Tuesday, June 2, 2009

شمالی کوریا کا جوہری تجربہ اور مغرب (Weekly Humshehri)


ڈاکٹر مجاہد مرزا
روس اور یورپی اتحاد کی مشترکہ سمٹ روس کے مشرق بعید میں سائبیریا کے دوسرے بڑے شہر خبارووسک (Khabarovsk) میں منعقد کرنے کا مقصد بتاتے ہوئے صدر روس دمتری مدویدیو نے بتایا تھا کہ اس نوعیت کی گذشتہ سمٹ کوہِ یورال کے ایک شہر خانتی مانسک (Khantimansinsk) میں ہوئی تھی تو یورپ کے تمام سربراہ کراہ رہے تھے کہ ”اف“ کس قدر دور ہے۔ ماسکو سے ساڑھے پانچ گھنٹے کا مزید ہوائی سفر کرنا پڑا ”مذاق میں کہا گیا کہ آئندہ یہ فورم کسی اور شہر میں منعقد نہ کر لیا جائے، سب نے ہنسی خوشی اتفاق کر لیا تو ہم (روسیوں) نے یہ سوچا کہ یورپی سربراہوں کو دکھایا جائے کہ اگرچہ یورپ کی جغرافیائی سرحدیں تو کوہِ یورال تک ہیں لیکن اس کی سیاسی سرحد بہت ہی دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ یوں خبارووسک یورپ کے سربراہان کا عارضی مسکن بنا جو ریل کے راستے ماسکو سے 8523 کلومیٹر دور ہے، بذریہ طیارہ بھی ماسکو سے نیو یارک کے سفر کی نسبت زیادہ وقت لگتا ہے اور ماسکو اور خبارووسک کے وقت میں آٹھ گھنٹوں کا فرق ہے، اتنا ہی جتنا ماسکو اور نیو یارک کے وقت میں البتہ نیو یارک کے لیے ماسکو کے وقت میں سے آٹھ گھنٹوں کو منہا کرنا ہوتا ہے، اس کے برعکس خبارووسک کے لیے ماسکو کے وقت میں آٹھ گھنٹوں کا اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ سمٹ میں روس اور یورپی اتحاد کے موقف متضاد رہے لیکن پھر بھی بحث سفارتی زبان میں تعمیری رہی کیونکہ وہ ساری بات ہی توانائی کے وسائل بالخصوص گیس کی فراہمی سے متعلق موجود میثاق توانائی کے بارے میں تھی جس میں روس نہ صرف شریک نہیں ہے بلکہ اس میثاق کو ازکاررفتہ اور غیر موثر سمجھتا ہے۔ دمتری مدویدیو نے اس سلسلے میں ایک نیا بین الاقوامی میکانزم وضع کرنے کی تجویز دی ہے جو توانائی کے وسائل پیدا کرنے والے، انہیں استعمال کرنے والے اور ترسیل کے لیے گزر گاہ فراہم کرنے والے ممالک سبھی کے مفادات کا یکساں طور پر تحفظ کر سکے۔

22 مئی کو خبارووسک میں یہ سمٹ تمام ہوئی۔ 23 اور 24 ہفتہ اور اتوار روس سمیت تمام یورپ میں تعطیل کے ایام ہوتے ہیں۔ 25 مئی کو علی الصبح خبارووسک کے زلزلہ پیما مرکز میں زیر زمین جھٹکے ریکارڈ کیے گئے جن کا مقام وقوعہ روس کی عوامی جمہوریہ کوریا یعنی شمالی کوریا کے ساتھ سرحد سے محض 130 کلومیٹر کی دوری پر شمالی کوریا کی سرزمین پر ایسا مقام تھا جہاں اس ملک کا عسکری ٹھکانہ ہے اور دن چڑھتے ہی شمالی کوریا نے اعلان کر دیا کہ اس نے زیر زمین جوہری تجربہ کیا ہے۔ ہلچل مچ گئی اور حسب معمول بڑے بڑے جوہری وار ہیڈز کے مالک ممالک اور ان کے حواریوں کو شدید تشویش لاحق ہو گئی۔

جزیرہ نما کوریا کا بالائی حصہ جو شمالی کوریا کے نام سے موسوم ہے کی زیادہ سرحد عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ منسک ہے مگر ایک چھوٹی سی پٹی خبارووسک سے چند سو کلو میٹر کی دوری پر روس کے ساتھ بھی جڑی ہوئی ہے۔ ریل گاڑی کے ذریعے اسی سرحد سے گزر کر شمالی کوریا کے سربراہ کم اِل جُنگ دو چار بار روس بھی آ چکے ہیں کیونکہ موصوف ہوائی سفر سے نفسیاتی طور پر خائف ہیں۔ کوریا 1945 ءسے دو حصوں میں تب سے منقسم ہے جب سے اسے ہار جانے والے جاپان کے قبضے سے دوسری جنگ عظیم میں آزاد کرایا گیا تھا۔ پھر کوریا کی جنگ شروع ہوئی جس میں ہاتھ رنگ کر پاکستان کے بھی چند گھرانے بے حد امیر ہوئے تھے۔ 25 جون 1950ءکو شروع ہونے والی اس جنگ کو 27 جولائی 1953ءمیں فائر بندی کے ایک معاہدے کے تحت روکا گیا تھا مگر ان منقسم خطوں میں مخاصمت کبھی ختم نہیں ہوئی۔ جنگ عظیم کے بعد جاپان امریکہ کے قبضے میں تھا اور سمندر کے راستے کم اِل سنگ کے حامیوں کی مخالفت میں لڑنے والوں کو امریکہ اور اس کے حواریوں سے امداد ملتی رہتی تھی۔ کم ال سنگ کی مدد چین کرتا اور کسی حد تک سوویت یونین نے بھی کی تھی۔ کم ال سنگ ایک عرصہ چین میں رہے تھے اور یوں ان کا سوویت یونین پر اعتماد متزلزل رہا تھا لیکن بہر حال سوویت یونین بھی چین کی طرح ایک سوشلسٹ ملک تھا اس لیے شمالی کوریا کو سرد جنگ کے ادوار میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک جاپان اور جنوبی کوریا سے خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا، یہ دونوں ممالک اس کے ہمسایہ ممالک ہیں۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ واحد عسکری طاقت بن گیا تھا، جرمنی کو متحد کیے جانے سے شمالی کوریا کو بھی خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں انہیں بھی زبردستی متحد نہ کر دیا جائے۔ شمالی کوریا کی فوج بہت منظم اور جری ہے مگر امریکہ جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر اس کی زمینی سرحد کے عین نزدیک اور جاپان کے ساتھ مل کر اس کی سمندری سرحدوں کے ساتھ فوجی مشقیں سرانجام دیتا رہتا ہے۔ 2009ءکے نیو یارک ٹوِن ٹاورز کے سانحے کے بعد بش صاحب نے ایران اور لیبیا کے ساتھ شمالی کوریا کو بھی ”بدی کے محور“ میں شامل کر دیا۔

ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی خاطر عراق اور افغانستان میں فوجیں اتار دیں، مگر ایران نہ صرف تیل پیدا کرنے اور بیچنے والا بڑا ملک ہے بلکہ اس کے جغرافیائی سیاسی حالات شمالی کوریا کی نسبت بالکل ہی مختلف ہیں۔ پھر بھی مغرب نے ان دونوں ممالک کے جوہری مسئلے کو ایک ہوا بنا دیا۔ ایران پر عائد کردہ پابندیوں کا اثر اس لیے بھی کم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تیل کے وسائل کو کام میں لاتا ہے، دوسرے وہ عراق اور لبنان میں اپنے حامیوں کی ایک بڑی تعداد ہونے کے باعث امریکہ کو زچ کر سکتا ہے اور کرتا ہے۔ روس کے معاشی مفادات بھی ایران سے بندھے ہوئے ہیں اس لیے ایران کو روس کا سہارا کسی نہ کسی شکل میں مل ہی جاتا ہے۔ شمالی کوریا میں قطعی مطلق العنان حکومت ہے۔ فوج کو چاق و چوبند رکھنے اور اپنے نظام کے گن گانے کے پروپیگنڈے کے اخراجات کے باعث باقی عوام کے لیے روٹی بھی کم پڑ جاتی ہے، شمالی کوریا نے جھوٹ سچ اپنے جوہری مسئلے کو خود بھی بہت ہوا دی کیونکہ اس طرح وہ مغرب سے ’ڈیل‘ کرنا چاہتا تھا۔ چھ ممالک پر مشتمل مذاکرات کی داغ بیل ڈالی گئی جن میں شمالی اور جنوبی کوریا کے علاوہ جاپان، امریکہ ، روس اور چین شامل تھے۔ اس سے پہلے 9 اکتوبر 2006 ءکو شمالی کوریا نے اعلان کر دیا تھا کہ اس نے اپنا پہلا جوہری تجربہ کر لیا ہے۔ جاپان کے زلزلہ پیما مراکز نے ریکٹر سکیل پر 4.2 درجے کا جھٹکا ریکارڈ کیا تھا مگر بعد میں ماہرین کے مطابق یہ دھماکہ حقیقی جوہری بم کی خاطر کیے جانے والے دھماکے کی طرح کا ثابت نہیں ہوا تھا۔ شش فریقی مذاکرات میں بڑی مشکل سے طے ہوا کہ شمالی کوریا اپنا یون بین (Yun bin) کا جوہری ٹھکانہ تلف کر دے گا، اپنا جوہری پروگرام ترک کر دے گا جس کے عوض امریکہ، یورپی ممالک، چین اور روس اسے خام تیل کے علاوہ دیگر معاشی رعایات دیں گے اور بجلی بنانے کے لیے لائٹ واٹر ری ایکٹرز بھی فراہم کریں گے۔ روس اور چین نے اپنی ذمہ دارایاں نبھائیں۔ شمالی کوریا نے بھی اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کے لیے کام شروع کر دیا مگر امریکہ اور یورپ اپنا وعدہ وفا نہ کرنے پر تلے رہے۔

کچھ عرصہ قبل شمالی کوریا نے دعویٰ کیا کہ اس نے خلا میں سیارہ پہنچائے جانے کی خاطر راکٹ چھوڑا ہے، بس پھر کیا تھا واویلا مچ گیا کہ سیارچے کی آڑ میں شمالی کوریا بین البراعظمی راکٹ چھوڑے جانے کا تجربہ کر رہا ہے۔ اس کشیدگی کے باعث مغرب نے شمالی کوریا پر پابندی عاید کیے جانے کی بات کی اور شمالی کوریا نے احتجاجاً شش فریقی مذاکرات میں عدم شرکت کا اعلان کر دیا۔ گذشتہ ماہ اپریل میں افواہیں گرم ہو گئیں کہ شمالی کوریا جوہری ہتھیار بنانے کا مکمل طور پر اہل ہو چکا ہے جس کی تائید میں عالمی ایجنسی برائے جوہری توانائی کے سربراہ محمد البرادی نے بھی بیان دیا۔ بالآخر 25 مئی کو شمالی کوریا نے تجربہ کر ڈالا۔

تصدیق تو ہوتی رہے گی کہ یہ واقعی درست تجربہ تھا یا نہیں لیکن دیکھنا یہ چاہیے کہ امریکہ اور روس 1991ءمیں کیے گئے سٹارٹ ون نامی معاہدے کے تحت اب تک اپنے جوہری وارہیڈز کی تعداد کو دس ہزار فی ملک سے گھٹا کر چھ ہزار فی ملک کر سکتے ہیں مگر خوف میں مبتلا ممالک کے جوہری تجربے پر ایسے بدکتے ہیں جیسے ان پر جوہری وار کر دیا گیا ہو۔ کوئی بھی صحیح العقل شخص جوہری ہتھیار بنائے جانے کے حق میں نہیں ہو سکتا مگر کمزور ممالک کو یا تو اس قدر معاشی امداد دی جائے کہ ان کا انفراسٹرکچر صحیح ہو اور لوگ خوشحال ہو کر درست قیادت کو سامنے لائیں یا پھر جوہری ہتھیاروں کے مالک بڑے ممالک کو اپنے اس نوع کے ہتھیاروں کو انتہائی کم کرنا ہو گا۔ پاکستان، جس کے پاس ایسے وار ہیڈز کی تعداد پچاس کے نزدیک ہے، اس کے عدم استحکام اور جوہری وار ہیڈز دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جانے کے خدشے کا اس قدر شور مچایا جاتا ہے جیسے جوہری وار ہیڈز نہ ہوا دستی بم ہوا، اٹھایا اور دے مارا، مگر اسرائیل کی بات ہی گول کر جاتے ہیں۔ ضمناً بتاتا چلوں کہ اتوار کے روز ریڈیو ماسکو پر دیے گئے تبصرے میں جوہری وار ہیڈز کے بارے میں درست معلومات فراہم کرنے والوں میں انگلستان اور فرانس، نہ کرنے والوں میں چین، ہندوستان، پاکستان اور اسرائیل کا نام تھا لیکن سوموار کے روز بعینہ اس طرح کے تبصرے سے اسرائیل کا نام حذف کر دیا گیا تھا۔ کچھ سمجھے آپ؟ مغرب کے دوہرے معیار رہے تو شمالی کوریا تو ایک طرف شاید سری لنکا کو بھی جوہری تجربہ کرنا پڑے۔





No comments:

Post a Comment