباب آب پاشی کے باعث سیم و تھور پھیلنے لگا۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں زیر کاشت آنے والے یہ وسیع قطعات اراضی غیر سندھیوں اور سول و فوجی حکام میں تقسیم کیے گئے۔ سکھر بیراج سے سیراب ہونے والا کمانڈ ایریا بڑے زمینداروں کو عطا کیاگیا۔ اس پر شدید احتجاج کے نتیجے میں 1947ءمیں ہاری تحقیقاتی کمیٹی قائم ہوئی جس سے حسب منشا نتائج اور سفارشات کے حصول کی غرض سے کمیٹی کی ساخت میں بار بار رد و بدل کیا گیا۔ اس کے باوجود کمیٹی کے رکن مسعود کھدر پوش کا اختلافی نوٹ تاریخی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ہاری کمیٹی کی اصل رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ جاگیردار طبقہ نہایت فرشتہ صفت اور الہیہ صفات سے موصوف واقع ہوا ہے۔ البتہ ہاریوں کی شکایات ان کی اپنی بدنیتی اور شرارتی افتاد پر دلیل ہیں۔

دراصل گورنر سندھ غلام حسین ہدایت اللہ اور وزیر اعلیٰ خان بہادر ایوب کھوڑو اس کمیٹی کی کارروائی کو سبوتاژ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہاری کمیٹی میں ہاریوں کو نمائندگی دینے کی بجائے اس میں ایک اور بڑے زمیندار کو شامل کیا اور جب عوام نے مسعود کھدر پوش کے تحریر کردہ اختلافی نوٹ کی اشاعت کا مطالبہ کیا تو مولانا عبدالحامد بدایونی کی سربراہی میں16علما کے دستخطوں سے ایک پمفلٹ شائع کر کے اختلافی نوٹ کے مصنف پر اشتراکی رجحانات کا الزام لگایا گیا۔ مسعود کھدر پوش نے اس پمفلٹ کی اشاعت پر قانونی کارروائی کی تو وزیر اعظم لیاقت علی کے دفتر میں ان سے مقدمہ واپس لینے کی درخواست کی گئی۔ اس قدر تگ و دو کے بعد یہ نوٹ جب شائع ہوا تو مسلم لیگ کی حکومت نے عوامی دباﺅ پر اپریل 1948ءمیں میاں ممتاز دولتانہ کی سربراہی میں زرعی اصلاحات کمیٹی قائم کی۔ اس کمیٹی نے بنیادی تبدیلیوں پرمبنی سفارشات مرتب کیں جن میں سے چند سفارشات ذیل میں بیان کی جا رہی ہیں۔

٭ تمام موروثی جاگیریں فی الفور ختم کر دی جائیں۔

٭ منسوخ جاگیروں کے مالکانہ حقوق مزارعوں کو منتقل کیے جائیں۔

٭ جاگیردارانہ ٹیکس اور واجبات ختم کیے جائیں۔

٭ زمینداری کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔

پاکستان مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے ایک قرارداد کے ذریعے زرعی اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کو مکمل طور پر تسلیم کر لیا ۔نیز مرکزی و صوبائی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ ان سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اس موقع پر چودھری خلیق الزمان نے تسلیم کیا کہ اختلافی نوٹ کی اشاعت سے اس قدر طوفان اٹھا تھا کہ اس قرارداد کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا تھا۔ اس قرارداد پر جاگیرداروں اور زمینداروں نے شدید مزاحمت کی۔ جس سے گھبرا کر مرکزی حکومت نے یہ کہتے ہوئے سپر ڈال دی کہ زراعت کا شعبہ بنیادی طور پر صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ چنانچہ صوبائی حکومتیں زرعی اصلاحات پر عمل درآمد کرائیں۔

اس موقع پر مغربی پاکستان کا جاگیردار ٹولہ مطمئن تھا کہ کوئی صوبائی حکومت زرعی اصلاحات کے نفاذ کی حماقت نہیں کرے گی اور یہ قرارداد محض اشک شوئی تک محدود رہے گی۔ سندھ اور پنجاب کی حکومتیں بڑے بڑے زمینداروں کے قبضے میں تھیں۔ صوبہ سرحد میں قیوم خان کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے خوانین کی حمایت درکار تھی۔ بلوچستان میں از کار رفتہ سرداری نظام قائم تھا جس کے مطابق سردار صدیوں سے پیداوار کا چھٹا حصہ وصول کرتے آ رہے تھے۔

حکومت پنجاب نے مارچ 1949ءمیں ملک فیروز خان نون کی صدارت میں ایک زرعی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی۔ اسی اثنا میں مشرقی پاکستان میں نورالامین وزارت نے 1951ءمیں ایک قانون منظور کیا جس کے تحت تمام جاگیرداریاں ختم کر کے خاندان کے لیے زرعی ملکیت کی حد 38ایکڑ مقرر کر دی گئی۔ اس سے مغربی پاکستان کے جاگیردار بری طرح سٹپٹا گئے اور انہوں نے زرعی اصلاحات کے خلاف منظم مہم شروع کر دی۔ جنوبی پنجاب کے زمیندار سید نو بہار شاہ کی قیادت میں انجمن تحفظ حقوق زمینداراں کے تحت الشریعہ قائم کی گئی۔ نوبزادہ نصرا اللہ خان انجمن کے نائب صدر مقرر ہوئے۔ مولانا مودودی اور دوسرے مذہبی انتہا پسندوں کو تھپکی دی گئی۔ دسمبر 1952ءمیں پنجاب لیگ کی مجلس عاملہ نے زرعی اصلاحات کے مخالف اراکین اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا۔ اس اجلاس میں سید نو بہار شاہ نے اپنی ٹوپی سر سے اتار کر ہوا میں لہراتے ہوئے اعلان کیا۔ "یہ ٹوپی میری ملکیت ہے اسے کوئی مجھ سے نہیں چھین سکتا اسی طرح زمینیں ہماری ملکیت ہیں جنہیں ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔‘ مشرقی پاکستان میں زرعی اصلاحات کے نفاذ سے مغربی حصے میں حکمران ٹولہ بدظن ہو گیا۔" اس ٹولے کو مشرقی پاکستان کے سیاسی و معاشی واقعات سے مستقبل میں اپنی مراعات پر ضرب پڑتی نظر آ رہی تھی۔ اس طرح سیاسی و معاشی سطح پر ملک کے دونوں حصوں میں بیگانگی بڑھنے لگی۔

بڑھتے ہوئے سیاسی و معاشی دباﺅ کے پیش نظر 1958ءمیں سندھ میں قانون مزارعت نافذ ہوا جس کے تحت ہاریوں اور مزارعوں سے بیگار اور نذرانے لینے کی ممانعت کی گئی۔ نیز جو مزارع مسلسل تین سال تک ایک ہی مالک کے کم از کم چار ایکڑ رقبے پر کاشت کرے، اس کے مستقل حقوق مزارعت بھی تسلیم کر لیے گئے۔ اس طرح پنجاب میں زرعی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں اصلاحات نافذ ہوئیں۔ 1952ءکی ان اصلاحات کے بنیادی نکات بیان کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ پاکستان میں زرعی طبقات کی نوعیت پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ پاکستان کے زرعی شعبے میں پانچ طبقات موجود ہیں۔

-1زمیندار

یہ طبقہ وسیع قطعات اراضی پر قابض ہے جو اسے تقسیم سے قبل یا بعد میں نامعلوم خدمات کے صلے میں عطا کیے گئے ۔ یہ لوگ اپنی ساری زمین بٹائی پر بے زمین کسانوں کو دیتے ہیں۔ تمام تر زرعی مشقت بٹائی پر زمین لینے والا خاندان مہیا کرتا ہے۔ یہ لوگ اپنے گماشتوں کی مدد سے حاکمیت کے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ بٹائی پر کاشت کرنے والے پیداوار سے متعلق امور میں فیصلہ کرنے کے اہل نہیں سمجھے جاتے۔ یہ لوگ کل زرعی رقبے کے 32فیصد سے زائد حصے پر قابض ہیں جبکہ تینوں صوبوں میں کل ملا کر ان کی تعداد زرعی آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

-2سرمایہ دار کاشتکار (امیر کسان)

سرمایہ دار کاشتکاروں کا مزروعہ رقبہ یا تو ان کی ذاتی ملکیت ہوتا ہے یا پھر بڑے زمینداروں سے ٹھیکے پر لیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنے سرمائے کی بنیاد پر بے زمین محنت کشوں سے اجرت کی بنا پر کام لیتے ہیں۔ یہ لوگ مالکوں کی حیثیت سے پیداوار کی تقسیم، مزدوروں کی نگرانی اور جدید پیداواری طریقوں کی آزمائش جیسے امور کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اس طبقے میں منافع اور اجرت پیداوار کی تقسیم میں بنیادی عوامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کل زرعی آبادی میں ان کی تعداد 3 فیصد سے زائد نہیں ۔

-3غریب اور درمیانے کاشتکار

یہ طبقہ اپنی مزروعہ زمین کا کچھ حصہ ٹھیکے پر بھی لے سکتے ہیں یا کچھ حصہ ٹھیکے یا بٹائی پر دے سکتے ہیں تاہم یہ لوگ پیداوار کے لیے گھریلو محنت ہی پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ لوگ دوسروں کی محنت ہتھیاتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کے لیے محنت کرتے ہیں۔

-4بٹائی پر کاشت کرنے والے کسان (مزارع)

یہ بے زمین کسان اپنی مزروعہ اراضی بٹائی پر لیتے ہیں اور زمیندار کو اس کا حصہ جنس کی صورت میں طے شدہ بنیاد پردیتے ہیں۔ بٹائی پر کاشت کرنے والے اجرت پر مزدور نہیں رکھتے اور گھریلو محنت پر انحصار کرتے ہیں۔ معمولی آمدنی کے لیے اپنی محنت فروخت کرنے والے یہ کسان زرعی آبادی کا سب سے بڑا حصہ ہیں۔

-5اجرت پر کام کرنے والے کھیت مزدور

یہ بے زمین کھیت مزدور عام طور پر امیر کسانوں یا سرمایہ دار کاشتکاروں کے ہاتھ اپنی محنت فروخت کر کے روزی کماتے ہیں۔ ان کو اجرت کا کچھ حصہ جنس اور کچھ حصہ نقد کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ انہیں زیادہ تر موسمی طور پر کام ملتا ہے اور یہ اپنی آمدنی میں زراعت کے علاوہ چھوٹی مزدوری کے ذریعے اضافہ کرتے ہیں۔

1952ءکی زرعی اصلاحات

مارچ 1949ءمیں ملک فیروز خان نون کی سربراہی میں قائم کمیٹی جاگیرداروں کے نمائندوں پر مشتمل تھی اور کمیٹی کا مقصد کسی بنیادی تبدیلی کی بجائے غیر موروثی مزارعین کو کسی قدر تحفظ فراہم کرنا اور بے دخلیوں کو روکنا تھا۔ 1952ءمیں پنجاب میں نافذ کردہ قانون مزارعت کے اہم نکات یہ تھے۔

-1 موروثی کاشتکاروں کو بھی حقوق ملکیت مل سکیں گے۔

-2 بٹائی میں مالک اراضی کا حصہ 58 فیصد کی بجائے 48 فیصد مقرر کیا گیا۔

-3 آئندہ کے لیے موروثی مزارعت پر پابندی عائد کر دی گئی۔

-4 نقدی کی صورت میں ملنے والی جاگیریں منسوخ کر دی گئیں تاہم قومی خدمات نیز مذہبی یا خیراتی اداروں کے لیے ملنے والی جاگیریں برقرار رکھی گئیں۔

-5 حکومت نجی نہروں کو اپنی ملکیت میں لے سکے گی۔

-6 سو ایکڑ سے زائد اراضی کے مالک کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ 58ایکڑ نہری یا 100ایکڑ بارانی زمین پر خود کاشت کرے۔

-7 آئندہ کے لیے جاگیر بخشی کا دستور ختم کر دیا گیا۔

-8 قبل ازیں مالک مزارع کو بلا جواز بے دخل کر سکتا تھا۔ اس قانون کے ذریعہ مزارع کی بے دخلی کو مشروط بنا دیا گیا۔ اس ضمن میں تین شرائط عائد کی گئیں۔

(الف) مزارع لگان ادا نہ کرے

(ب) مزارع زمین کاشت نہ کرے

(ج) مزارع علاقہ میں بالعموم کاشت ہونے والی فصل کاشت نہ کرے۔

1952ءکی اصلاحات میں جاگیروں کو بھی ختم کیا گیا۔ اس وقت جاگیر سے مراد ایسا رقبہ تھا جو سرکار نے مالیہ اور لگان کے بغیر دے رکھا تھا۔ علاوہ ازیں مالکوں کا ایسا رقبہ بھی جاگیر قرار پایا جس پر مالیہ ادا کرنے کی پابندی نہیں تھی۔

(جاری ہے)


courtesy: ہفت روزہ ہ’ہم شہری

No comments:

Post a Comment